"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 7:
 
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
 
== فتوی: گستاخی رسول کی کوئی معافی نہیں بلکہ ہر صورت قتل کی سزا پوری کی جائے ==
 
سینیٹر پروفیسر ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان) کا 23 نومبر 2010 میں[http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 ][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 "نوائے وقت][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 " اخبار میں شاتم رسول کی سزا پر آرٹیکل ][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 شائع ہوا ہے]۔ اس میں وہ معافی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
 
<blockquote>قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل، زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا تھا، مگر اب توبہ کری ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح شاتم رسول(ص) بھی ارتکاب جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے بدتر اور زیادہ سنگین ہے۔ ان دلائل کے پیش نظر درست یہی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اسکی سچی یا جھوٹی توبہ اسے اس سزا سے نہیں بچاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب اور اس کی نام نہاد تہذیبی اقدار سے مرعوب ہوکر اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک پیدا نہیں کرنی چاہیے۔</blockquote>
 
اسکے برعکس رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت یہ ہے کہ آپ دین میں نرمی اور رحمدلی دکھاتے تھے۔ اور کسی کافر یا یہودی نے غصے میں آ کر کبھی کچھ ایک آدھ مرتبہ کہہ بھی دیا تو اس پر سزا جاری کرنے کی بجائے رحمت اللعالمین اُس کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعا فرماتے تھے۔
 
بات اس سے آگے بڑھتی ہے اور طائف میں جن کفار نے نہ صرف زبانی کلامی آپ کو دکھ پہنچایا بلکہ پتھر مار مار کر لہولہان تک کر دیا، مگر رحمت اللعالمین نہ صرف انہیں معاف کر رہے ہیں بلکہ انکے لیے اللہ سے ہدایت کی مسلسل دعائیں کر رہے ہیں۔
 
بات آگے بڑھتی ہے، جن کفار مکہ نے بڑھ چڑھ کر ساری زندگی اپنا وطیرہ رکھا کہ رسولِ خدا (ص) کو بُرا بھلا کہا جائے اور انکے خلاف لوگوں کو لڑائی پر اکسایا جائے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے، ان میں سے بھی جن کے جرائم کچھ کم نوعیت کے تھے ان تک کو رسول اللہ (ص) نے معاف فرما دیا۔
 
فتح الباری، زاد المعاد، سیرت النبی کامل ابن ہشام وغیرہ میں مرقوم ہے کہ فتح مکہ کے وقت ابتدا میں رسول اللہ (ص) نے تیرہ افراد کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ انکے نام یہ ہیں[عبدالعزٰی بن خطل، حارث بن نفیل، مقیس بن صبابہ کنافی، حارث بن طلاطل خزاعی، ارنب جو کہ ابن خطل کی کنیز تھی، عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا (یہ بھی ابن اخطل کی کنیز تھی، پہلے یہ بھاگ گئیں اور بعد میں مسلمان ہو گئیں اور صحابیہ قرار پائیں)، سارہ یا ام سارہ (یہ بنی مطلب میں سے کسی شخص کی لونڈی تھی، اسی کے پاس سے حاطب بن بلتعہ کا خط برامد ہوا تھا)۔]
 
ان میں سے صرف 5 کو قتل کیا گیا کیونکہ انکے جرائم بہت سنگین تھے جبکہ بقیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انکے جرائم کچھ کم سنگین نوعیت کے تھے لہذا انہیں معاف کر دیا گیا۔ (یہ کم نوعیت بھی زندگی بھر اسلام کی مخالفت اور سازشیں تھیں، مگر اسکے باوجود انہیں معافی دی گئی)۔ ان 8 افراد کا شمار بعد میں صحابہ اور صحابیات میں ہوا اور ان 8 افراد کے نام یہ ہیں [عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا ، سارہ یا ام سارہ ]
 
ادھر علماء حضرات کی توہین آرڈیننس کی حالت یہ ہے کہ کسی عیسائی یا اقلیتی شخص نے اگر غصے میں آ کر ایک آدھ مرتبہ بھی کچھ چھوٹی موٹی بات بھی نکال دی (بلکہ نہ بھی نکالی اور کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نکالنی ہے) تو ان پر جھٹ گستاخی رسول کا الزام لگا اور پٹ میں اُسے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اور معافی کے نام سے تو علماء حضرات پھر الرجک ہیں۔
 
== عذر: رسول (ص) کے علاوہ کوئی معافی نہیں دے سکتا ==