بی بی راستی والدہ شاہ رکن عالم

آپ کا اسم گرامی بی بی راستی ہے۔ آپ کا تعلق فرغانہ کے شاہی خاندان سے تھا۔ آپ کے والد فرغانہ کے حاکم تھے جن کا نام سلطان جمال الدین تھا۔ آپ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی بہو ، صدر الدین عارف کی بیوی اور زمانے کے قطب شاہ رکن الدین عالم کی والدہ ماجدہ تھیں۔ آپ حافظہ قرآن تھیں اور باوضو ہو کر اپنے بیٹے کو دودھ پلاتی تھیں اور لوری میں بھی اپنے بچے کو قرآن سناتی تھیں۔ آپ کی وفات 695ھ میں ہوئی اور آپ کا مقبرہ ملتان سٹی اسٹیشن سے دو فرنگ جنوب میں واقع ہیں۔ آپ عوام و خواص میں ام المریدین بی بی پاکدامن سے مشہور ہیں۔ [1] آپ اپنے خسر مخدوم بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے دست حق پر بیعت ہوئیں تھیں۔ [2]

بی بی راستی (بی بی پاکدامن)
معلومات شخصیت
مقام وفات ملتان پاکستان
شوہر صدر الدین عارف
اولاد شیخ رکن الدین ابو الفتح
والد سلطان جمال الدین

شادی

ترمیم

شیخ صدرالدین عارف کو طواف بیت اللہ شریف کا از حد شوق تھا۔ خانہ کعبہ کا طواف اس وقت کرتے جب اور کوئی طواف کرنے والا نہیں ہوتا۔ ایک رات جب آپ طواف میں مصروف تھے تو فرغانہ کی شہزادی بی بی راستی جو اپنے وقت کی سلطان المشائخ تھیں، آپ سے چند قدم پیچھے طواف کر رہی تھیں۔ شہزادی کی نظر صدر الدین عارف کی پشت مبارک پر پڑی جہاں سے رہ رہ کر نور کی کرنیں منعکس ہو رہی تھی۔ شہزادی نے خداوند فراست سے معلوم کر لیا کہ "شعاع نور" کسی قطعب وقت کی ہیں جو شیخ کی صلب میں جلوہ افروز ہیں۔ چنانچہ جب شیخ طواف سے فارغ ہوئے تو شہزادی بی بی راستی نے آپ کو مخاطب کیا اور پوچھا۔ آپ کون ہیں آپ کا وطن شریف کہاں ہیں۔ حضرت نے فرمایا نام صدر الدین اور وطن ملتان۔ پھر شہزادی نے پوچھا بہاؤ الدین زکریا کا ملتان۔ جی ہاں بندے کو بہاؤ الدین زکریا کی فرزندی کا شرف بھی حاصل ہے۔ شہزادی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی، کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ شہزادی نے عرض کی اگر آپ شادی کرنا چاہیں تو ایک موزوں رشتہ آپ کو مل سکتا ہے۔ حضرت نے مسکرا کر کہا یہ معاملہ میرے والد ماجد کے متعلق ہے جب اور جس کے لیے چاہیے میں بے حیل و حجت قبول کر لو گا۔ شہزادی وطن واپس ہوئی اور جا کر تمام معاملہ اپنے والد کو بیان کر دیا۔ وہ اس خبر سے بہت خوش ہوئے، انھوں نے تمام امور ریاست وزیروں امیروں کے سپرد کیے اور ملتان شریف کے سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔ شاہی قافلہ جہاں رکتا وہاں ایک کنواں رفاہ عامہ کے لیے بنواتے۔ جب یہ قافلہ ملتان کی حدود میں داخل ہوا تو بہاؤ الدین زکریا ملتانی معہ صاحبزادگان و خلفاء استقبال کے لیے شہر سے باہر آئے۔ جس جگہ قافلے کا استقبال کیا گیا یہ وہی جگہ ہے جہاں اب بی بی راستی کا مزار مزار پرانوار ہے۔ اس جگہ ایک عالی شان محل اور باغ تھا۔ حضرت غوث العالم کی امیری نما فقیری کی شہرت شہنشاہ فرغانہ جمال الدین فرغانہ سے ہی سن کر آئے تھے پھر بھی کسی خیال کے تحت ایک تھال زرو جواہر کا اپنے ساتھ لائے۔ ایک دن جب بہاؤ الدین زکریا ملتانی اپنے حجرہ میں مصروف عبادت تھے جب جمال الدین نے یہ نظرانہ خدام کے ذریعے پیش کیا۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی اور مصلے کا ایک کنارہ اٹھا کر کہا ذرا ادھر توجہ فرمائیں۔ فرغانہ کا شاہ یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ نیچے جواہرات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ دوسرے دن عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد حسب معمول حضرت کے تمام فرزند اور اکابر خلفاء دوزانو بیٹھے ہوئے تھے، سلطان نے عرض کی حضور اس خادم کی ایک عاجزہ ہے اپنی اولاد میں سے کوئی مخدوم زادہ مرمت فرمائیں تا کہ اسے ان کی غلامی میں دے سکوں۔ حضرت زکریا نے فرمایا میرے تمام لڑکے حاضر ہیں جس کو اپنا فرزند بنانا چاہیے مختار ہیں۔ سلطان نے اشارہ صدر الدین عارف کی طرف کیا۔ بہاؤ الدین زکریا تو پہلے ہی نور باطن سے سب کچھ معلوم کر چکے تھے پھر بھی آپ سے پوچھا رشتہ منظور ہے۔ عارف باللہ اپنی جگہ سے اٹھے اور والد ماجد کے قدم شریف کو بوسہ دیا۔ دونوں طرف مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت زکریا نے سلطان کی طر ف مسکراتے ہوئے دیکھا اور فرمایا مبارک ہو۔ ساتھ ہی خدام کو اشارہ کیا کہ مٹھائی لے آؤ۔ اسی محفل میں بہاؤ الدین زکریا نے صدر الدین اور بی بی راستی کا نکاح پڑھا اور خطبہ تلاوت فرمایا۔ اس کے بعد سلطان جمال الدین نے شہزادی کا ہاتھ شیخ السلام کے دست مبارک میں دے کر فرمایا

من این عاجزہ را مسلمان روز قیامت مسلمان میخواہم

حضرت غوث العالمین نے شہزادی کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا

این فرزند من است انشاءاللہ مسلمان خواہد بود

اس کے بعد سلطان نے اجازت چاہی اور اپنے وطن فرغانہ واپس لوٹ گیا۔


گھریلو زندگی

ترمیم

بی بی راستی ایک شہزادی ہونے کے باوجود شادی کے بعد گھر کے تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ محل سرائے غوثیہ میں یتیم بچیوں ، بیوہ اور بے کس عورتوں کے علاوہ بڑے بڑے امرا کی بہو بیٹیاں بھی دینی مسائل سمجھنے کے لیے آتی رہتی تھیں۔ ان سب کے قیام و طعام کا انتظام بی بی راستی کے سپرد تھا۔ محل میں جس قدر لونڈیاں اور خادمائیں تھیں۔ ان میں اکثر عازمہ روز گار تھیں۔ صبح کے وقت جب بی بی جی چکی پیسنے بیٹھتیں تو قرآن مجید ختم کر کے اٹھتیں۔ ان سب پر بی بی کی کڑی نظر رہتی تھی۔ ان مصروفیات کے باوجود اپنے باکمال خسر اور نامور شوہر کے لیے کھانا خود تیار کرتیں۔ سردی کا موسم ہوتا تو تہجد کے لیے وضو کا پانی بھی خود ہی گرم کرتی تھیں۔

قطب الاقطاب کی بشارت

ترمیم

غوث العالمین بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے گھرانے میں یہ رسم چلی آرہی تھی کہ ہر قمری مہینے کی پہلی رات کو حرم غوثیہ کی تمام مستورات حضرت زکریا کی زیارت کو حاضر ہوا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ جب تمام بہو بیٹیاں حاضر ہوئیں تو حضرت معمول کے مطابق بیٹھے رہے لیکن جب بی بی راستی شرف پابوسی حاصل کرنے کی غرض سے آگے بڑھیں تو حضرت بہاء الدین زکریا کھڑے ہو گئے۔ بی بی صاحبہ کو تعجب ہوا کہ حضرت نے خلاف معمول یہ تکلف کیوں فرمایا۔ غوث العالم نے کشف کے ذریعے شہزادی کی اس مکش کو محسوس کر لیا اور فرمایا۔ "بیٹی! یہ تعظیم اس شخص کے لیے جو اس وقت تیرے بطن عفت میں مستور ہے وہ جہاں کا قطب الاقطاب اور ہمارے خاندان کا چشم و چراغ ہو گا۔" شہزادی نے جب یہ مبارک خبر سنی تو خوشی میں گھر کا سارا اثاثہ خیرات کر دیا۔ [3]

شاہ رکن عالم کی پیدائش و تربیت

ترمیم

9 رمضان المبارک بروز جمعہ عالم کون و مکاں میں شیخ رکن الدین ابو الفتح تشریف لائے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا نے غرباء و مساکین کے دامن زر و جواہر سے بھر دیے۔ حضرت نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہیں اور نام رکن الدین رکھا۔ بی بی راستی اپنے بیٹے کو دودھ پلانے سے پہلے وضو کر لیتی تھیں اور حضرت رکن کو لوری میں قرآن پاک سناتی تھیں۔ دودھ پلانے کے دوران اگر اذان ہونے لگتی تو حضرت رکن دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سنتے۔ بی بی صاحبہ تہجد کے لیے اٹھتیں تو نھنے رکن الدین بھی جاگ پڑتے۔ ام المرین بی بی راستی نے گھر کی نوکرانیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ نھنے رکن الدین کو سوائے اسم ذات کے اور کسی لفظ کی تلقین نہ کی جائے اور کوئی دوسرا لفظ ان کی موجودگی میں بولیں۔ اس احتیاط کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب نھنے رکن الدین بولنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے جو لفظ نکلا وہ اللہ عزوجل کا اسم گرامی تھا۔ [4]


صدر الدین کی دوسری شادی کا اہتمام

ترمیم

حضرت قطب الاقطاب جب چار سال کے ہوئے تو ایک دن حضرت شیخ صدر الدین عارف نے بی بی راستی سے فرمایا ابھی فیاض ازل نے مجھے اور اولاد عنایت کرنا ہے مگر وہ تیرے شکم سے پیدا نہیں ہوگی۔ اس سے بی بی کو فکر لاحق ہوا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے میاں کی دوسری شادی کر دوں۔ اس زمانے میں شہر کے قاضی القضاة کا گھرانہ زہد اتقاء میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ اس کی ایک لڑکی تھی جو شکل و صورت اور علم و فضل میں یگانہ تھی۔ بی بی صاحب نے قاضی صاحب کے گھر پیغام بھیجا کہ یہ بچی آپ میرے تولیت میں دے دیں تا کہ میں اس کی تربیت کروں اور علم و دانش سکھاؤں۔ قاضی صاحب بہت خوش ہوئے اور سر شام بچی کو پالکی میں ڈال کر مخدومہ کی خدمت میں لے آ ئے اور عرض کی یہ آپ کی خادمہ ہے جہاں جی چاہے شادی کردیجئے مگر اسے زندگی بھر اپنے قدموں سے دور نہ فرمائیے جو مناسب نظر آئے کیجئے میں راضی خدا راضی۔ چنانچہ بی بی نے اس مستورہ کو اپنی آغوش شفقت میں لے کر ایسی تربیت کی کہ اسے راستی ثانی بنا دیا۔ ایک دن جب حضرت عارف باللہ آرام فرما رہے تھے خلوت خانہ میں تشریف لائے۔ بی بی نے تمام معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ آپ بی بی پاکدامن کے اس ایثار پر حیران رہ گئے اور بچی کو قاضی صاحب کے گھر پہنچا دیا۔ اور پھر حضرت عارف باللہ نکاح پڑھوا کر اپنی محل سرائے میں لانے۔ [5]

وفات

ترمیم

آپ نے 695ھ میں وفات پائی۔ آپ کا مزار مائی ریلوے اسٹیشن ملتان شہر کے جنوب میں ہے۔ آپ کا مزار اقدس فیروزی رنگ کی کاشی اینٹوں سے جلوہ ریز ہے۔ خزینتہ الاصفیاء میں قطعہ تاریخ یوں درج ہے

راستی مخدومہ عالم کہ بو راست روچوں تیر انداز راستی
ہست مخدومہ وصال پاک او پاک رحلش چول تواز من خواستی

کرامتی کنواں

ترمیم

بی بی راستی کے مزار کے ساتھ ایک ایک کنواں ہے جہاں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ نہانے کی جگہ بنی ہوئی ہے اور بیمار نہانے کے بعد شفا پاتے ہیں اور منت کے طور پر مچھلی اور روٹی مزار پر تقسیم کرتے ہیں۔ اکثر عورتوں ازدحام رہتا ہے۔ [6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ ملتان مولف مولانا نور احمد خان آفریدی جلد اول صفحہ 238
  2. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 188
  3. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 38 تا 42
  4. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 46 اور 47
  5. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 42 اور 43
  6. تذکرہ اولیائے ملتان مولف امتیاز حسین شاہ صفحہ 188 اور 189