تبادلۂ خیال:گوہر جان
گراموفون اور گوہر جان
ترمیمیہ 14 نومبر 1902 کی صبح 9 بجے کا واقعہ ہے کہ ایک 30 سالہ خوبصورت خاتون قیمتی لباس اور زیورات سے لدی پھندی اپنے ساتھ سازندوں کی ایک ٹولی لئے کلکتہ کے ایک بہترین ہوٹل میں داخل ہوئ۔ گراموفون کمپنی لندن کے فریڈرک ولیم گیسبرگ نے اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ کلکتہ کی مشہور گلوکارہ گوہر جان تھی جس کی گائیگی کی انڈیا میں دھوم تھی لیکن اب تک اس کا کوئ ریکارڈ شدہ گانا موجود نہیں تھا کیونکہ گراموفون کی ایجاد کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا کی کسی گلوکارہ کا گانا ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ گوہر جان نے 3000 روپے کے معاوضے پر راگ جوگیا میں گائے گئے ایک خیال سے اس ریکارڈنگ کا آغاز کیا۔ گوہر جان کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ 1902 میں تین منٹ کے گیت کی ریکارڈنگ کا معاوضہ تین ہزار روپے ادا کیا گیا تھا. یہ وہ زمانہ تھا جب سونے کی فی تولہ قیمت 20 روپے تھی۔ یعنی یہ اس زمانے میں یہ 150 تولہ سونے کی قیمت تھی۔ آج اگر سونا ایک لاکھ روپے تولہ ہے تو یہ قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے بنتی ہے۔ ہوٹل کے دو کمروں میں قائم عارضی ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں بھیروی میں گائے گئے تین منٹ دورانیے کے اس ریکارڈ کے آخر پر وہ انگریزی میں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے؛ "مائی نیم از گوہر جان"۔ اس زمانے میں ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کے لیے یہ طور اپنایا گیا، جو گوہر جان کے متعدد ریکارڈز کے آخر پر سننے میں آتا ہے۔ چھ ہفتوں کے دوران ، مقامی فنکاروں کے 500 سے زائد میٹرک ریکارڈ کیے گئے۔ یہ ریکارڈ جرمنی میں تیار کیے گئے اور اپریل 1903 میں بھارت بھیج دیے گئے۔ یہ ریکارڈ ہندوستان میں گرامو فون کو مقبول بنانے میں ایک بڑی کامیابی ثابت ہوئے ، جہاں مقامی لوگوں کو مغربی موسیقی کے لیے کوئی دلچسپی یا قدر نہیں تھی۔ 1903 تک ، اس کے ریکارڈ ہندوستانی منڈیوں میں فروخت ہونے لگے اور یوں انڈیا میں ریکارڈ شدہ موسیقی کا آغاز ہوا۔ جن نوابین اور مالدار موسیقی کے شوقینوں کو گوہر جان کے گیت سننے کے لئے بھاری معاوضے پر اس کو بلانا پڑتا تھا یا گانا سننے اس کے گھر جانا پڑتا تھا وہ اپنے دیوان خانوں میں پیچوان سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گوہر جان کے گیت گراموفون پر سننے لگے۔ یہ موسیقی کی دنیا میں ایک انقلاب تھا جو ایسا چلا کہ آج تک رکنے کا نام نہیں لیا۔ ساشی مکھی: یاد رہے کہ اس ریکارڈنگ سے تین دن پہلے گیسبرگ نے اسی ہوٹل میں ایک 14 سالہ بنگالی گلوکارہ ساشی مکھی کا بنگالی زبان کا گانا جس کے بول (Ami ki sajani kushumeriI ) امیکی کوشومیرل My Beloved a Flower) تھے وہ گیسبرگ کو بالکل بھی پسند نہیں آیا کیونکہ 14 سالہ ساشی مکھی گراموفون کے سامنے سخت نروس تھی اور اس نے پہلے کبھی ایسے ماحول میں گیت نہیں گایا تھا۔ اس لئے گیسبرگ نے اپنی تلاش جاری رکھی۔ تین دن بعد ایک راجہ یا نواب کی دعوت میں اس کی ملاقات گوہر جان سے ہوئ اور وہ گوہر جان کی شائستگی اور شستہ رویے سے بہت متاثر ہوا۔ گوہر جان نے اس سے گڈ ایوننگ کہہ کر ملاقات کی۔ اس نے گوہر جان کو گانا ریکارڈ کروانے کی درخواست کی۔ گوہر جان کی ریکارڈنگ کے بعد اسی دن اسی وقت دوسرے بھی کئ گیت ریکارڈ کئے گئے۔ اب ہوا یہ کہ گوہر جان کی ریکارڈنگ سے پہلے گراموفون کی ٹیسٹنگ کے لئے ایک بنگالی گلوکارہ سے بھی گیت گوایا گیا۔ یہ ریکارڈ آج بھی انڈیا میں موجود ہے لیکن انتہائ خراب حالت میں ہے اور اس پر تاریخ وغیرہ مٹ چکی ہے۔ اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس خاتون نے پہلا گیت ریکارڈ کروایا لیکن آفیشلی گوہر جان کو ہی پہلا گیت ریکارڈ کروانے والی کا کریڈٹ دیا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں کلکتہ میں گوہر جان کا طوطی بولتا تھا۔ یاد رہے کہ 1887 میں ، ایمل برلنر (1851–1921) نے گرامو فون ایجاد کیا ، جو الیکٹرک ریکارڈ پلیئر کا مکینیکل پیشرو تھا۔ بعد میں ، شیلک ریکارڈ کے ساتھ ، اس نے ایک ایسا میڈیم تیار کیا جس نے موسیقی کی ریکارڈنگ کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کی شروعات ہوئ۔ ثنااللہ خان --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 19:24، 2 جنوری 2022ء (م ع و)