تبادلۂ خیال:محمد نجیب اللہ

دیگر معلومات قسط 1 ترمیم

ڈاکٹر نجیب اللہ کا تعلق احمد زئی قبیلہ سے تھا، وہی قبیلہ جس سے موجودہ افغان صدر اشرف غنی تعلق رکھتے ہیں۔ 1947 میں پیدا ہونے والے نجیب اللہ نے کابل یونیورسٹی سے میڈیسن میں گریجوایشن کی تھی جہاں وہ کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے 1965 میں افغان کمیونسٹ پارٹی پی ڈی پی اے کے پرچم دھڑے میں شمولیت اختیار کی جہاں وہ ببرک کارمل کے قریب آگئے۔ کارمل جب ایوان زیریں کے رکن منتخب ہوئے تو نجیب ان کے ذاتی محافظ دستے کے سربراہ کے طور پر سیاسی حلقوں میں جانے لگے۔ 60 کی دہائی کے اواخر اور 70 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں افغان دارالحکومت میں کمیونسٹ سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہو چکے تھے۔ انہی برسوں میں پاکستانی پختون اور بلوچ قوم پرست رہنما بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رہے تھے۔ پاکستان چونکہ سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کے ذریعے امریکی حلیف تھا تو سوویت یونین میں بھی پاکستان کے لیے سرد جذبات پایا جانا قدرتی امر تھا۔ دوسری جانب بھارت کا پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اور اس تکون میں تیسرا کونا افغانستان خود تھا جسے روز اول ہی پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر تحفظات تھے۔ اس طرح سوویت یونین، بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کی مغربی سرحد پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوشاں تھے جس میں انہیں پاکستانی قوم پرست جماعتوں اور رہنماؤں کی خدمات حاصل تھیں۔ اگرچہ ہمارے قوم پرست بھی متضاد نظریات رکھتے تھے یعنی بیک وقت کمیونزم اور قوم پرستی کے دعویدار تھے تاہم فی الوقت یہ دو رنگی ہمارا موضوع نہیں۔ ڈاکٹر نجیب اللہ جو 70 کی دہائی شروع ہونے تک کمیونسٹ نظریات کے باعث خود کو صرف ڈاکٹر نجیب کہلانا پسند کرتا تھا، ان دنوں کابل میں پاکستانی قوم پرستوں سے بھی ملنے جلنے لگا۔ افغان رہنماؤں کی یہ "خوبی" بہرحال تسلیم کی جانی چاہیے کہ ظاہر شاہ ہو یا داؤد خان یا کمیونسٹ رجیم، سب یکساں طور پاکستان کے لیے منفی جذبات رکھتے تھے۔ اگرچہ اس رویے میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں کیونکہ صدیوں سے انتشار اور ناکامی سے دوچار قوم میں ایسے جذبات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب ان کے پاس ایک روشن لیکن حقیقتاً فرضی اور خیالی تاریخ بھی ہو۔اسی نام نہاد عظمت پر جب کمیونزم کا تڑکا لگا تومفلوک الحال افغانی خود کو سوویت یونین کا ہم پلہ سمجھنے لگے۔ اسی ذہنیت کے ساتھ کمیونسٹ رہنما جیسے میر اکبر خیبر، ببرک کارمل، نور محمد ترہ کئی اور نجیب پاکستانی قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے جو ان دنوں کابل کے مہمان تھے۔ نجیب اس وقت تک پرچم پارٹی میں کافی مقبول ہوچکا تھا اور "بیل یا سانڈ" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس نام کی دو وجوہات مشہور ہیں جن میں سے ہم صرف دوسری اور نسبتاً معقول وجہ کا تذکرہ کریں گے۔ اپنے نظریات کے پرچار میں شدت اور مخالفین کے لیے اس کے افعال میں سخت گیری کے باعث پرچم پارٹی میں اس کا یہ نام معروف ہوا تاہم کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسے یہ نام سوویت ایجنسی کے جی بی نے دیا تھا۔ افغانستان میں انقلاب ثور 1978 میں برپا ہوا جس میں نور محمد ترہ کئی نے صدر داؤد خان کو قتل کروا کے زمام اقتدار سنبھالی۔ نجیب اس انقلاب سے ایک برس قبل کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا رکن منتخب ہو چکا تھا۔ انقلاب کے بعد پی ڈی پی اے کے دونوں دھڑوں میں اختلافات بڑھ گئے تھے۔ اس دور میں نجیب کو پہلے ایران میں سفیر مقرر کر کے کابل کے منظر نامے سے ہٹایا گیا کیونکہ خلق دھڑے والے اسے نا پسند کرتے تھے۔ بعد ازاں اسے سفارت سے بھی معزول کر دیا گیا اور نجیب نے مشرقی یورپ میں جلا وطنی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ادھر کابل کے اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشیں عروج پر تھیں، حفیظ اللہ امین نے نور محمد ترہ کئی کو ہٹا کر اقتدار سنبھال لیا اور کچھ دن کے بعد ترہ کئی کو قتل کر دیا گیا۔ البتہ ترہ کئی سوویت یونین کے ساتھ "دوستی و تعاون کا بیس سالہ معاہدہ" کر چکا تھا اور سوویت ایجنسی کے جی بی بگرام میں اپنا بڑا مرکز قائم کر چکی تھی۔ حفیظ اللہ امین کے بارے میں کے جی بی کو شبہ تھا کہ امین درپردہ طور پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہے لہذا سوویت فوجی دستوں نے حفیظ کو قتل کر کے اقتدار کی کرسی پر اپنے کٹھ پتلی ببرک کارمل کو بٹھا دیا۔ اقتدار میں اس تبدیلی کے بعد نجیب پراگ سے واپس کابل پہنچا ۔ افغانستان میں سوویت افواج کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور اسلام پسند مجاہدین پاکستان کی مدد سے جہاد لانچ کر چکے تھے، ان حالات میں سوویت یونین کو افغانستان میں ایک مضبوط بلکہ خونخوار خفیہ ایجنسی کی ضرورت تھی جو اندرونی محاذ سنبھالنے کے علاوہ پاکستان کو بھی سبق سکھا سکے۔ سوویت کے جی بی کا سربراہ پولٹ بیورو کا اہم ترین رکن یوری آندروپوو تھا جسے آگے چل کر صدر برزنیف کے بعد روس کی صدارت بھی سنبھالنا تھی۔ اس نے افغان خفیہ ایجنسی "خاد" کو وسعت دینے اور فعال کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کی ذاتی ہدایات پر نجیب کو میجر جنرل کا عہدہ دے کر خاد کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ نجیب نے خاد کو مکمل طور پر کے جی بی کے مشیروں کی ہدایات کے مطابق فعال بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اس کی آمد سے قبل خاد میں صرف 100 سے 150 ایجنٹ کام کر رہے تھے۔ نجیب نے خاد کے کام کو چار مختلف ڈویژنز میں تقسیم کیا اور چار ڈپٹی ڈائریکٹرز کا تقرر کیا۔ البتہ مشرقی روایات کے عین مطابق اہم عہدوں پر اپنے رشتے داروں کو ترجیحاً تعینات کیا تاہم اس کے دور میں خاد کے ملازمین کی تعداد 150 سے بڑھ کر تیس ہزار تک جا پہنچی، ایک لاکھ سے زائد مخبر اور جزوقتی ملازمین اس سے الگ تھے۔ خاد کو افغان حکومت سے دفاعی بجٹ میں ایک بڑا حصہ ملنے کے ساتھ ساتھ کے جی بی سے بھی بھاری فنڈز ملنے لگے۔ خاد کا سب سے بڑا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظریات کی ترویج، مخالفوں کا صفایا اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں تھے۔ خاد کے تربیتی پروگراموں میں جو کچھ پڑھایا سکھایا جاتا تھا اس کا خلاصہ تھا کہ ہر ایجنٹ کے ایک ہاتھ میں کمیونسٹ نظریات کی کتاب ہونی چاہیے اور دوسرے میں بندوق ۔۔۔۔ یعنی جسے یہ نظریات تسلیم کرنے میں تامل ہو، وہ موت کا حقدار ہے۔ بحوالہ: Afghanistan: The Soviet Invasion and the Afghan Response by Mohammed Hassan Kakar … P 156-161 Afghanistan: The First Five Years of Soviet Occupation by J. Bruce Amsutz … P264-268 --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 07:04، 4 جولائی 2019ء (م ع و)

امین صاحب، اس علاقے کی پر آشوب تاریخ کا نچوڑ اگر آپ مضمون میں شامل فرمائیں تو سونے پر سہاگا ہوگا۔ --مزمل الدین (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:37، 4 جولائی 2019ء (م ع و)
جی تبادلہ خیال پر اسی وجہ سے مواد شامل کیا ہے کہ جب کبھی وقت ملے مضمون میں شامل کرسکوں۔--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:14، 6 جولائی 2019ء (م ع و)
  بہت اچھے!--مزمل الدین (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:22، 6 جولائی 2019ء (م ع و)

دیگر معلومات قسط 2 ترمیم

افغان خفیہ ایجنسی خاد (خدمات اطلاعات دولتی) کے سربراہ اور منسٹر فار سٹیٹ سکیورٹی کے طور پر ڈاکٹر نجیب کا کردار افغان تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ افغان کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر سوویت افواج افغانستان میں داخل تو ہو گئیں تھیں لیکن انہیں بہت بڑے پیمانے پر عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ افغانستان کو "کمیونائز" کرنے کے لیے کے جی بی نے خاد کی بھرپور سرپرستی کی۔ اسی سرپرستی کے باعث ڈاکٹر نجیب افغانستان میں ببرک کارمل کے برابر اہمیت کا حامل تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ نجیب سوویت پولٹ بیورو اور کے جی بی میں اپنے تعلقات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ اس کے دور میں خاد میں موجود اس کے رشتے دار اور دوست کرپشن کی گنگا میں جی بھر کر نہائے، اسی طرح جیسے کچھ عرصہ قبل افغان پولیس کا سربراہ اور خود ساختہ نیم خواندہ جرنیل عبد الرازق اچکزئی اپنے عہدے اور اختیارات کو کرپشن کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ نجیب نے خاد کو اندرون ملک دو بڑے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ خاد کا ایک نشانہ اسلام پسند مجاہدین تو تھے ہی لیکن اس نے پی ڈی پی اے میں پرچم کے مخالف دھڑے "خلق" کو بھی نہیں بخشا۔ خاد کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا تاہم صرف کابل ہی میں خاد کے کم از کم آٹھ حراستی مراکز تھے جن میں سب سے زیادہ بدنام پل چرخی جیل تھی۔ نجیب کے چھ سالہ دور بطور سربراہ خاد، صرف پل چرخی جیل میں 27000 افراد کو تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا جن میں پروفیسر، ڈاکٹرز، انجنئیرز، طلبا، سرکاری ملازمین، سابق فوجی اورمعاشرے کے سرکردہ افراد شامل تھے۔ ان میں سے تقریباً 3000 افراد کا تعلق خلق دھڑے سے تھا اور ان کا قصور محض پرچم دھڑے کی مخالفت تھی۔ دیگر افراد وہ تھے جو افغانستان میں کمیونزم کو خوش آمدید کہنے پر تیار نہیں تھے یا انہیں حکومتی پالیسیوں سے اختلاف تھا اور وہ تحریر و تقریر پر کمیونسٹ پابندی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ نجیب کے بارے مشہور تھا کہ وہ ان حراستی مراکز میں تشدد کے متعدد سیشنز میں خود موجود ہوتا تھا اوراس عمل کی نگرانی کرتا تھا۔سوویت افواج کے انخلاء اور نجیب کے دور صدارت کے خاتمے تک کابل کے تمام حراستی مراکز میں تشدد کے ذریعے اگلے جہان روانہ کیے جانے والوں کی کل تعداد 50000 سے تجاوز کر چکی تھی۔ ہمارے ہاں بعض نام نہاد سوشلسٹ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تشدد کی کہانیاں محض مغربی ذرائع ابلاغ کا پراپیگنڈا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 14 اکتوبر 2005 کو ہالینڈ کے شہر "دی ہیگ" کی عدالت نے خاد کے ان دو سینئیر افسروں کو 12 اور 9 سال کی سزائے قید سنائی جن پر کابل میں سیاسی مخالفین پر تشدد میں ملوث ہونے اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا الزام تھا۔حسام الدین حسام اور حبیب اللہ جلال زئی نے 90 کی دہائی کے دوران ہالینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ مختلف عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد ڈچ سپریم کورٹ نے 10 جولائی 2008 کو ان سزاؤں کی توثیق کر دی۔ افغانستان میں سوویت افواج کی آمد اور کمیونزم کے پھیلاؤ کی کوشش نے افغان عوام کو جو تحائف دیے، وہ ہمارے سوڈو دانشور حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اس جنگ نے 50 لاکھ سے زاید افغانیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جن میں سے 30 لاکھ سے زائد نےصرف پاکستان میں پناہ لی جبکہ لاکھوں ایران اور دوسرے ممالک میں دربدر ہوئے۔ ان مہاجرین کے علاوہ 20 لاکھ افراد افغانستان کے اندر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے (انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز)۔ اتنا بڑا انسانی سانحہ صرف اس لیے وقوع پذیر ہوا کہ عوام پر ان کی مرضی کے بغیر ایک درآمد شدہ نظریہ نافذ کیا جا رہا تھا۔ اس جنگ میں سوویت افواج کے انخلا تک کم و بیش 60000 مجاہدین جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ دوسری جانب 16000 سوویت فوجی بھی محض اپنی قیادت کی ہوس ملک گیری کی نذر ہوئے۔ ان کے علاوہ 23000 افغان فوجی کابل انتظامیہ کی جانب سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ان سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس جنگ میں جاں بحق ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد دس لاکھ سے زاید ہے جن میں سے اکثر سوویت اور افغان فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ سوویت افواج نے افغان فورسز اور خاد کے ساتھ مل کر 17000 گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ اس مقصد کے لیے سوویت فضائیہ، افغان فضائیہ اور بھاری توپخانے کا استعمال کیا گیا۔ پورے پورے دیہاتوں کو اتشگیر مادے سے جلا کر خاکستر کیا گیا، جس شخص کے بارے میں خاد کے مخبر یہ اطلاع دیتے کہ اس کا تعلق مجاہدین سے ہے، اس کے پورے گھرانے کو ٹینکوں سے روند دینا اس دور میں ایک معمول کی کارروائی تھی۔ ان تمام مظالم کے باوجود کابل انتظامیہ اور سوویت افواج افغانستان کے محض ایک چوتھائی حصے پر ہی کنٹرول رکھ پائیں۔ بقیہ افغانستان مستقل طور پر ایک میدان جنگ بنا رہا جس کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سوییت در اندازی کے خلاف بر سر پیکار مجاہدین میں سنی اور شیعہ گروپ دونوں ہی شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور ان گروپوں کو پاکستان، سعودی عرب اور مغربی دنیا کے علاوہ ایران کی انقلابی اسلامی حکومت کی بھرپور امداد بھی حاصل تھی۔ بحوالہ: The Encyclopedia of Middle East Wars: The US in the Persian Gulf, Afghanistan and Iraq Conflicts By Spencer Tucker 2010 The Russians in Afghanistan 1979-1989 by Rodric Braithwaite The Hague Justice Portal US-Pakistan Relationship: Soviet Intervention in Afghanistan by A. Hilali 2005 Afghanistan’s Forgotten War Crimes ….abc.net.au/news Afghanistan: The Soviet Invasion and the Afghan Response 1979-1982 by M. Hassan Kakar 1995 --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:28، 4 جولائی 2019ء (م ع و)

دیگر معلومات قسط 3 ترمیم

افغانستان میں پے در پے ناکامیوں پر سوویت قیادت جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔ سوویت یونین کی قیادت برزنیف سے یوری آندروپوو کو منتقل ہو چکی تھی لیکن وہ بھی ببرک کارمل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ سوویت قیادت نے کارمل انتظامیہ پر عدم اعتماد کا پہلا اظہار 1983 میں کیا تھا لیکن ابھی افغان پولٹ بیورو میں کارمل کی کافی حمایت تھی اور دوسری جانب روسی بین الاقوامی محاذ پر اپنے لیے حفیظ اللہ امین کے واقعے جیسی بدنامی سمیٹنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ افغانستان کی داخلی سیاست میں نجیب اپنے قدم مضبوطی کے ساتھ بڑھا رہا تھا۔ نومبر 1985 میں اسے پی ڈی پی اے کے مرکزی سیکرٹریٹ میں نامزد کر دیا گیا اور جنوری 1986 میں اس نے خاد کو ایک ایجنسی سے ترقی دلوا کر ایک مکمل وزارت کا درجہ دلا دیا۔ یہ نجیب کا اقتدار کے ایوان میں ایک بڑا قدم تھا۔ اس وقت سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کی سیکرٹری شپ میخائیل گورباچوف کے ہاتھ میں تھی اور گوربا چوف افغان مسئلے کا ایسا حل چاہتا تھا جس میں سوویت یونین کی کم سے کم سبکی ہو سکے۔ سوویت یونین کی حمایت سے 4 مئی 1986 کو نجیب پی ڈی پی اے کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اگرچہ اس وقت ببرک کارمل ملک کا صدر ہونے کے ساتھ انقلابی کونسل کے پریذیڈیم کا چئیرمین بھی تھا لیکن اس کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی۔ روسی بھی جانتے تھے کہ کابل حکومت کا واحد ستون خاد ہے لہٰذا ان کی نظروں میں کارمل کی اہمیت نہیں رہی۔ دوسری جانب نجیب نے سوویت قیادت کو افغان مسئلے کے حل کے لیے اپنا ایک فارمولا پیش کیا جس کے تحت ملک میں ایک مصالحتی منصوبہ بروئے کار لایا جانا تھا اور نجیب کے مطابق کارمل اس منصوبے میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا۔ سوویت مشیروں نے ببرک کارمل کو اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کر لیا اور نومبر 1986 میں پی ڈی پی اے نے کارمل کو انقلابی کونسل کی قیادت سے ہٹا دیا۔ ببرک کارمل نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور خاموشی سے ماسکو چلے جانے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اسے ترہ کئی اور امین کا انجام پوری طرح یاد تھا۔ ببرک کارمل کی جگہ حاجی محمد چمکنی کو عارضی طور پر انقلابی کونسل کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جو 30 ستمبر 1987 کو نجیب کے صدارت سنبھانے تک یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔ کارمل کی رخصتی سے قبل ہی ستمبر 1986 میں نجیب نے ایک "نیشنل کمپرومائز کمیشن" قائم کر دیا تھا جس کا مقصد انقلاب مخالف قوتوں کے ساتھ رابطہ کرکے ملک میں مصالحت پیدا کرنا تھا تاکہ کسی نہ کسی طرح اسلام پسند مجاہدین کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت سوویت ایجنسیوں اور افغان حکومت کی طرف سے مجاہدین سمیت کم و بیش 40000 جنگجوؤں سے رابطہ کیا گیا اور انہیں بھاری مراعات کے عوض حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیز یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ منصوبے کی کامیابی کی صورت میں ان لوگوں کو آئندہ حکومت میں حصہ دار بھی بنایا جائے گا۔ یہ کوشش جزوی طور پر کامیاب رہی۔ اس کے دو بڑے نتائج برآمد ہوئے ۔۔۔۔ ایک، افغانستان کے شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو برسوں کی خانہ جنگی سے تنگ آ چکے تھے، حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے اور کابل کی سرکاری فوج کی شہروں میں مزاحمت میں کچھ کمی آگئی۔ دوسرا بڑا اور منفی نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد ایسے جنگجو گروہ وجود میں آگئے جن کا مقصد صرف مفادات کا حصول تھا۔ یہ گروہ اپنے وار لارڈز کی سربراہی میں صرف مالی مفادات کے لیے وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے تھے۔ یہ گروہ آئندہ چل کر افغان معاشرے میں کشت خون کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کے ذمہ دار بھی بنے۔ اسی نیشنل ری کنسلیئیشن کمیشن نے 1986 میں ملک کے لیے ایک نیا آئین بھی ترتیب دیا جس میں کئی بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔ جولائی 1987 میں ملک کا سرکاری نام ڈیموکریٹک ریپبلک اَو آفغانستان سے تبدیل کر کے ریپبلک اَو افغانستان کیا گیا، گویا کمیونزم سے مراجعت کا سفر شروع کیا گیا۔ نئے آئین کے تحت جس کا نفاذ نومبر 1987 میں ہوا، صدارتی اختیارات میں کمی کی گئی تاکہ دوسرے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ پاور شئرنگ کی جا سکے۔ جون 1988 میں انقلابی کونسل کی جگہ ایک قومی اسمبلی قائم کی گئی۔ انقلابی کونسل کی نامزدگی پارٹی قیادت کیا کرتی تھی تاہم قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے تھے۔ سوویت یونین اس جنگ میں اپنا بھاری نقصان کروا چکا تھا اور افغانستان سے واپس جانے کا محفوظ راستہ چاہتا تھا۔ اسی سلسلے میں 14 اپریل 1988 کو اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں ایک معاہدے پر افغانستان، سوویت یونین، پاکستان اور امریکا نے دستخط کیے جس کے تحت سوویت افواج کو 15 مئی 1988 سے 15 فروری 1989 کے درمیان اپنی افواج کا انخلاء مکمل کرنا تھا تاہم گورباچوف نے کابل انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ اسے مالی امداد اور اسلحے کی فراہمی جاری رہے گی۔ دوسری طرف افغان مجاہدین اس معاہدے کا حصہ نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کابل انتظامیہ کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ گویا اب صرف افغانوں کو آپس میں لڑ کر اس قضیے کا فیصلہ کرنا تھا ۔ افغانستان کے داخلی محاذ پر نجیب کو مجاہدین کے علاوہ پی ڈی پی اے کے اندرونی حلقوں سے بھی مخالفت کا سامنا تھا جو کمیونزم سے مراجعت کو اپنی اور حکومت کی ناکامی گردان رہے تھے لیکن نجیب کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ 1989 میں افغان وزارت تعلیم کو ہدایات دی گئیں کہ یونیورسٹیوں کو سوویت اثرات سے پاک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جائیں۔ یہ کمیونزم کی بطور نظریہ ایک بڑی شکست تھی۔ اسی طرح 1990 میں پی ڈی پی اے کے بعض ارکان نے مارکسزم سے مکمل قطع تعلق کا اعلان کر دیا اور قرار دیا کہ پارٹی کے تمام ارکان مسلمان ہیں (قہقہہ)۔ اس سے قبل نئے آئین کے تحت ملک سے یک جماعتی نظام ختم کر کے سیاسی جماعتیں بنانے اور انتخابات لڑنے کی آزادی دی گئی۔ 1987 میں بلدیاتی اور 1988 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میں حکومت مخالف مجاہدین نے حصہ ہی نہیں لیا اور یوں ایک برائے نام سی پارلیمان وجود میں آئی جس کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بحوالہ: The Russians in Afghanistan 1979-1989 by Rodric Braithwaite US-Pakistan Relationship: Soviet Intervention in Afghanistan by A. Hilali 2005 War, Politics and Society in Afghanistan by Antonio Giustozzi 2000 --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:08، 5 جولائی 2019ء (م ع و)

دیگر معلومات قسط 4 ترمیم

نجیب کو معلوم تھا کہ کمیونسٹ انقلاب کے باوجود افغان عوام سے اسلامی عقائد اور کلچر کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اسلام پسند حلقوں کو مطمئن کرنے کے لیے 1987 میں اس نے اپنے نام کے ساتھ "اللہ" کا لفظ واپس جوڑ لیا جو برسوں پہلے کمیونزم سے وابستگی کی بنا پر ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ نجیب نے ملک میں متعدد ایسے اقدامات کی منظوری بھی دی جس سے حکومت کو اسلامی قرار دیا جا سکے۔ 1987 کے آئین کی شق 2 کے تحت ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور شق 73 کے تحت ملک کے سربراہ کا مسلم خاندان میں پیدا ہونا لازم قرار دیا گیا۔ لیکن عملی طور پر ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ عوام نجیب کی "اسلامی پسندی" سے بخوبی آگاہ تھے۔ کچھ ایسا ہی حشر اس کی اقتصادی پالیسیوں کا بھی ہوا جہاں روس کے ساتھ 1986 کے پانچ سالہ اقتصادی معاہدے کے بعد معاشی ترقی کی شرح کو 25 فیصد تک لے جانے کے دعوے کیے گئے تھے لیکن یہ شرح محض دو فیصد ہی رہی۔ نجیب کے اقتدار کو سب سے بڑا سہارا سوویت افواج کا تھا۔ 14 فروری 1989 کو آخری سوویت فوجی نے افغان سرزمین سے اپنے قدم باہر رکھے تو نجیب کو اپنا انجام سامنے نظر آنے لگا۔ صرف چار دن بعد یعنی 18 فروری 1989 کو نجیب نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ پی ڈی پی اے جس نیا نام وطن پارٹی تھا، کے اندر بھی نجیب کی مخالفت بڑھ رہی تھی۔ کمیونسٹ ارکان خصوصاً کارمل کے حامی نجیب کے مصالحتی پروگرام کے خلاف تھے اور اسے انقلاب ثور سے بے وفائی سمجھتے تھے۔ دوسری جانب مسلم عوام بھی نجیب کے اقدامات سے مطمئن نہیں تھے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے دس روز کے اندر اندر تحریر و تقریر اور آزادی اظہار رائے پر پابندی عاید کر دی گئی اور 1700 سے زاید ایسے افراد کو گرفتار کر لیا گیا جو نجیب کے اقدامات کی کسی طرح بھی مخالفت کر رہے تھے۔گرفتار شدگان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو افغانستان کے وسائل پر نجیب اور اس حواریوں کے تسلط کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد ملک و قوم کے خیر خواہ دانشور طبقے کی بھی تھی۔ افغانستان کی اپنی پیداوار اور وسائل تو نہایت معمولی تھے البتہ سوویت یونین سے اسے بھاری امداد مل رہی تھی اور ہر شکل میں مل رہی تھی۔ سوویت یونین کی افواج کا انخلا مکمل ہو چکا تھا لیکن خوراک، ایندھن، اسلحہ، گولہ بارود اورمشینری کے بھاری ذخائر کابل حکومت کو دیے گئے۔ صرف 1990 میں سوویت یونین نے 3 ارب امریکی ڈالر کی امداد نجیب کو دی لیکن اس کا بڑا حصہ بھی کرپشن اور وار لارڈز کی وفاداریاں خریدنے کی نذر ہو گیا۔ جب دسمبر 1991میں سوویت یونین کا انہدام ہوا تو افغان حکومت کے پاس سردیوں کا موسم گزارنے کے لیے بھی راشن اور ایندھن نہیں تھا۔ مجبوراً نجیب کو نو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں سے اسلامی مجاہدین کا خوف دلا کر 5 لاکھ ٹن گندم اور 6 ملین بیرل تیل کی بھیک مانگنا پڑی۔ سوویت انخلا کے بعد جہاں افغانستان کو روسی امداد جاری تھی، وہیں افغان مجاہدین کے پاکستانی مدد و تعاون بھی موجود تھا ۔۔۔۔ گویا دونوں جانب سے جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ نجیب نے سوویت امداد کے بل پر ملکی افواج کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھا لی لیکن یہ غیر تربیت یافتہ اور جذبے سے عاری فوج کابل انتظامیہ کا دفاع کرنے کے قابل نہیں تھی۔ اگرچہ مجاہدین کی جلال آباد کو فتح کرنے کی پہلی کوشش ناکام رہی اور انہیں بھاری جانی نقصان کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا لیکن افغان فوج میں بد دلی بڑھ رہی تھی۔ دوسری جانب ماسکو میں واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے۔ دسمبر 1991 میں سوویت یونین تحلیل ہوا ،گوربا چوف کی جگہ بورس یلسن صدر بن گیا جسے افغانستان اور نجیب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نجیب نے سابق سوویت وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورناٹزے کو خط لکھا اور اپنی خدمات اور سوویت وعدے یاد دلائے لیکن جہاں سوویت یونین کی اپنی ریاستیں آزاد ہو رہی تھیں، وہاں افغانستان میں کسے دلچسپی ہو سکتی تھی۔ شیورناٹزے نے نجیب کے خط کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ جنوری 1992 میں نئی روسی حکومت نے افغانستان کے لیے امداد ختم کر دی جس کے اثرات فوری طور پر افغان حکومت اور فوج پر نظر آئے۔ افغان فضائیہ کی کارروائیاں روکنا پڑیں اور اسلحے کی کمی کا سامنا ہونے لگا۔ 1990 اور 1991 میں ہی سوویت یونین کے مشیر نجیب کو خبردار کر چکے تھے کہ کابل حکومت عملی طور پر افغانستان کے صرف 20 فیصد حصے پر کنٹرول کر رہی ہے اور وہ بھی صرف بڑے شہری علاقوں پر۔ اب روسی امداد ختم ہونے کے بعد مجاہدین کی پیش قدمی میں تیزی آ رہی تھی اور شہر ایک کے بعد ایک نجیب کے ہاتھوں سے نکلنے لگے۔ 1992 کے اوائل میں "افغان قومی مصالحتی منصوبے" کی پانچویں سالگرہ (یا برسی) کے موقع پر نجیب کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ اس نے افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار سوویت یونین کو قرار دیتے ہوئے سوویت افواج کے انخلا کے دن کو "یوم نجات" کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اب نجیب کی قسمت پر مہر لگ چکی تھی۔ اس کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔مجاہدین کی پیش قدمی جاری تھی۔ مارچ 1992 میں نجیب نے رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دینے کی پیش کش کی تاکہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک ایسی حکومت بنائی جائے جس میں تمام فریقین کی نمائندگی ہو۔ یہ پیشکش مجاہدین نے مسترد کر دی۔ 14 اپریل 1992 کو مجاہدین نے کابل سے70 کلومیٹر دور بگرام کے اڈے پر قبضہ کر لیا۔ نجیب حکومت صرف کابل تک محدود ہو چکی تھی۔ وطن پارٹی کے ارکان کی میٹنگ میں نجیب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تاکہ مجاہدین کے انتقام سے محفوظ رہا جا سکے۔ کابل کی فوج کے چار جرنیلوں نے نجیب سے استعفیٰ لے کر احمد شاہ مسعود کو کابل آنے کی دعوت دی۔ مسعود کا ساتھ رشید دوستم بھی دے رہا تھا جو کبھی نجیب کا ساتھی بھی رہ چکا تھا۔ نجیب کے بعد مجاہدین کی باہمی چپقلش اور لڑائی ایک الگ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔ نجیب نے استعفیٰ دینے کے بعد اقوام متحدہ سے معافی (ایمنیسٹی) کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے وہ بھارت چلا جائے جہاں اس کی اہلیہ اور بیٹیاں پہلے ہی پناہ لے چکی تھیں لیکن اس کے کابل چھوڑ کر بھارت فرار ہونے میں جو وجہ رکاوٹ بنی، وہ خود اس کی پیدا کردہ تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نجیب نے مجاہدین کا زور توڑنے کے لیے بھاری رقوم اور مراعات سے کئی وار لارڈز کو کھڑا کیا تھا، انہی میں سے ایک رشید دوستم بھی تھا۔ 17 اپریل 1992 کو اگر نجیب بھارت فرار نہیں ہو سکا تو اس کی وجہ بھی یہی دوستم تھاجس کے قبضے میں کابل کا فضائی اڈہ تھا۔ نجیب نے اقوام متحدہ کے نمائندے بینن سیوان کے ساتھ خفیہ طور پر بھارت جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ بینن نے متوقع سفارتی بدمزگی سے بچنے کے لیے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لے لیا تھا اور بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے بھی نجیب کے لیے سیاسی پناہ اور سرکاری مہمان کا درجہ دینے کی یقین دہانی حاصل کر لی تھی۔ صبح تین بجے نجیب اپنے محافظوں اور اقوام متحدہ کے عملے کے ساتھ کابل ائرپورٹ پہنچا لیکن رشید دوستم کے ازبک سپاہیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ رن وے پر طیارہ موجود تھا، بینن سیوان طیارے کے اندر منتظر تھا،تیاری مکمل تھی لیکن قسمت کو منظور نہیں تھا۔ دوستم نے ائر پورٹ کو آئندہ 24 گھنٹوں تک ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ غصے سے بھرا ہوا نجیب دوستم کے سپاہیوں کو گالیاں دیتا واپس مڑا لیکن اسے اطلاع ملی کہ اس کے وزیر سٹیٹ سکیورٹی جنرل غلام فاروق یعقوبی کی لاش گھر سے ملی ہے۔ اسے قتل کیا گیا یا کچھ اور ہوا، یہ معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس سے نجیب کو یہ احساس ضرور ہو گیا کہ وہ اب صدارتی محل یا اپنے گھر میں محفوظ نہیں۔ چنانچہ اس نے اقوام متحدہ کے دفتر جانے کو ترجیح دی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق نجیب کے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ افغان فوج کے سربراہ جنرل عظیمی اور وزیر خارجہ عبد الوکیل نے بینن سیوان کو سخت سست کہا اور عبدالوکیل نے ریڈیو کابل سےاعلان کیا کہ نجیب اللہ کے بھارت فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ آمر کو افغان عوام کےخلاف جرائم کا حساب دینا ہوگا تاہم ان کی جان کو کوئی (فوری) خطرہ نہیں۔سفارتی حلقوں کے مطابق نجیب کے فرار کی ناکام کوشش بھارتی ایجنسیوں کی نا اہلی تھی کیونکہ انہوں نے صرفایک منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے کی ناکامی کی صورت میں ان کے پاس کوئی متبادل منصوبہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ کے افسروں نے بھارت سے درخواست کی کہ نجیب کو بھارتی سفارتخانے میں سیاسی پناہ دے دی جائے لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔ افغانستان اور پاکستان میں بھارت کے سابق سفیر جے این ڈکشٹ کے مطابق نئی دلی حکام کو خدشہ تھا کہ معاملہ کھل جانے کے بعد نجیب کو سیاسی پناہ دینے سے بھارتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا ۔۔۔۔ ہاں اگر پہلے منصوبے کے مطابق نجیب بھارت پہنچ جاتا تو اسے سیاسی پناہ دی جا سکتی تھی۔ نجیب کے دوستوں نے بھارت سے درخواست کی کہ بھارتی فضائیہ کے کسی طیارے کے ذریعے نجیب کو کابل سے نکالا جائے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی کو مطلع کیا کہ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ بطروس غالی اس سلسلے میں پاکستان اور مجاہدین سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کر لیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں تھا چناچہ بھارت نے نجیب کی اہلیہ اور بیٹیوں کو پناہ دینے پر ہی اکتفا کیا۔ اس واقعے کے برسوں بعد رشید دوستم نے ایک بھارتی انٹیلیجنس افسر سے کہا تھا کہ اگر بھارت واقعی نجیب اللہ کو بچا کر لیجانا چاہتا تھا تو اسے (دوستم کو) اس کی صحیح قیمت ادا کی جانی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی۔ بھارت نے نجیب کو بچانے کی ایک اور کوشش 1994 میں کی جب بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سیکرٹری بھدرکمار کو احمد شاہ مسعود کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھجوایا گیا کہ بھارت کابل کے ساتھ تعلقات کا احیا چاہتا ہے، افغانستان میں بھارتی مشن دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جائے اور نجیب کو بھارت بھیج دیا جائے۔ لیکن مسعود نے بھارتی پیشکش کو اس باعث مسترد کر دیا کہ اس طرح نجیب آئندہ مسعود کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی جاری تھی پاکستانی حمایت یافتہ طالبان گزشتہ مجاہدین کے زیر کنٹرول علاقے قبضے میں لیتے جا رہے تھے۔ ستمبر 1996 میں جب طالبان کابل کے قریب پہنچ چکے تھے تو احمد شاہ مسعود نے نجیب کو کابل سے فرار ہونے میں مدد کی پیشکش کی لیکن نجیب کو احمد شاہ مسعود پر اعتماد نہیں تھا۔ مسعود اس سے قبل اقوام متحدہ کے اس دفتر پر متعدد بار حملے کرا چکا تھا جہاں نجیب پناہ گزین تھا۔ 26 ستمبر 1996 کو طالبان نے اقوام متحدہ کے اس دفتر پر دھاوا بول دیا اور نجیب اور اس کےبھائی کو گولی ماردی۔ دونوں بد نصیبوں کی لاشوں کو گاڑی کے پیچھے باندھ کر کابل کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور آخر کار لے جا کر چوک میں لٹکا دیا گیا۔ لاشوں کے ساتھ بد سلوکی بہرحال ایک غیر انسانی سلوک تھا لیکن افغانستان میں عوام کی اکثریت کو نجیب سے ہمدردی نہیں کیونکہ جن ہزاروں لوگوں کو نجیب نے تشدد سے مارا اور معذور بنایا تھا، ان کے لواحقین میں بہت سے زندہ تھے اور اس سلوک کو جائز سمجھتے تھے۔ کمیونزم نے افغانستان کو کیا دیا اور کیا چھینا ۔۔۔۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ افغان کمیونسٹ حکمرانوں نے اپنے عوام کو کس طرح عذاب سے دوچار کیا ؟

حوالہ جات: US-Pakistan Relationship: Soviet Invasion of Afghanistan by A. Z. Hilali 2005 War Without End: The Rise of Islamist Terrorism and Global Response by Dilip Hiro 2002 https://qz.com/india/1114676/najibullahs-failed-escape-how-india-and-the-un-mucked-up-completely-in-afghanistan/ Revolution & Counter Revolution in Afghanistan by Dixon Norm 2012 The Fall of Kabul 1992, Library of Congress Afgantsy: The Russians in Afghanistan, 1979–1989 by Rodric Braithwaite تحریر: رانا اظہر کمال۔ --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:17، 7 جولائی 2019ء (م ع و)

واپس "محمد نجیب اللہ" پر