"احمد رضا خان بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ازسرنو
سطر 1:
{{نیم محفوظ}}
== '''ولادت''' ==
آپ کا نام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ہے۔آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ آج بھی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے قلم سے وہابیت کانپتی
 
ہے<ref>الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ ،۱۳۱۲ھ، مطبع اہلسنت بریلی و رضا اکیڈمی ممبئی (ستروجہ سے امام وہابیہ دہلوی پر لزوم کفر </ref><ref>فتافی الحرمین برجف
امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ کی ولادت با سعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال المکرم 1272 ہجری بروز ہفتہ بوقت ظہر مطابق 14 جون 1857 ء کو ہوئی۔ سن پیدائش کے اعتبار سے آپ کا تاریخی نام المختار ہے۔
حوالہ: حیاتِ اعلی حضرت، ج1، ص 58، مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی
 
ندوۃالمین ۱۳۱۷ھ، (عربی)، مطبح گلزار حسینی ومکتبہ ایایشیق استنبول (ندوۃ العلماء والوں کے عقائد اور ان پر فتاویئ حرمین</ref><ref>الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ ۱۳۲۳ھ(عربی) ،
آپ کا نام محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔
حوالہ: الملفوظ، حصہ اول، ص 3، مشتاق بک کارنر مرکز اولیاء لاہور
 
مطبح اہلسنت وجاعت بریلی، (الدولۃ والمکیہ پر مصنف کا مبسوط حاشیہ فرقئہ نیچریہ کارد۔ یہ کتاب اعلیحضرت نے مکہ مکرمہ میں اس وقت لکھا جب آپ سے علم غیب رسول کے بارے میں
== '''تصانیف''' ==
 
سوال کیا گیا بغیر کسی کتاب کی مدد کے زبانی طور پر یہ کتاب چند گھنٹوں میں تحریر ہوئی اور اس پر علمائے حرمیں شریفین یعنی علمائے مکہ و مدینہ نے تصدیقات رقم کیں، یہ کتاب اردو
 
ترجمہ کے ساتھ بھی متعدد بار تبع ہوئی ہے۔</ref>۔ آپ کے ماننے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوے ہیں۔ آپ کی زندگی ، دینی خدمات، مکتوبات و تصنیفات پر اکثر اسکالروں نے پی ایچ ڈی کی
آپ رحمة اللہ علیہ نے مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔ یوں تو آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے لکھے۔ لیکن افسوس کہ سب کو نقل نہ کیا جاسکا، جو نقل کرلیئے گئے تھے ان کا نام "العطا یا النبویہ فی الفتاوی رضویہ" رکھا گیا۔ فتاویٰ رضویہ جدید کی 30 جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 21656، کل سوالات و جوابات 6847 اور کل رسائل 206 ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔
حوالہ: فتاویٰ رضویہ جدید، ج 30، ص 10، رضا فائونڈیشن مرکز الاولیاء لاہور۔
مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے بے شمار علوم پر قلم اٹھایا۔ آپ کی معلومات کا دائرہ صرف دینی سطح تک محدود نہ تھا بلکہ آپ جدید سائنسی علوم پر بھی کمال رکھتے تھے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق آپ علیہ الرحمۃ نے 70 سے زائد علوم و فنون پر تصنیفات تحریر فرمائیں۔
(بحوالہ ماہنامہ "معارف رضا" کراچی۔۔۔ مختلف شمارے)
قرآن و حدیث، فقہ منطق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے فتاوے کے مطالعے سے ہی ہو سکتا ہے، آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی چند دیگر کتب کے نام درج زیل ہیں۔
"سبحٰنُ السُّبوح عن عیب کذب مقبوع" سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا جس نے مخالفین کے دم توڑ دیئے اور قلم نچوڑ دیئے۔
 
ہے۔
"نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان" اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے۔ اور سانسدانوں کے اس نظریئے کا کہ زمین گردش کرتی ہے رد فرمایا ہے۔
 
== ولادت ==
علاوہ ازیں یہ کتابیں تحریر فرمائیں، المعتمد المستند، تجلی الیقین، الکوکبتھ، اتشھائبھ سل، اکسیوف، الھندیھ، حیات الاموات وغیرہ۔
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال المکرم 1272 ہجری بروز ہفتہ بوقت ظہر مطابق 14 جون 1857 ء کو ہوئی۔ سن پیدائش
 
کے اعتبار سے آپ کا تاریخی نام المختار ہے۔ حوالہ: حیاتِ اعلی حضرت، ج1، ص 58، مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچیز.آپ کا نام محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور
== '''ترجم قرآن شریف''' ==
 
اسی نام سے مشہور ہوئے۔ حوالہ: الملفوظ، حصہ اول، ص 3، مشتاق بک کارنر مرکز اولیاء لاہور
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے قرآن مجید کا ترجمھ کیا جو کہ اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے۔
حوالہ: سوانح امام احمد رضا، ص 373، مکتبہ نوریہ، رضویہ سکھر۔
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے ترجمہ کا نام "کنز الایمان" ہے۔ جس پر آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے خلیفہ صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ نے حاشیہ لکھا ہے۔
 
== '''وفات'''بچپن ==
آپ نے چار برس کی ننھی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر پر رونق افروز ہوکر مجمع کے سامنے میلاد شریف پڑھا. اردو فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان رضی اللہ تعالی عنہ سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک دقاق عالم دین ہوگئے. 14 شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں آپ کو عالم دین کی سند دی گئی اور اسی دن والد ماجد نے آپ کے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کی. جسے آپ نے 1340ھ مطابق 1921ء اپنے وصال کے وقت تک جاری رکھا.
 
== بسم اللہ خوانی و سلسلہ تعلیم اور آپ کے اساتزہ ==
حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بسم اللہ خوانی کی رسم کے موقع پر ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا. آپ کے استاذ محترم نے حسب دستور بسم اللہ الرحمٰن الرحٰم کے بعد الف ب ت ث ج وغیرہ حروف تہجی آپ کو پڑھانا شفوع کیا. استاذ کے بتانے کع مطابق آپ پڑھتے گئے جب لام الف کی نوبت آئی . استاذ نے فرمایا کہو لام الیف تو اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے اور لام الیف نہیں پڑھا . استاذ نے دوبارہ کہا. میاں صاحبزادے کہو لام الیف حضور نے فرمایا یہ دونو حرف تو میں پڑھ چکا ہوں . الیف بھی پڑھا اور لام بھی پڑھ چکا ہوں. اب دوبارہ کیوں پڑھا یا جارہا ہے؟ محفل بسم اللہ خوانی میں حضور کے جدّ امجد حضرت مولانا شاہ رضا علی خان قدس سرہ العزیز موجود تھے فرمایا بیتا استاذ کا کہا مانو . جو کہتے ہیں پڑھو. اعلیٰ حضرت نے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے لام الف پڑھا لیکن حضرت جد امجد کے چہرہ کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی. حضرت جد امجد نے اپنے فراست ایمانی سے بھانپ لیا کہ گہیا یہ ننھا بچہ کہہ رہا ہے کہ آج کے سبق میں تو حُرُف مفردہ کا بیان ہے پھر ان کے درمیان ایک مرکب لفظکیسے آگیا. اگرچہ بچے کی ننھی عمر کے ایتبار سے لام کے ساتھ الف ملا نے کی وجہ بیان کرنا قبل از وقت بات تھی مگر حضرت جد امجد نے نور باطنی سے ملاحظہ کیا کہ یہ لڑکا فضل ربانی سے اقلیم علم و فن کا تاجدار ہونے والا ہے اس وقت بچہ کی عمر تو ضرور ننھی ہے مگر اس کا اوراک و شعور بفضلہ تعالیٰ ننھا نہیں اس لئے آپ نے اعلیٰ حضرت سے فرمایا بیٹا شروع میں سب سے پہلا حرف جو تم نے پڑھا ہے وہ حقیقت میں ہمزہ ہے الف نہیں اور اب لام کے ساتھ جو حرف ملاکر تم پڑھ رہے ہو وہ الف ہے لیکن چونکہ الف ہمیشہ ساکن رہتا ہے اور تنہا ساکن حرف کو کسی طرح پڑھا نہیں جا سکتا اس لئے لام کے ساتھ الف کو ملا کر اس کا بھی تلفظ کر دیا گیا . اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ اگر یہیمقصود تھا کہ الف کا تلفظ کرا یا جائے. تو اسے کسی بھی حرف کے ساتھ ملا سکتے تھے مسلاًں ب یا جیم یا دال کے ساتھ بھی ملا کر الف کا تلفظ کریا جا سکتا تھا لیکن ان سارے حروفں کو چھوڑ کر لام کے ساتھ الف ملا کر اس کی ادائیگی کرائی گئی. ایسا کیوں ہو؟ لام سے الف کا خاص رشتہ کیا ہے؟ اعلیٰ حضرت کا یہ سوال سن کر حضرت جد امجد نے جوشِ محبت میں آپ کو گلے لگالیا اور دل سے دعائیں پھر فرمایا بیٹا لام اور الف کے درمیان صورۃً اور سیرۃً بڑا گہرا تعلق ہے. لکھنے میں دونوں کی صورت اور شکل ایک دوسرے کی طرح ہے دیکھو لا اور سیرۃً یوں تعلق ہے کہ لام کا قلب center الف ہے اور الف کا قلب centerلامہے یعنی ل ا م کے بیچ میں الف اور ا ل ف کے بیچ میں لام ہے گویا
<div style='text-align: center;'>
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
</div>
<div style='text-align: center;'>
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
</div>
یہنی اے مرشد تجھ میں فنا ہو کر میں تو ہوا تو میں ہوا میں جسم بنا اور تو روح ہوا تاکہ کوئی شخص اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں تو اور ہے. رسج بسم اللہ خوانی کے بعد اعلیٰ حضرت کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں حب کہ عموما دو سرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا. چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول شریف کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بھت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا.
اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد حضرت مرزا غلام قادر بیگ الیہالرحمہ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی پھر آپ نے اپنے والج ماجد تاج العلماء سند المحققین حضرت مولانا نقی علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مندرجئہ ذیل اکیس علوم پڑھے.
علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام جو مذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا، علم نجوم علم صرف علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ.
تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف مین 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869 ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے. اسی دن مسلئہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا. جواب بالکل صحیح تھا. والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع و قاد دیکھ کر اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کردی.
آپ نے تعلیم و طریقت حضرت مرشد برحق استاذ العارفین مولانا سید آل رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل کی. مرشد برحق کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیرہ استاذالسالکین حضرت مولانا سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل فرمایا. شرح چغمینی کا بعض حصہ حضرت مولانا عبد العلی رامپوری علیہ الرحمہ سے پڑھا پھر نضل ربانی و فیٖ ربانی و فیض نبوی نے آپ پر عنایت کی خصوصی نگاہ ڈالی جس کے نتیجہ میں آپ نے کسی استاذ سےبغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے ، قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگارثم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یانی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائرچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید.
حاصل کلام یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کے اساتذہ کی فہرست تو بہت مختصر ہے لیکن اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے فضل سے آپ کا سینہ علوم کا گنجینہ بنادیا تھا آپ نے بہت سے فنون میں کتابیں لکھیں حضرت مولانا ملک العلماء سید ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے 1327ھ مطابق 1909ء میں سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیفات کی ایک فہرست بنام المجمل المعدعتالیفات المجدد مرتب فرمائی اور آخر میں ایک جدول پیش کی جس میں ان سبھی علوم و فنون کا نام ہے جن میں 1327ء تک اعلیٰ حضرت نے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں.
* مرزا غلام قادر بیگ بریلوی م 1301ھ 1883ء
* والد ماجد مولانا محمد نقی علی خان بریلوی م 1297ھ 1880ء
* مولانا عبد العلی خان رامپوری م 1303ھ 1885ء تلمیذ علامہ فضل حق خیرآبادی م 1278ھ 1861ع
* شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی م 1324 ھ 1906ء مولانا نور احمد بدایونی م 1301ھ
* شاہ آل رسول مارہروی م 1297ھ 1879ء تلمیذ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی م 1239ھ.
* امام شافعیہ شیخ حسین صالح م1306ھ 1884ء
* مفتی حنفیہ شیخ عبد الرحمٰن سراج م 1301ھ 1883ء
* مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین دحلان م 1299ھ 1881ء قاضی القضاۃ حرم محترم.
 
==بیعت و خلافت ==
25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ مبارک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر امام احمد رضا خان علیہ الرحمة الرحمن نے داعئی اجل کو لبیک کہا۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کا مزار پر انوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
5 جمادی الآخر 1294ھ مطابق 17 جون 1877ء کو آپ حضور پور نور مولانا سید آل رسول مارہروی رضی اللہ تعالی عنہ سے مرید ہوئے اور حضرت مرشد سے باطنی تعلیم حاصل فرمائی۔
حوالہ: سوانح امام احمد رضا، ص 391، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر
 
==حج و زیارت ==
ذی الحجہ 1294ھ مطابق دسمبر 1877ء میں پہلی بار آپ نے حج ادا فرمایا پھر ربیع الاول 1324ھ مطابق اپریل 1906ء میں سرکار اعظم پیارےمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی
 
بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کر بارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے بڑےبڑےعلماء آپ کے علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر
[[زمرہ:شخصیات]]
 
[[زمرہ:مسلم شخصیات]]
آپ کے نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاذو پیشوا مانا<ref>الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ ۱۳۲۳ھ(عربی) ، مطبح اہلسنت وجاعت بریلی، (الدولۃ والمکیہ پر مصنف کا مبسوط حاشیہ
 
فرقئہ نیچریہ کارد۔ یہ کتاب اعلیحضرت نے مکہ مکرمہ میں اس وقت لکھا جب آپ سے علم غیب رسول کے بارے میں سوال کیا گیا بغیر کسی کتاب کی مدد کے زبانی طور پر یہ کتاب چند گھنٹوں
 
میں تحریر ہوئی اور اس پر علمائے حرمیں شریفین یعنی علمائے مکہ و مدینہ نے تصدیقات رقم کیں، یہ کتاب اردو ترجمہ کے ساتھ بھی متعدد بار تبع ہوئی ہے۔</ref><ref>الاجازۃ الرضویہ
 
لمجبل مکۃ البہۃ ، ۱۳۲۳ھ (عربی) مکتبہ قادریہ لوہاری گیٹ لاہور (اجازت نامے جو اعلیٰ حضرت نے علمائے مکہ کو دئیے</ref><ref>الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ ولمدینۃ ، ۱۳۲۴ ھ (
 
عربی) مکتبہ قادریہ لوہاری گیٹ لاہور و رضا اکیڈمی ممبئی وغیرہ جس میں علمائے مکہ و مدینہ کی عطا کردہ اجازتیں ہیں ، مرتبہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خلیف اکبر اعلیٰ
 
حضرت علیہما الرحمہ</ref>
 
== اشاعت اسلام ==
آپ نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی ساری زندگی اسلام کے خدمت اور سنیت کی اشاعت میں صرف فرمائی اور تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں جن میں فتوی رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب ہے۔ آپ نے
 
قرآن مجید کا صحیح ترجمہ اردو میں تحریر فرمایا جس کو عالم اسلام کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کہتی ہے
 
== رد وہابیت ==
آپ کے زمانے میں نیچریوں، مکار صوفیوں، غیر مقلدوہابیوں، دیوبندی وہابیوں، قادیانیوں نے اسلام و سنیت کے خلاف دھوکے کا جال بچھا کر بھولے بھالے مسلمانوں میں خوب گمراہی پھیلا رکھی
 
تھی۔ آپ نے دین و شریعت کی حمایت میں ان سب گمراہ گروہوں سے چومکھیا لڑائی لڑ کر سب کے دانت کھٹے کردئے اور حق و باظل کو خوب واضح کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔
 
آپ کے فتاوے اور کتابوں کے زریعہ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں بہکے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائی۔ بہت سے وہ علماء جو گمراہی کے سیلاب میں بہتے جارہے تھے آپ کی رہنمائی سے انہوں
 
نے حق قبول کیا اور سیدھی راہ پر ہوگئے۔ جب وہابیوں، دیوبندیوں نے سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے شان میں گستاخی اور توہیں کتابوں میں لکھ کر شائع کی اور مسلمانوں کو بگاڑ
 
ناشروع کیا تو آپ نے اظل پہاڑ کی طرح جم کر سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالی عنہ کی محبت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخ ملاؤں کو لوہے
 
کے چنے چبوادئے۔<ref>العطا یا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ، مطبح اہلسنت وجاعت بریلی و رضا اکیڈمی ممبئی و کتبخانہ سمنانی میرٹھ و سنی دار الاشاعت مبارکپور و لائلپور</ref>
 
== اعلیٰ حضرت ==
آ پ کی مسلسل دینی خدمتیں اور علمی کارناموں کو دیکھ کر سنی علماء و مشائخ اور عام مسلمان آپ کو اپنا عظیم دینی پیشوا مانتے ہیں اور آج بھی ان کے فتوؤں پر عمل کرتے ہیں۔ دین کی روشنی
 
رکھنے والے علماء اور پیروں کا یہ فیصلہ ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتابوں میں قرآن و حدیث کی جو تعلیمات لکھی ہیں ان کو جو مانے وہ سنی مسلمان ہے اور جو
 
آپ کی تعلیمات کی مخالفت کرے وہ بد دین اور گمراہ ہے<ref>انداز بیاں ص 89-90 از مولانا کوثر نیازی پاکستان و تحقیقات مسنفہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمہ</ref>
 
== تصانیف ==
 
<TABLE dir="RTL"><tr><td>
<table border="1" cellpadding="2" cellspacing="0" align="left" width="300">
<tr><th colspan="2" bgcolor=#GREEN><big>علوم و فنون کی فہرست جن میں اعلیٰ حضرت کی تصانیف موجود ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی تصانیف ہیں جن پر تحقیق جاری
 
ہے</big></th></tr>
<tr><td valign="top">اتنجیم</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">اخلاق</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">ادب</td><td>22</td></tr>
<tr><td valign="top">اذکار</td><td>8</td></tr>
<tr><td valign="top">ارثما طیقی</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">اساند حدیث</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">اسماء الرجال</td><td>7</td></tr>
<tr><td valign="top">اصول</td><td>9</td></tr>
<tr><td valign="top">اصول تفسیر</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">اصول حدیث</td><td>6</td></tr>
<tr><td valign="top">اوفاق</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">تاریخ</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">تجوید</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">تخریج احادیث</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">ترغیب و ترہیب</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">تصوف</td><td>12</td></tr>
<tr><td valign="top">تعبیر</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">تفسیر</td><td>15</td></tr>
<tr><td valign="top">تکسیر</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">توقیت</td><td>18</td></tr>
<tr><td valign="top">جبر و مقابلہ</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">جرح و تعدیل</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">جفر</td><td>8</td></tr>
<tr><td valign="top">حدیث</td><td>36</td></tr>
<tr><td valign="top">حساب</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">خطبات</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">رد تفضیلیہ</td><td>7</td></tr>
<tr><td valign="top">رد روفض</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">رد غیر مقلدین</td><td>26</td></tr>
<tr><td valign="top">رد قادیانیہ</td><td>6</td></tr>
<tr><td valign="top">رد گنگوہی</td><td>25</td></tr>
<tr><td valign="top">رد متصوفہ بالہ</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">رد مفسقہ</td><td>7</td></tr>
<tr><td valign="top">رد نانوتوی</td><td>11</td></tr>
<tr><td valign="top">رد نصاری</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">رد نیچریہ</td><td>7</td></tr>
<tr><td valign="top">رد وہابیہ</td><td>76</td></tr>
<tr><td valign="top">ردآریہ</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">رداسمعیل دہلوی </td><td>10</td></tr>
<tr><td valign="top">ردتھانوی</td><td>9</td></tr>
<tr><td valign="top">ردندوہ</td><td>17</td></tr>
<tr><td valign="top">ردنذیر حسین</td><td>6</td></tr>
<tr><td valign="top">ردنواصب</td><td>11</td></tr>
<tr><td valign="top">ردہنود</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">رسم المفتی</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">رسم خط قرآن مجید</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">ریاضی و ہندسہ</td><td>11</td></tr>
<tr><td valign="top">زیجات</td><td>9</td></tr>
<tr><td valign="top">سلوک</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">سیر</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">شتیٰ</td><td>5</td></tr>
<tr><td valign="top">صرف</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">عروض</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">عقائد و کلام</td><td>124</td></tr>
<tr><td valign="top">علم الوفق</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">علم مثلث</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">فرائض</td><td>4</td></tr>
<tr><td valign="top">فضائل و مناقب</td><td>34</td></tr>
<tr><td valign="top">فقہ</td><td>253</td></tr>
<tr><td valign="top">فلسفہ</td><td>6</td></tr>
<tr><td valign="top">کلام</td><td>17</td></tr>
<tr><td valign="top">لغت</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">لغت حدیث</td><td>1</td></tr>
<tr><td valign="top">لوگارثم</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">مکتوبات</td><td>7</td></tr>
<tr><td valign="top">ملفوظات</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">مناظرہ</td><td>18</td></tr>
<tr><td valign="top">منطق</td><td>3</td></tr>
<tr><td valign="top">نجوم</td><td>5</td></tr>
<tr><td valign="top">نحو</td><td>2</td></tr>
<tr><td valign="top">نصائح و مواعظ</td><td>5</td></tr>
<tr><td valign="top">ہیئت</td><td>16</td></tr>
<tr><td valign="top">کل</td><td>954</td></tr>
 
</table>
 
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔ یوں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے لکھے۔ لیکن افسوس کہ سب
 
کو نقل نہ کیا جاسکا، جو نقل کرلیئے گئے تھے ان کا نام "العطا یا النبویہ فی الفتاوی رضویہ" رکھا گیا۔ فتاویٰ رضویہ جدید کی 30 جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 21656، کل سوالات و
 
جوابات 6847 اور کل رسائل 206 ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ حوالہ: فتاویٰ رضویہ جدید، ج 30، ص 10، رضا فائونڈیشن مرکز الاولیاء لاہور۔قرآن و حدیث، فقہ منطق اور
 
کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے فتاوے کے مطالعے سے ہی ہو سکتا ہے، آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی چند دیگر کتب کے نام درج
 
ذیل ہیں۔ "سبحٰنُ السُّبوح عن عیب کذب مقبوع" سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا جس نے مخالفین کے دم توڑ دیئے اور قلم نچوڑ دیئے۔نزول آیات فرقان
 
بسکون زمین و آسمان اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے۔ <ref>امام احمد رضا اور حرکتِ زمین از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبع ادارہ تحقیقات امام احمد
 
رضا ، کراچی</ref>
اور سانسدانوں کے اس نظریئے کا کہ زمین گردش کرتی ہے