"یہودیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7 |
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7 |
||
سطر 89:
=== اسلام اور یہودیت ===
[[اسلام]] اور یہودیت کے درمیان خصوصی اور قریبی رشتہ ہے۔ دونوں مذاہب ایک ہی جدِّ امجد یعنی حضرت [[ابراہیم علیہ السلام]] سے شروع ہوتے ہیں اور اس لیے ابراہیمی مذاہب میں شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ہی مذاہب عقیدۂ [[توحید]] پر ایمان رکھتے ہیں اور [[قرآن]] یہودیوں کو [[اہل الکتاب]] کا خطاب دیتا ہے، ایک خطاب جو یہودیوں نے بعد ازاں تورات اور اپنی دگر کتب سے رشتہ واضع کرنے کے لیے خود بھی اپنا لیا۔<ref>Hence for example such books as ''People of the Book: Thirty Scholars Reflect on Their Jewish Identity'' (Johns Hopkins University Press, 1997) and ''People of the Book: Canon, Meaning, and Authority'' (Harvard University Press, 1997).</ref> دوسری طرف بہت سے یہودی بھی یہ مانتے ہیں کہ مسلمان [[سات قوانین نوح]] کی پابندی کرتے ہیں اور اس لیے اللہ کے ہدایت یافتہ بندے ہیں۔<ref>{{cite web |url=http://www.youtube.com/watch?v=PA2N2Iz5ExM |title=Jewish Rabbi admits Islam is the oldest religion |publisher=YouTube |date= |accessdate=2010-08-22 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107092224/https://www.youtube.com/watch?v=PA2N2Iz5ExM |archivedate=2019-01-07 |url-status=live }}</ref> یہودیوں کا مسلمانوں سے ساتویں صدی عیسوی میں [[جزیرہ نما عرب|جزیرہ نمائے عرب]] میں آغازِ اسلام سے واسطہ ہے اور اسلام اور یہودیت کے بہت سے بنیادی عقائد اور قوانین مشترک یا ملتے جلتے ہیں۔<ref name="Why?">[[:en:Dennis Prager|Prager, D]]; [[Joseph Telushkin|Telushkin, J]]. ''Why the Jews?: The Reason for Antisemitism''. New York: Simon & Schuster, 1983. page 110-126.</ref><ref name="rabbidavidrosen.net">[http://rabbidavidrosen.net/doc/Muslim-Jewish%20Relations/Jewish-Muslim%20Relations,%20Past%20&%20Present%20Nov%2003.doc Jewish-Muslim Relations, Past & Present] {{wayback|url=http://rabbidavidrosen.net/doc/Muslim-Jewish%20Relations/Jewish-Muslim%20Relations%2C%20Past%20%26%20Present%20Nov%2003.doc |date=20070616163849 }}, Rabbi David Rosen</ref> مسلم ثقافت اور فلسفے نے مسلم علاقوں میں رہنے والے یہودیوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔<ref>{{cite web |url=http://www.peacefaq.com/golden.html#whatis |title=The Golden Age of Arab-Jewish Coexistence, The Golden Era |publisher=The Peace FAQ |date=1998-09-01 |accessdate=2010-08-22 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20190107092226/http://www.peacefaq.com/golden.html#whatis |archivedate=2019-01-07 |url-status=dead }}</ref> [[یورپ]] کے برعکس [[قرون وسطیٰ]] کے مسلم ممالک میں یہودیوں کو شاذونادر ہی قتل و غارت، جبری تبدیلی مذہب یا جبری بیدخلی کا سامنا کرنا پڑا؛ انہیں مسلم ممالک میں عمومی طور پر مذہب، رہائش اور کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کی آزادی حاصل تھی۔<ref>Lewis (1999), p.131; (1984), pp.8,62</ref> یہاں تک کہ 712ء سے 1066ء تک [[خلافت امویہ|بنو امیہ]] اور [[خلافت عباسیہ|بنو عباس]] کے دور حکومت کو [[ہسپانیہ]] میں یہودی ثقافت کا عہدِ زریں مانا جاتا ہے۔{{Citation needed|date=April 2010}} ان مالک میں رہنے والے یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کو ذمّی شمار کیا جاتا تھا۔ ذمّیوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے اندرونی معاملات اپنی مرضی سے طے کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، تاہم ان پر کچھ پابندیاں بھی تھیں جو مسلمانوں پر نہیں لگائی جاتی تھیں۔<ref name = "Lewis-84">Lewis (1984), pp.10,20</ref> مثلاً ان پر جزیہ لاگو ہوتا تھا جو ایک فی کس ٹیکس تھا اور ہر بالغ غیر مسلم مرد سے وصول کیا جاتا تھا۔<ref name = "Lewis-84"/> یہودیوں کے لیے ہتھیار لے کر چلنا اور ایسے مقدمات میں گواہی دینا بھی منع تھا جس میں کوئی مسلمان فریق ہو۔<ref>Lewis (1987), p. 9, 27</ref> ذمّیوں سے متعلق کئی قوانین علامتی اور امتیازی تھے؛ مثلاً کچھ ممالک میں ذمّیوں کے لیے علاحدہ لباس مخصوص تھا تاکہ ان کی آسانی سے شناخت ہو سکے۔ یہ قانون قرآن یا [[حدیث]] میں کہیں مذکور نہیں بلکہ قرون اولیٰ کے [[بغداد]] میں بنایا گیا اور بعد ازاں مختلف ممالک میں مختلف انداز اور شدّت سے نافذ کیا گیا۔<ref>Lewis (1999), p.131</ref> مسلم ممالک میں یورپ کی نسبت بہتر سلوک کے باوجود یہودی مکمل طور پر جبری اقدامات سے آزاد نہ تھے، مثلاً کچھ یہودیوں کو بارہویں صدی عیسوی میں [[ایران]] اور [[دولت موحدین]] کے حکمرانوں کی جانب سے ہسپانیہ اور شمالی افریقہ میں قتل و غارت، جبری بیدخلی اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا پڑا۔<ref>Lewis (1984), pp. 17, 18, 52, 94, 95; Stillman (1979), pp. 27, 77</ref> نامور یہودی راہب، فلسفی اور طبیب [[موسیٰ بن میمون]]، جو مغرب میں میمونائڈز کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے اسی زمانے میں ہسپانیہ سے نقل مکانی کر کے [[مصر]] میں سکونت اختیار کی۔{{Citation needed|date=April 2010}} بعض اوقات یہودیوں پر رہائشی پابندیاں بھی لگائی گئیں، مثلاً پندرھویں صدی کے بعد سے [[مراکش]] میں یہودیوں کو شہروں کے مخصوص محلّوں تک محدود کر دیا گیا اور اس طرز عمل میں انیسویں صدی اور اس کے بعد مزید اضافہ ہوا۔<ref>Lewis (1984), p. 28</ref>
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلم ممالک میں یہودیوں سے امتیازی سلوک کی زیادہ مثالیں ہسپانیہ اور شمالی افریقہ میں دیکھنے میں آتی ہیں جو یورپ اور بالخصوص ہسپانیہ کے نصرانی علاقوں سے قریب ہونے کے باعث وہاں نصرانیوں کی جانب یہودیوں پر جاری جبر و استبداد کے اثرات قبول کر رہے تھے۔
|