میرے عزیز بھائی وعلیکم السلام مجھے بخدا اپنی کوتاہی کا حساس ہے ، آپ کی کتاب "طلسم مٹی کا " ، حرزِ جاں و بازو بنائے پِھرتا ہوں ، وقت نکالے نھیں نکلتا ، حالانکہ آپ اپنے فن و ذات کا تعارف خود فرماگئے : ؎ایک ہی شعر ہے بس زندہ حوالہ میرا اِک وہی شعر جو دیوان میں آنے سے رہا ماشا اللہ ، "طلسم مٹی کا " ہر چہار اعتبار سے یکتا نظیر ہے ، (1) صوری ( Extrinsic) (2) معنوی ( Intrinsic) (3) لُغوی(Dictatoric) (4) بِرنائی (Potentateic) حوالوں سے آپ کی شاعری کا جواب نھیں بھائی فیروز ناطق خسروؔ صاحب ، امیر خسروؔ دہلوی نے فقط یہ کہا : اگر فردوس بر روے زمین است همین است و همین است و همین است

جناب فیروز ناطق خسروؔ نے لکھ دیا :

میں اپنے ہی ہونے سے گریزاں ہوا خسروؔ اقرار کی صورت کبھی انکار کی صورت امیر خسرو دہلوی نے لکھا : ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش! ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست آپ نے کہا : توقیر و عز و شان بھی خسرو کہیں سے لا مانا کہ تن پہ قیمتی کپڑے کا سُوٹ ہے امیر خسرو نے ثبوت دیا : خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار فیروز ناطق خسرو نے صاد فرمایا : ہر نفس اک ہم رہے شعلہ بجاں اِک دیا جلتا رہا صحرا کے بیچ امیر خسرو دہلوی نے رقم کردیا : سیج وہ سونی دیکھ کے روؤں میں دن رین پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نہ چین جناب فیروز ناطق خسرو نے چاند چڑھایا : کبھی میں سانس لے کر سانس لینا بھول جاتا ہوں کبھی موج ہوائے گُل کو میں زنجیر کرتا ہوں بھائی میرے ! پروفیسرفیروز ناطق خسرو ؔصاحب، یقین فرمائیے ، اِک مُٹّھا بغل بیچ لئے پھرتا ہوں کہ وقت پائوں تو یہ مقالہ باندھوں۔دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے ۔ اس سلسلے میں اردوے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔جبکہ انیسویں صدی کے وسط میں جناب فیروز ناطق خسروؔ،شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی

کافی دلچسپی  کا اظہار ، اپنی شاعری میں کرتے نظر آرہے ہیں :

؎ میں خود بھی اپنی صدا کو خسروؔ صدا بصحرا سمجھ کے چُپ ہوں میں گونگے بَہروں کے درمیاں ہوں خموش رہ کو پکارتا ہوں امیر خسروؔ دہلوی ، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم سازطبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے اور فن موسیقی کے اجزا جیسے "خیال"اور "ترانہ" بھی انہی کی ایجاد ہے۔ جبکہ فیروز ناطق خسرو بدایونی نے ہر صنف شعر ، مثنوی ، قصیدہ ، غزل ، ہندی، اُردو، دوہے ،مرثیہ ، گیتوغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ناطقؔ نے اردو شاعری کے سِتار پر جدید آہنگ کے تار چڑھائے ۔

 دلم طفل است و پیر عشق، استعذبان دانش ؎
    سواد لوحه سبق و مسکنت گنج دبستانش 

امیر خسرو دہلوی کی شاعری کو تحفةالصغر وسط‌الحیوة ٭غرةالکمال ٭بقیهٔ نقیه ٭نهایةالکمال

، کے تحت پرکہا گیا جبکہ جناب فیروز ناطق خسروؔ کے کلام کو :

٭قصیده شکوائیه ٭ماتم غم ٭آینه‌ داری دل کے تقاضوں کے تحت پڑھنا ہوگا ۔ (جاری ہے )

مقالہ نگار : پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی

امیر خسروؔ دہلوی بمقابلہ فیروز ناطق خسروؔ بدایونی مرحوم ترمیم

سانچہ:اھم

میرے عزیز بھائی وعلیکم السلام مجھے بخدا اپنی کوتاہی کا حساس ہے ، آپ کی کتاب "طلسم مٹی کا " ، حرزِ جاں و بازو بنائے پِھرتا ہوں ، وقت نکالے نھیں نکلتا ، حالانکہ آپ اپنے فن و ذات کا تعارف خود فرماگئے : ؎ایک ہی شعر ہے بس زندہ حوالہ میرا اِک وہی شعر جو دیوان میں آنے سے رہا ماشا اللہ ، "طلسم مٹی کا " ہر چہار اعتبار سے یکتا نظیر ہے ، (1) صوری ( Extrinsic) (2) معنوی ( Intrinsic) (3) لُغوی(Dictatoric) (4) بِرنائی (Potentateic) حوالوں سے آپ کی شاعری کا جواب نھیں بھائی فیروز ناطق خسروؔ صاحب ، امیر خسروؔ دہلوی نے فقط یہ کہا : اگر فردوس بر روے زمین است +همین است و همین است و همین است جناب فیروز ناطق خسروؔ نے لکھ دیا : میں اپنے ہی ہونے سے گریزاں ہوا خسروؔ اقرار کی صورت کبھی انکار کی صورت امیر خسرو دہلوی نے لکھا : ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش! ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست آپ نے کہا : توقیر و عز و شان بھی خسرو کہیں سے لا مانا کہ تن پہ قیمتی کپڑے کا سُوٹ ہے امیر خسرو نے ثبوت دیا : خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار فیروز ناطق خسرو نے صاد فرمایا : ہر نفس اک ہم رہے شعلہ بجاں اِک دیا جلتا رہا صحرا کے بیچ امیر خسرو دہلوی نے رقم کردیا : سیج وہ سونی دیکھ کے روؤں میں دن رین پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نہ چین جناب فیروز ناطق خسرو نے چاند چڑھایا : کبھی میں سانس لے کر سانس لینا بھول جاتا ہوں کبھی موج ہوائے گُل کو میں زنجیر کرتا ہوں بھائی میرے ! پروفیسرفیروز ناطق خسرو ؔصاحب، یقین فرمائیے ، اِک مُٹّھا بغل بیچ لئے پھرتا ہوں کہ وقت پائوں تو یہ مقالہ باندھوں۔دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے ۔ اس سلسلے میں اردوے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔جبکہ انیسویں صدی کے وسط میں ،جناب فیروز ناطق خسروؔ،شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی کا اظہار ، اپنی شاعری میں کرتے نظر آرہے ہیں : ؎ میں خود بھی اپنی صدا کو خسروؔ صدا بصحرا سمجھ کے چُپ ہوں میں گونگے بَہروں کے درمیاں ہوں خموش رہ کو پکارتا ہوں امیر خسروؔ دہلوی ، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم سازطبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے اور فن موسیقی کے اجزا جیسے "خیال"اور "ترانہ" بھی انہی کی ایجاد ہے۔ جبکہ فیروز ناطق خسرو بدایونی نے ہر صنف شعر ، مثنوی ، قصیدہ ، غزل ، ہندی، اُردو دوہے ،مرثیہ ، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ناطقؔ نے اردو شاعری کے سِتار پر جدید آہنگ کے تار چڑھائے ۔ دلم طفل است و پیر عشق، استعذبان دانش + سواد لوحه سبق و مسکنت گنج دبستانش امیر خسرو دہلوی کی شاعری کو : ٭تحفةالصغر ٭وسط‌الحیوة ٭غرةالکمال ٭بقیهٔ نقیه ٭نهایةالکمال ،کے تحت پرکہا گیا ہے،جبکہ جناب فیروز ناطق خسروؔ کے کلام کو : ٭قصیده شکوائیه ٭ماتم غم ٭آینه‌ داری دل ،کے تقاضوں کے تحت پڑھنا ہوگا ۔ مقالہ نگار : پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی

39.48.60.180 12:24, 15 جنوری 2017 (م ع و)"دبستانِ کراچی کے اہم شعرا کرام " 39.48.60.180 12:24, 15 جنوری 2017 (م ع و)"جام جم کراچی" از پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی 39.48.60.180 12:24, 15 جنوری 2017 (م ع و)"امیر خسرو دہلوی بمقابلہ فیروز ناطق خسروؔ بدایونی" [1][2][3][4][5][6][7]

39.48.60.180 12:24, 15 جنوری 2017 (م ع و)حمیدی،مجیب ظفرانوارڈاکٹرپروفیسر
  1. جامِ جم از پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی
  2. https://rekhta.org/poets/mujeeb-zafar-anwar-hameedi?lang=Ur
  3. http://archive.is/7wKU8
  4. https://ur.wikiscan.org/?menu=dates&filter=talk&sort=diff&date=20130116&list=pages
  5. https://urdublogz.wordpress.com/submit-urdu-blog-aggregator/
  6. https://www.flickr.com/photos/95393294@N03/10110368776
  7. http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=620
واپس "امیر خسرو" پر