پیدائش ترمیم

حبیب احمد ساجد کی پیدائش سنہ 1976کو کڈپہ میں ہوئی۔ آپ نے اپنے کلام کی اصلاح کے لیے ساغر جیدی کے آگے زانوئے ادب تہ کیا

شعری تصنیف اسلوب ترمیم

سنہ 2001ء میں مولانا شیخ حبیب احمد ساجد کا مجموعۂ کلام ’’اسلوب‘‘ انجمن ترقی اردو کڑپہ کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ اکتساب فن شہر کڑپہ کے مشہور و معروف عروض داں ساغر جیدی سے دینی علوم جامعہ باقیات الصالحات ویلور، سہارنپور میں حاصل کرنے کے بعد مدراس یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور افضل العلما کی سند حاصل کی۔ شروع ہی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شعر وا دب کو بھی اپنا اہم مشغلہ بنایا اور پچیس برس کی عمر میں اپنے مجموعہ کلام ’’اسلوب‘‘ سے ادبی دنیا کو تعارف کرایا۔

جدید رجحانات ترمیم

عربی و فارسی پر عبور ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں دقیق فارسی و عربی الفاظ کی فراوانی ملتی ہے ان کی شاعری بنیادی طور پر اصلاحی شاعری ہے کئی تلمیحات اور پند و نصیحت کو موصوف نے موضوع سخن بنایا ہے اور اس کے ساتھ الفاظ کی ترکیب میں نیا آہنگ پیدا کیا ہے۔ اپنے جدید طرز بیاں سے آزادی خیال کا اظہار کرتے ہوئے کئی جانوروں، چرندوں اور پرندوں کے نام کو علامتی طور پر شاعری میں ظاہر ہی نہیں کیا ہے بلکہ اسلوب بھی جداگانہ اختیار کیا ہے۔ وجود صبر، تفکر کی انگلیاں، چشم تنگ، قلب سنگ، صفحہ ذہن، حب عز و جاہ، چشم اشتہاہ، اندھی شاہراہ، منطقی نگاہ، دست خیر، نامہ سیاہ، سکوت لامتناہی، خطرہ بے جاں، تیغ جدید، حرزِ جاں، تخیلات خشک، طاقت نشتر، سرد الفاظ، معنی کی دھوپ، لذت ممات، حسن نظر، تمہید سحر، عزم نو، بشاشت رخ و ادراک، تریاق تدبیر، تلاش آب شیر، کرشمہ تدبیر، نیلے سوال، پیلے جواب، تراب فن، ڈھیلی باتیں، طوفان حوادث، ابدال زمانہ، پھیکے شہر، جام شکستہ وغیرہ جیسے الفاظ بروے کار لاتے ہوئے نادیدہ حرکات کرنے والے جدت طرازوں پر اور قدامت پرست کی اندھی تقلید پر طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چند شعر ملاحظہ ہوں:

اے جدت کے سوداگر

نادیدہ حرکات نہ کر

اچھوتے رنگ سے عاری،انوکھے ڈھنگ سے خالی

پرانے کھردرے الفاظ کی تالیف ناجائز

اگ گئی بنجر زمیں پر گھاس اب

ہاتھ میں اندھے کے ہے الماس اب

نہ چھوسکے گی کبھی انگلیاں تفکر کی

کہ شاذ و نادر عنقانما خیال ہوں میں

جدید رجحانات کا ایک اہم جز جانوروں، پرندوں کے نام استعمال میں لاکر شاعری میں جدت طرازی کا اظہار کرنا ہے۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے کئی علائم کو موصوف نے دنیائے شاعری کو دیا ہے۔ خر، سگ، بوزینہ،خرگوش، شغال، بوڑھا گرگٹ، اسپ لنگ، طفل زاغ، مور، مار، مگس، کژدم، اسد، اندھے شیر، گرگ، گوسپند، اجگر جیسے الفاظ کو علامتی پیرائے میں ظاہر کرتا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:

جس کا ساجد شیر افگن نام ہے

ڈر گیا وہ آج بندر دیکھ کر

محوِ عبادت ہو کر پڑھتے ہیں

مار و کژدم، مور و مگس ’’لاحول‘‘

تم نے اپنی بات بدلی

بوڑھا گرگٹ رنگ بدلا

الغرض حبیب ساجد کے علامتی انداز کے چیدہ چیدہ اشعار جدیدیت کی عمازی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی کا مقالہ شعراے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات سے لیا گیا ہے