ابن حجر عسقلانی
ابن حجر عسقلانی مشہور محدث تھے جنھوں نے بخاری کی شرح لکھی۔ آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ اورشافعی مذہب فقیہ تھے۔ مصر میں پیدا ہوئے۔ علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ طلب علم کے سلسلے میں متعدد بار مصر، شام، حجاز اور یمن کا سفر کیا اور اس شوق کے باعث حافظ عصر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا نام احمد تھا۔ اور كنيت ابوالفضل تھی اور ان کا لقب شہاب الدين تھا۔ سلسلہ نسب:احمد بن على بن محمد بن علی بن احمد۔
شیخ الاسلام | |
---|---|
ابن حجر عسقلانی | |
(عربی میں: أحمد بن علي بن مُحمَّد بن مُحمَّد بن علي بن محمود بن أحمد بن أحمد الكناني العسقلاني المصري الشافعي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 18 فروری 1372ء قاہرہ، بحری مملوک، اب مصر |
وفات | 2 فروری 1449ء قاہرہ، برجی مملوک، اب مصر |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد الرحیم عراقی ، ابن الملقن ، عز الدین بن جماعہ ، نور الدین الہیثمی |
تلمیذ خاص | شمس الدین سخاوی ، جلال الدین سیوطی ، زکریا انصاری |
پیشہ | عالم ، فقیہ ، مفسر قرآن ، قاضی ، محدث ، مورخ ، شاعر |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [1] |
شعبۂ عمل | علم حدیث ، فقہ |
کارہائے نمایاں | فتح الباری ، بلوغ المرام ، لسان المیزان ، الاصابہ فی تمييز الصحابہ ، تہذیب التہذیب |
متاثر | شمس الدین سخاوی،[2] زکریا انصاری، جلال الدین سیوطی |
درستی - ترمیم |
ابن حجر کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ مشہور علمی خاندان آل حجر میں سے تھے۔ اس عظیم خاندان مین محدثین وفقہا کثیر تعداد میں پیدا ہوئے۔
ولادت اور نسب
ترمیمعلامہ ابن حجر عسقلانی کی ولادت قاہرہ میں بدھ 12 شعبان 773ھ بمطابق 18 فروری 1372ء کو ہوئی، اُس وقت مصر میں مملوک سلطان الاشرف زین الدین ابو المعالی ابن شعبان کی حکومت کا دسواں سال تھا۔ آپ کے والد نور الدین علی شافعی مذہب کے عالم اور شاعر تھے۔ آپ مصر کے قصبہ، عتیقہ، میں پیدا ہوئے۔ آپ کی عمرچار سال تهی کہ آپ کے والد شیخ نور الدین علی کی وفات ہو گئی۔ آپ کی کفالت شیخ زکی خرنوبی نے فرمائی۔ آپ کے والد کی اولاد بچپن میں ہی فوت ہو جاتی تهی، چنانچہ آپ کے والد شیخ صناقبری کی خدمت میں گئے۔ انھوں نے دعا دی کہ اللہ تعالی تیری پشت سے ایسا بچہ پیدا کرے گا جو پوری دنیا کو علم ومعرفت سے مالامال کرے گا۔ شاه عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ابن حجر کی تصانیف کی اتنی شہرت ومقبولیت شیخ صناقبری کی دعا کا نتیجہ ہے۔
علم حدیث میں مرتبہ و مقام
ترمیمامیر المؤمنین فی الحدیث، حافظ الحدیث، شیخ الاسلام امام المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بڑے بلند پایہ عالمِ ربانی تھے آپ کی صورت و سیرت ہی ایسی تھی اس میں احادیث کے مختلف رنگ ظاہر ہوتے۔ آپ کے زمانے کے سب علما کا اس بات پر اتفاق تھا علم میں، احادیث کی یاداشت میں، دیگر علوم و فنون کی مہارت میں آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی جس اخلاص اور انہماک سے علوم دینیہ حاصل فرماتے رہے وہ قابلِ تقلید ہے اور اس سبب سے وہ علم و فضل کے بحرِ ذخّار ٹھہرے۔ اپنے معاصرین پر سبقت لے گئے بلکہ علمِ حدیث میں ان کا یہ مقام ٹھہرا کہ ان کے پائے کا محدّث چند صدیوں تک پیدا نہ ہو سکا۔ آپ کے قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ اکثر کتب آپ کو حفظ ہوگئیں تھی، پڑھنے میں اتنی تیز رفتاری تھی کہ صرف چار چار مجلس میں سنن ابن ماجہ اور صحیح مسلم کو ختم کر دیتے تھے، معجم صغیر طبرانی کو صرف ظہر اور عصر کے درمیان ختم کر لیتے، کتابت بھی اسی سرعت سے فرماتے۔ علامہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللّٰه اپنے دور کے مرجع العلما تھے آپ کے بحرِ علمی کا چرچا ہر سو پھیل چکا تھا اسی وجہ سے طلبہ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضری دیتے اور علم کی دولت سے مالامال ہوتے۔ آپ نے اپنے زمانے میں کئی علمی مراکز میں دروسِ حدیث دیے، خانقاہ بیرسیہ میں آپ نے بیس سال درس دیا۔ اس کے علاوہ شیخونیہ، بدریہ، صاتحیہ، فخریہ، نجمیہ، جامع ابن طولان، حسینیہ، جمالیہ میں منصبِ تدریس پر فائز رہے۔
تعلیم اور سفر
ترمیمبچپن میں ہی آپ کے والدین انتقال کر گئے تھے۔ آپ اور آپ کی بہن ست الرکب والدین کے انتقال کے بعد زکی الدین الخاروبی کی سرپرستی میں چلے گئے۔ 778ھ میں 5 سال کی عمر میں آپ کو زکی الدین الخاروبی نے قرآنی علوم کے واسطے مدرسہ میں داخل کروایا۔ کم عمری میں ہی آپ کا حافظہ اِس قدر قوی تھا کہ ایک ہی روز میں تمام سورہ مریم حفظ کرلی تھی۔ اس دوران میں آپ نے ابن حاجب کی فقہ بھی پڑھی۔ 785ھ میں 12 سال کی عمر میں زکی الدین الخاروبی کے ساتھ عازمِ مکہ ہوئے اور رمضان 785ھ میں حرمِ کعبہ میں نمازِتراویح پڑھائی۔ 788ھ یعنی 1386ء میں سرپرست زکی الدین الخاروبی کی وفات کے بعد آپ دوبارہ مصر لوٹ آئے۔ حدیث کے واسطے مصری محدث شمس الدین ابن القطان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، جہاں آپ نے علامہ بلقینی (متوفی 806ھ)، ابن الملاقین (متوفی 804ھ) کی فقہ پڑھی اور حدیث میں علامہ حافظ العراقی عبد الرحیم بن حسين بن عبد الرحمن العراقی المصری (متوفی 805ھ) سے استفادہ کیا۔ بعد ازں آپ نے مکہ المکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، دمشق اور یروشلم کا سفر اختیار کیا۔
ازدواجی زندگی
ترمیم799ھ یعنی 1397ء میں آپ نے 26 سال کی عمر میں انس خاتون سے نکاح کر لیا۔ انس خاتون بھی حدیث کی عالمہ تھیں اور انھیں علامہ حافظ العراقی عبد الرحیم بن حسين بن عبد الرحمن العراقی المصری سے حدیث روایت کرنے کی اجازت تھی۔ انس خاتون عوامی طور پر بھی حدیث کا درس دیا کرتی تھیں جن میں کئی علما شریک ہوا کرتے تھے، امام شمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي (متوفی 902ھ) بھی انس خاتون سے حدیث کا درس لینے والوں میں سے ایک تھے۔
قاضی مصر
ترمیمآپ کا زمانہ برجی مملوک سلاطین کا زمانہ تھا۔ علامہ ابن حجر العسقلانی کو کئی بار سلاطین مصر کی جانب سے قاضی مصر کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ پہلے پہل آپ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) مصری علاقوں کے قاضی بنے، پھر چند سال کے بعد مستقل طور پر شامی علاقے بھی آپ کی قضا میں شامل کر دیے گئے، جو اکیس سال سے زائد عرصے تک آپ کے زیر قضا رہے، شروع میں آپ قاضی بننے سے پرہیز کرتے رہے حتی کہ بادشاہِ وقت نے آپ کو ایک خاص مقدمے میں قاضی مقرر کیا، پھر آپ بلقینی کے اصرار پر ان کے نائب بنے، بلقینی کی جانشینی کی وجہ سے انھیں کئی اور لوگوں کا نائب بننا پڑا، یہاں تک کہ آپ قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے، آپ کی یہ تقرری بروز ہفتہ 12 محرم 827 ہجری میں ہوئی، پھر سات مرتبہ آپ کی قاضی القضاۃ کے عہدے پر تقرری ہوئی اور سات دفعہ ہی اس سے الگ ہوئے، پھر جمادیٰ الثانیہ 852 ہجری کو آخری مرتبہ اس عہدے سے دستبردار ہوئے اور اسی سال آپ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
وفات
ترمیمآپ نے 79 سال 3 ماہ 26 یوم کی عمر میں اتوار 8 ذوالحجہ 852ھ بمطابق 2 فروری 1449ء کو بعد نمازِ عشاء انتقال کیا۔ اُس وقت مصر پر سلاطین برجی مملوک کی حکومت تھی۔ نمازِ جنازہ قاہرہ میں ادا کی گئی جِس میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے۔ نمازِ جنازہ میںبرجی مملوک سلطانِ مصر الظاہر سیف الدین جقمق بھی موجود تھے۔ علامہ سخاوی کا بیان ہے کہ میں نے اتنا بڑا جنازه کسی کا نہیں دیکها، نماز جنازه علامہ بلقینی نے پڑهائی۔
تدفین
ترمیممصر کے مشہور قبرستان الصغری میں علامہ ویلی کی قبر کے سامنے اور امام شافعی و شیخ مسلم کی قبروں کے درمیان میں عمل میں آئی۔
تصانیف
ترمیمعلم حدیث کے فنون میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں آپ نے ضخیم کتب تصنیف نہ کی ہوں۔ اور آپ کی یہ تصانیف آپ کی حیات ہی میں طباعت کے زیور سے آراستہ ہو گئی تھیں۔ بادشاہ اور اُمراء ایک دوسرے کو ان کتب کے تحائف دیا کرتے تھے۔ اگر ”فتح الباری“ شرح صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی کوئی اور تالیف نہ بھی ہوتی تو یہی فتح الباری آپ کی شہرت اور آپ کے عظیم المرتبت ہونے پر واقفیت حاصل کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ کی یہ کتاب، سنت نبوی کے لیے قاموس کا مقام رکھتی ہے۔ 813 ہجری میں اس کا مقدمہ مکمل کرنے کے بعد آپ نے سے 817 ہجری میں اس کی تالیف کا آغاز کر کے شروع رجب 842 ہجری میں اس کی تکمیل کی۔ اور اس کی تکمیل پر آپ نے ایک دعوت عام کا اہتمام کیا، جس میں تمام عام و خاص مسلمان شریک ہوئے۔ اس دعوت پر آپ نے پانچ سو دینار خرچ کیے اور ایک بادشاہ نے آپ سے یہ کتاب طلب کر کے تین سو دینار میں خرید لی۔ ان کی کتابوں کی تعداد 150 سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ مشہور کتابیں درج ذیل ہیں۔
- الاصابہ فی تمييز الصحابہ : اصحاب رسول کے متعلق ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو اب اُردو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
- فتح الباری شرح صحیح البخاری : علامہ ابن حجر عسقلانی یہ عظیم تصنیف ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، یہ تصنیف رجب 842ھ مطابق دسمبر 1428ء میں مکمل ہوئی۔ فتح الباری کے مکمل ہونے پر قاہرہ کے نزدیک ایک مقام پر ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جِس کے متعلق مورخ ابن عیاص (متوفی930ھ) کا کہنا ہے کہ مصر کی تاریخ میں یہ عظیم تر تقریب تھی۔ یہ کتاب عقائد، فقہ اور حدیث کا شاہکار ہے۔
- تہذيب التہذيب : یہ کتاب عربی میں دائرۃ المعارف حیدرآباد دَکن ہندوستان سے 1335ھ میں شائع ہوئی تھی۔ اکمال فی اسماء الرِجال کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں احادیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کے حالات مذکور ہیں جس سے کسی حدیث پیش کرنے والے کے حال کا پتہ چلتا ہے کہ آیا وہ ضعیف راوی ہے یا معروف الحال۔ یہ احادیث نبوی کا انسائیکلوپیڈیا ہے جِسے يوسف بن عبد الرحمن المزی (متوفی742ھ) نے علامہ ابن حجر عسقلانی سے روایت کیا ہے۔
- الدُر الکامنہ : یہ تصنیف آٹھویں صدی ہجری کی نامور شخصیات کی سوانحی لغت ہے۔
- التقريب التہذيب : یہ تصنیف تہذیب التہذیب کا خلاصہ ہے۔
- المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ
- بلوغ المرام من ادلۃ الاحكام : بلوغ المرام اصل میں 1358 احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ ہے، یہ احادیث صحاح ستہ اور مُسند احمد بن حنبل سے روایت کی گئی ہیں۔ 1996ء میں دار السلام پبلیکیشنز نے اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا۔ حسین بن محمد المغربی نے اِس کی شرح اَلبدر التمام کے نام سے لکھی اور محمد ابن اسمٰعیل الامیر السنائی نے سُبل السلام کے نام سے شرح لکھی۔
- مقدمہ فتح الباری
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
- ↑ Mashhūr Ḥasan Maḥmūd Salmān & Aḥmad Ṣidqī Shuqayrāt (1998)۔ "Tarjamat al-musannif"۔ Muʼallafāt al-Sakhāwī : al-ʻAllāmah al-Ḥāfiẓ Muḥammad ibn ʻAbd al-Raḥmān al-Sakhāwī، 831-902 H۔ Dār Ibn Ḥazm۔ صفحہ: 18