حضرت ایشاں
حضرت ایشاں یا خواجہ سید خاوند محمود نقشبندی سلسلہ نقشبندیہ کے جلیل القدر قطب الارشاد صاحب حال و قال بزرگ تھے۔
حضرت ایشاں | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1563ء بخارا ، خانیت بخارا ، ازبکستان |
وفات | 4 نومبر 1642ء (78–79 سال) لاہور ، مغلیہ سلطنت |
مدفن | مقبرہ خواجہ ایشاں (بیگم پورہ) |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمسید السعادت خواجہ سید میر خاوند محمود ابن شریف نقشبندی الحسنی والحسینی حضرت ایشاں کی ولادت 971ھ بمطابق 1563ءمیں بخارا ازبکستان میں ہوئی۔
نام
ترمیماصل نام خاوند محمود تھا جامع کمال و صاحب حال و قال ہونے کی وجہ سے حضرت ایشاں کہا جاتا ہے ان کے والد کا نام میر سید شریف بن خواجہ ضیاء بن خواجہ میر محمد بن تاج الدین حسین بن خواجہ علاؤ الدین عطار ہے یہ خوارزم کے سادات سے تھے۔
وجہ تسمیہ حضرت ایشاں
ترمیملفظ آں شان فارسی کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی وہ شانبمعنی بڑی شان والا کے ہیں سید خاوند محمود کو ان کی عظمت شان کی وجہ سے حضرت ایشاں کہا جاتا ہے اوریہی نام ان کے اصل نام پر بھی غالب آ گیا۔
نسبت جدی
ترمیمحضرت ایشاں کا نسب والد کی طرف سے خواجہ علاؤالدین عطار سے ملتا ہے جو شاہ بہاؤالدین کے خلیفہ تھے اولاد ابراهيم المرتضى بن الامام موسى الكاظم بن جعفر الصادق الحسينى الهاشمى العطار
تعلیم و تربیت
ترمیمابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی بارہ برس کی عمر میں قرآن کے حافظ ہوئے پھر مدرسہ سلطانیہ میں داخلہ لے کر علوم متداولہ کی 14 سال میں تکمیل کی علم میں بہت عبور تھا عربی اور فارسی میں ملکہ کامل تھا۔
بیعت و خلافت
ترمیمجب 18 برس کے ہوئے تو خواجہ محمد اسحاق سفید کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے جنھوں نے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کر کے اسباق و وظائف دیے اور منازل سلوک طے کرا کر خرقہ خلافت عطا کیا اس کے علاوہ شاہ بہاؤ الدین نقشبند خواجہ بزرگ سے نسبت اویسی بھی حاصل تھی ان کے علاوہ خواجہ محمد قبادانی سے بھی فیض یاب ہوئے۔
تبلیغی اسفار
ترمیمصوفیانہ ذوق کی وجہ سے اکثر سیر و سیاحت میں رہتے تیس سال کی عمر میں شہر وخش جو ختلان کے قریب ہے گئے پھر بلخ سمرقند ہرات قندھار سے ہوتے ہوئے کابل پہنچے جہاں پہلے وعظ میں ہی لوگوں پر وجد کی کیفیات طاری ہوگئیں دوسال کابل میں قیام کیا وادی کشمیر میں تشریف لے گئے جہاں ایک مدرسہ و خانقاہ قائم کیے پھر آگرہ چلے گئے عہد شاہجہاں میں لاہور تشریف لائے۔
قیام لاہور
ترمیمشاہجہاں کے حکم سے حضرت ایشاں مستقل لاہور آ گئے اور جس جگہ آپ کا مقبرہ ہے یہاں ایک باغ اور خانقاہ تعمیر ہو رہی تھی جہاں آپ اقامت گزیں ہوئے قیام لاہور میں حاکم لاہور کا نواب وزیر خان اکثر حاضر ہوتا تھا وہ آپ کا مرید تھا لاہور میں آپ کا قیام 9 سال رہا جہاں انھوں نے درس و تدریس اور علم باطنی کی ترویج کی۔
معاصرین
ترمیمحضرت ایشاں کے معاصرین میں مجدد الف ثانی، شیخ عبد الحق محدث دہلوی شاہ حسین بلاول قادری مفتی عبد السلام شیخ محمد طاہر نقشبندی اور ملا عبد الحکیم سیالکوٹی ہیں۔
خلفاء کرام
ترمیمحضرت ایشاں نے بے شمار لوگوں کو راہ حق پر گامزن کیا 16 خلفاء ہیں جنہیں مختلف علاقوں لوگوں کی رشد وہدایت کے لیے مامور فرمایا ان میں
- خواجہ خاوند احمد جو آپ کے فرزند تھے
- خواجہ عبد الرحیم نقشبندی جو خواجہ علاؤ الدین عطار کی اولاد سے تھے
- خواجہ سید یحییٰ جو شاہ شجاع کرمانی کی اولاد سے تھے
- خواجہ عبد العزیز وحیدی
- خواجہ ترسون المعروف خواجہ باقی
- خواجہ شادمان کابلی
- خواجہ مرزا ہاشم جو خواجہ دیوانہ بلخی کے بھائی تھے یہ سحبان قلی خان بادشاہ بلخ کے مرشد تھے
- خواجہ لطیف درخشی
- خواجہ مرزاابراہیم جو مجدد الف ثانی کے بھائی ہیں
- خواجہ باندی کشمیری
- خواجہ حاجی طوسی
- حاجی ضیاء الدین
- خواجہ ابو الحسن سمرقندی
- مولانا پائندہ حارثی
- خواجہ معین الدین احمد نقشبندی جو آپ کے فرزند تھے[1]
وفات
ترمیمحضرت ایشاں کی12 شعبان بروز اتوار 1052ھ بمطابق 4 نومبر 1642ء) لاہور میں عہد شاہجہاں میں وفات ہوئی جب سعید خان بہادر جنگ حاکم لاہور تھا شاہجہاں نے تجہیز و تکفین کے لیے سید جلال الدین صدر الصدور کو بھیجا۔
مزار مبارک
ترمیمان کا مزار بیگم پورہ میں یتیم خانہ دار الفرقان لاہور پنجاب کے متصل واقع ہے بہت بلند و بالا گنبد میں تین قبریں ہیں پہلی قبر حضرت ایشاں کی دوسری میر جان نقشبندی کی اور تیسری قبر ان کے چھوٹے بھائی سید محمود آغا کی ہے۔[2]