ذات پات یا نظامِ ذاتیات (Caste System) ہندؤں میں قدیم زمانے میں ایک نظام پایا جاتا تھا۔ جس کی تحت زمانہ قدیم سے ہندو معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا مذہبی گروہ برہمن، جو علم اور مذہب کے محافظ تھے۔ دوم چھتری یا کھتری جو دنیاوی امور کے محافظ تھے۔ سوم ویش جو زراعت یا تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے۔ چہارم شودر جو خدمت کرنے کے لیے مخصوص تھے۔ ان سب کی پیشوں کے لحاظ سے آگے متعدد کئی قسمیں ہوگئیں۔ بدھ مذہب نے ذات پات کی اس تفریق کو مٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اچھوت اور اچھوت قومیں وجود میں آئیں جن کی زندگی اب بھی باوجود علم کے نہایت تلخ گزرتی ہے اور عام انسانی حقوق تک سے ان کومحروم رکھا جاتا ہے۔ ذات پات کا نظام ہندوستان کے سوا اور کسی ملک یا معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔

گاندھی کا دورہ مدراس (اب چنائی) 1933ء میں بھارت بھر میں ہریجن کے لیے جد و جہد۔ اس دورے کے دوران میں ان کی تقریروں اور تحریروں میں امتیازی سلوک کے خلاف بھارت کی ذاتوں پر بحث کی گئی۔

بھارت میں ذات پات کا نظام ذات کے نسلی جغرافیہ کے مثالی نمونے پر ہے۔ اس کی اصل قدیم ہندوستان ہے، قرون وسطی، ابتدائی جدید اور جدید بھارت، خاص طور پر مغل سلطنت اور برطانوی راج میں مختلف حکمرانوں نے اس کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔[1][2][3][4] یہ آج بھارت میں تعلیم اور نوکری کے کوٹے کی بنیاد ہے۔[5] یہ دو مختلف تصورات پر مشتمل ہے، ایک ورنہ اور جاتی جن کو اس نظام کی مختلف سطحوں کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔[6]

جس صورت میں ذات کا نظام آج ہے، اس کے بارے خیال ہے کہ یہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے اور برطانوی سامراج کی آمد کے دوران میں نمو پایا۔[1][7] بھارتی آئین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی ہے۔ تاریخی لحاظ سے ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے شیڈیول ذاتوں اور قبائل کے لیے 1950ء میں حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں مکے لیے کوٹے کو متعارف کرایا گیا۔ سنہ 1989ء میں دیگر پسماندہ طبقات کو بھی اس کوٹے میں شامل کر دیا گیا تا کہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں ان کی پسماندگی کو ختم کی جا سکے۔

جدید بھارت میں سیکولر تعلیم کے فروغ اور شہری زندگی میں ترقی کے باعث ذات پات کے اثر میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں شہروں میں رہنے والی آبادی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیوںکہ شہروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ذات کے نوجوانوں کی دوسرے ذات میں شادیاں عام ہیں۔ کئی جنوبی ریاستوں اور بہار میں سماجی اصلاح کی تحریکوں کے اثر میں ذات پات کی نشان دہی کرنے والے ناموں کا استعمال بند کر دیا ہے۔[8]

ثقافت عامہ میں ترمیم

ملک راج آنند نے اپنے مشہور اور پہلے ناول ان ٹچ ایبل (1935ء) میں اچُھوت پن کو موضوع بنایا۔ ہندی فلم اچھوت کنینیا جس میں اشوک کمار اور دیوکا رانی نے اداکاری کی، اس موضوع پر پہلی اصلاح پسند فلم تھی۔

مزید دیکھیے ترمیم

ملاحظات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب de Zwart (2000).
  2. Bayly (2001), pp. 25–27, 392.
  3. St. John (2012), p. 103.
  4. Sathaye (2015), p. 214.
  5. "What is India's caste system?"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 25 فروری 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2017۔ Independent India's constitution banned discrimination on the basis of caste, and, in an attempt to correct historical injustices and provide a level playing field to the traditionally disadvantaged, the authorities announced quotas in government jobs and educational institutions for scheduled castes and tribes, the lowest in the caste hierarchy, in 1950. 
  6. Smith, Varna and Jati (2005), pp. 9522–9524.
  7. Bayly (2001), p. 392.
  8. انڈیا میں ذات پات کا نظام کیا ہے؟ - BBC News اردو

بیرونی روابط ترمیم

سانچہ:Reservation in India