"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 11:
 
کعب بن اشرف، ابو رافع یہودی اور اہل مکہ کے 5 افراد کے قتل کی وجوہات صرف ایک آدھ مرتبہ توہینِ رسالت ہی نہ تھی بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور تھیں۔ اب باقی رہ جاتے ہیں صرف تین واقعات جہاں اسلامی ریاست میں توہین رسالت پر سزا دی گئی۔ یہ تین روایات بہت اہم ہیں کیونکہ موجودہ توہین رسالت آرڈیننس کا اصل دارومدار انہی تین روایات پر ہے۔
 
=== پہلا: نابینا صحابی کی باندی کا واقعہ ===
 
یہ واقعہ سنن ابو داؤد میں یوں مرقوم ہے:
 
<blockquote>ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں</blockquote>
 
اس روایت کے متعلق اہم نکات یہ ہیں:
 
# اس روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل رسول (ص) کو بُرا بھلا کہتی تھی۔
# اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگذر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے۔<br>موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کے سامنے جب اوپر کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جہاں رسول اللہ (ص) نے صبر اور عفو و درگذر سے کام لیا (مثلا حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کا واقعہ)، تو وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ صرف رسول اللہ (ص) کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی ذات پر گستاخی کرنے والے کو معاف کر دیں۔ اور چونکہ آج رسول اللہ (ص) دنیا میں موجود نہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی گستاخی پر قتل کی سزا ہر صورت جاری ہو جائے گی۔<br>مگر انکی اپنی پیش کردہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نابینا صحابی پہلی مرتبہ میں ہیں فوراً اپنی باندی کو قتل نہیں کر رہے ہیں بلکہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہوئے اُسے مستقل نیک نصیحت کر رہے ہیں اور اسے ادب سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس روایت کی روشنی میں انکے اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی اور عفو و درگذر اور معافی کے راستے ہرگز بند نہیں ہیں۔
# اور پھر سند کے حوالے سےبھی اس روایت میں شدید اختلاف ہے۔ کئی علماء نے اس روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے۔ مثلا موسوعۃ الحدیث نے اسے یہاں ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=3798&pid=438322</ref> اس روایت کا ایک راوی عثمان الشحام ہے جس کے متعلق علامہ يحيى القطان كہتے ہيں: كبھى معروف اور كبھى منكر بيان كرتا ہے، اور ميرے پاس وہ نہيں (یعنی اسکی روایت قابل قبول نہیں).<br>ضعف کے علاوہ یہ روایت “خبرِ واحد” بھی ہےاور عثمان الشحام کے علاوہ کسی اور نے اس باندی والی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔
# یہ روایت "درایت" کے اصولوں پر بھی پوری نہیں اترتی۔ اسلام کوئی بے لگام ضابطہ حیات نہیں، بلکہ ایک مکمل صابطہ حیات ہے۔ اس میں "گواہوں" اور "شہادتوں" کا ایک مکمل نظام موجود ہے اور اس نظام میں انتہائی سختی ہے کہ نہ صرف گواہ موجود ہونے چاہیے ہیں بلکہ انکی گواہیوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ گواہوں کی اتنی سخت شرائط رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بے گناہ کو کسی صورت غلط سزا نہ ملنے پائے۔<br>اگر ان نابینا صحابی کے واقعے پر ایمان لے آیا جائے تو پھر یہاں سے اس فتنے کی راہ کھل جائے گی کہ جس کا جی چاہے گا وہ قتل کر کے بعد میں کہہ دے گا کہ مقتول نے رسول (ص) کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیےاُسے قتل کر دیا گیا۔
# ان حضرات کا ایک بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اس نابینا صحابی کے لیے گواہ اور ثبوت اس لیے نہیں پیش ہوئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک exceptional کیس ہو اور اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے رسول اللہ (ص) کو اس واقعے سے مطلع کر دیا ہو۔ <br>اول تو یہ وحی کا واقعہ نہیں لگتا کیونکہ رسول اللہ (ص) صبح کو قسم دے کر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ جس نے یہ قتل کیا ہے وہ سامنے آئے۔ اور اگر آپ کو exceptional کیس ماننے کا اتنا ہی شوق ہے تو آپ اسکے خون کے "رائیگاں" قرار دیے جانے کو exceptional کیس کیوں نہیں مان لیتے اور بنیادی اصول یہی ٹہرا کہ سب و شتم پر عفو و درگذر اور صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق بات کی تلقین جاری رکھی جائے (جیسا کہ عام حالات میں یہ نابینا صحابی مسلسل اسے نیک نصیحت کرتے اور اسے ادب سکھاتے تھے)؟جب بھی کوئی اصول بنتا ہے تو وہ عام حالات کے تحت ہونے والے واقعات کی بنیاد پر بنتا ہے، نہ کہ exceptional کیسز کی صورت میں۔
 
=== شہادتوں کے نظام کے تحت واقعہ افک پر ایک نظر ===