تجدید پسندان مرگ انبوہ محققین کا ایک گروہ ہے جو اس بات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودی قتل ہوئے تھے۔ کچھ لوگ مرگ انبوہ کو سرے سے کہانی سمجھتے ہیں مگر زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرگ انبوہ پر نئے سرے سے تحقیق ہونا چاہئیے کہ اس میں مرنے والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔ ان کے خیال میں یہ ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی اور اتنی بڑی تعداد کا ذکر پہلی دفعہ مرگ انبوہ کے کئی سال بعد سامنے آیا جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو بہانہ مہیا کرنا تھا۔ یہ خود کو ترمیم پسند (revisionists) کہلاتے ہیں مگر یہودی اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو منکرینِ مرگ انبوہ (Holocaust deniers) کہتے ہیں۔[1]

تاریخ ترمیم

سب سے پہلے نازی جرمنی کے لوگوں نے ہی اس بات کی مخالفت کی کہ انھوں نے یہودیوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد ہیری المر بارنز (Harry Elmer Barnes) نے جو ایک امریکی مصنف تھے، مرگ انبوہ کو جنگ کے پروپیگنڈہ مہم کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد امریکا کی جنگ میں شمولیت کا جواز پیدا کرنا تھا۔ اس کے بعد اس سلسلے کی پہلی نمایاں کتاب ڈیوڈ ہگان نے آلمانی (جرمن) زبان میں لکھی جس کا نام 'ٹھونسی گئی جنگ' (Der Erzwungene Krieg) تھا جو 1961ء میں چھپی۔ 1969ء میں اس نے ایک اور کتاب بنام 'ساٹھ لاکھ کا افسانہ' (The Myth of the Six Mill) انگریزی میں لکھی۔ جو لاس اینجلس سے چھپی۔ یہ کتابیں یورپ میں ضبط کر لی گئیں۔ .[2]

1964ء میں ایک مشہور فرانسیسی مؤرخ پال ریسینئے (Paul Rassinier) نے ایک کتاب لکھی جس کا نام 'یورپی یہودیوں کا ڈراما' (The Drama of the European Jews) تھا۔ پال ریسینئے خود ایک یہودی تھے اور کیمپ میں قید رہے تھے اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے کافی کچھ دیکھا تھا اس لیے وہ مرگ انبوہ کے افسانے (بقول پال ریسینئے کے ) کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔[3] اسی طرح آرتھر بٹز ( Arthur Butz) نے 1976ء میں ایک کتاب بنام 'بیسویں صدی کا افسانہ' ( The Hoax of the Twentieth Century) لکھی۔ اور 1977ء میں ڈیوڈ ارونگ نے اپنی مشہور کتاب 'ہٹلر کی جنگ' (Hitler's War) لکھی جس میں مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ کی تعداد سے انکار کیا گیا۔ 1979ء میں ایک فرانسیسی پروفیسر رابرٹ فوغیسوں (Robert Faurisson) نے، جن کا تعلق فرانس کی جامعہ لیوں (Université de Lyon) کے ادبیات کے شعبہ سے تھا، فرانس کے سب سے مشہور اخبار لو موند (Le Monde) کو ایک خط لکھا جس میں اس بات کا صریحاً انکار کیا گیا کہ یہودیوں کو قتل کرنے والے گیس چیمبروں کا کوئی وجود بھی تھا۔

تجدید پسندان کی فہرست ترمیم

ایسے لوگ جو مرگ انبوہ پر تحقیق کے خواہش مند ہیں یا اس کی کسی بات پر متفق نہیں مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی۔ ان میں سے کچھ مشہور لوگوں کی فہرست درج ذیل ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

اقتباس ترمیم

  • روتھشیلڈ کا منصوبہ تھا کہ جرمنی کے یہودیوں کے پاس صرف دو راستے رہ جائیں۔ یا تو کیمپ میں مر جائیں یا فلسطین مہاجرت کریں تاکہ ایک قومی ریاست اسرائیل کی بنیاد پڑے۔
Hitler's anti-Semitism also appears to facilitate the Rothschild goal of forcing Jews to either die in death camps--or immigrate to Palestine to start the nation-state of Israel.[4]
  • دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے ہٹلر کے سب سے بڑے بینکار Hjalmar Schacht نے بینک آف انگلینڈ کے گورنر Montagu Norman کو قائل کر لیا کہ یہودیوں کی جرمنی میں چھوڑی ہوئی جائداد کے عوض ان یہودوں کو مہاجرت کیے جانے والے ملک میں جائداد اور رقم مہیا کی جائے جس کی ضمانت جرمن حکومت دے گی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر لندن میں یہودیوں کے سربراہ Chaim Weizmann نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
He [Hjalmar Schacht] put forward a plan in which Jewish property in Germany would be held in trust, and used as security for loans raised abroad, which would also be guaranteed by the German government. Funds would be made available for emigrating Jews, in order to overcome the objections of countries that were hesitant to accept penniless Jews. Hitler accepted the suggestion, and authorised him to negotiate with his London contacts. Schacht, in his book The Magic of Money (1967), wrote that Montagu Norman, governor of the Bank of England, and Lord Bearstead, a prominent Jew, had reacted favourably, but Chaim Weizmann, leading spokesman for the Zionist movement in Britain, opposed the plan.[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. ڈونلڈ ایل نیوک۔ کولمبیائی راہنما برائے مرگ انبوہ، ناشر جامعہء کولمبیا، 2000ء صفحہ۔45:مرگ انبوہ کی عمومی تعریف کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں پچاس لاکھ سے زائد یہودیوں کی ہلاکت ہے، جس کا اندازہ محققین کے مطابق اکیاون لاکھ سے ستر لاکھ تک ہے اگرچہ تجدید پسندان اسی تعداد پر شک کرتے ہیں۔
  2. Gottfired, Ted: Deniers Of The Holocaust: Who They Are, What They Do, Why They Do It (Twenty-First Century Books, 2001). Page 29
  3. Deborah E. Lipstadt, History on Trial, Harcourt:2005 ISBN 0-06-059376-8
  4. Why Didn't Britain Make The Nazi Connection?
  5. Hjalmar Schacht