"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7:
 
2۔ اس آرڈیننس کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کسی سے بھولے سے بھی کوئی غلطی ہو گئی ہے تو موجودہ آرڈیننس کے تحت آپ کو توبہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ہر حال میں قتل کی سزا ملے گی۔
 
==جناب ابو ہریرہ کی والدہ کا توہین رسالت کا واقعہ==
 
حضرت ابو ہریرہ کی والدہ نے جب رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو اس پر حضرت ابو ہریرہ نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ ہی رسول اللہ (ص) نے اسکا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ رسول اللہ (ص) نے انکی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔<ref>http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=4618&idto=4621&bk_no=1&ID=1159</ref>
 
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور اچھا فرمایا ۔ ( صحیح مسلم )۔
 
رسول اللہ{{صہ}} کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں توہین رسالت پر قتل کی سزا نہیں ہے بلکہ اس پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے، اس پر اللہ تعالی سے ایسے لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کرنا ہے۔
 
==بوڑھی عورت کے کوڑا پھینکنے کا واقعہ==
 
یہ واقعہ پاکستان کی ہر نصابی کتاب کا حصہ ہے اور ہر ہر بچے کے ذہن میں بٹھایا گیا ہے۔ کہ رسول اللہ (ص) رحمت العالمین نے اس غیر مسلم بوڑھی عورت کو قتل کرنے کی بجائے مسلسل اس سے اچھا سلوک رکھا اور ایک دن اسی سلوک سے متاثر ہو کر وہ بوڑھی عورت مسلمان ہو گئی۔
 
مگر توہین رسالت قانون کا مسئلہ اٹھنے کے بعد علماء حضرات کی طرف سے اس واقعہ کو جھوٹا واقعہ قرار دے دیا گیا۔
چنانچہ بہتر ہے کہ علماء حضرات اس جھوٹے واقعہ کو نصابی کتب سے خارج کرنے کی تحریک چلائیں، وگرنہ معصوم ذہن پریشان ہوتے ہیں کہ ایک طرف رسول (ص) کا انکے ذہن میں ایسا تصور کہ وہ کوڑا کرکٹ پھینکنے پر بھی رحم کی انتہا کر دے، مگر دوسری طرف چھوٹی سی بھی غلطی پر آج قتل کی سزا ہو جائے۔
 
== طائف کا واقعہ==
 
بوڑھی عورت پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ شاید اُس وقت اسلام مکمل طور پر غالب نہ تھا اس لیے بوڑھی عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔
مگر طائف کا یہ واقعہ اس کی تکذیب کر رہا ہے۔ طائف میں رسول اللہ (ص) مغلوب نہ تھے بلکہ جبرئیل امین انکی مدد کے لیے آ گئے تھے اور آپ (ص) سے اجازت طلب کرتے تھے کہ ایک دفعہ اجازت دیجئے تو ان اہل طائف پر عذاب الہی نازل فرمایا جائے۔ مگر رسول اللہ (ص) نے اس ہجو کی، بلکہ اس سے بڑھ کر تشدد کے نتیجے میں لہو لہان ہونے کے باوجود اہل طائف کا مارا جانا پسند نہ کیا اور مسلسل اللہ سے انکی ہدایت کی دعا کرتے رہے۔
 
چنانچہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں ہجو کرنا سنگین گناہ ہے یا پھر اللہ کے رسول (ص) کو پتھر مار مار کر لہولہان کر دینا؟
 
صحیح بخاری و صحیح مسلم
 
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن ) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگذرا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عائشہ کا یہ سوال سن کر)فرمایا :تمہاری ا س قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اوریہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی ) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ وغمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا ( اور چلتا ہی رہا ) یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حواس قابومیں آئے ،میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک (بڑا ) ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اورپھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرئیل علیہ السلام پر پڑی ۔جبرئیل علیہ السلام نے مجھے مخاطب کیا اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی اوراس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانا سب معلوم ہے ) اور اب اس (پروردگار )نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو(جس کے سپرد تمام روئے زمین کے کوہ وجبل کی عملداری ہے )اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم (کی ہلاکت وتباہی اور ان تمام ظالموں کو پہاڑوں میں دبا دینے )کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یانبی !یامحمد !کہہ کر )مخاطب کیا اورسلام کرکے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی ہے ،میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ،مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیل کاحکم دیں ،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں (جن کے نیچے دب کر سب کے سب نیست ونابود ہوجائیں ) '''رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا )بلکہ میں تو یہ امیدرکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک خدا کی عبادت کریں اورکسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں (بخاری ومسلم)'''
 
اس واقعہ میں بہت بڑی نصیحت ہے جب رسول اللہ (ص) توہین سے کہیں زیادہ بڑھ کر اذیت اور خون بہانے کے جرم کے باوجود یہ کہتے ہوئے اہل طائف کے لیے دعا کر رہے ہیں کہ اگر ان کو ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو کیا ہوا ،یقینا اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کردے گا جو کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کی آغوش میں آجائیں گے
 
==حکم بن العاص کو شدید ترین توہین رسالت پر بھی قتل کی سزا نہیں دی گئی==
 
چھوٹی موٹی بات تو ایک طرف رہی، اللہ کے رسول ، رحمت اللعالمین (ص) نے تو حکم بن ابی العاص جیسے شریر و گستاخِ رسول شخص کو بھی بستر مرگ پر معاف کر دیا تھا۔
 
حکم کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور انہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ (ص) اپنی کسی صحابی سے رازداری سے کوئی بات کرتے تھے تو یہ شخص انہیں چھپ کر سن لیتا تھا اور پھر آگے جا کر پھیلا دیتا تھا جس سے منافقین کو پہلے سے بہت سی باتوں کا علم ہو جاتا تھا۔
 
حکم بن ابی العاص رسول اللہ (ص) کے پیچھے چلتے ہوئے انکی چال ڈھال کی اور چہرہ مبارک کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ اور نماز کے دوران بھی ہاتھ اور انگلیوں سے بُرے بُرے انداز بناتا تھا۔ یہ اتنی بڑی گستاخی تھی کہ جب رسول اللہ (ص) نے اس کو یہ حرکتیں ہوئے پکڑا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ ایسے ہی رہو۔ اس لعنت کے نتیجے میں وہ اُسی حالت میں ویسا کا ویسا ہی رہ گیا اور تامرگ ایسا ہی رہا کہ اسکا منہ، چہرہ اور ہاتھ ہر وقت اس بری حالت میں ہلتے ہی رہتے تھے۔
 
بہرحال، حکم بن ابی العاص اس لعنت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ ایک دن رسول اللہ (ص) اپنی ایک زوجہ کے گھر میں تھے کہ یہ خاموشی سے آ کر دروازے کے سوراخ سے جھانکنے لگا۔ رسول اللہ (ص) نے اسکو پہچان لیا ۔ آپ (ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کون ہے جو مجھے اس گندے شخص سے بچائے گا؟ پھر آپ (ص) نے مزید فرمایا کہ یہ شخص اور اسکی آل اولاد ہرگز اس شہر میں نہیں رہ سکتی جس میں میں موجود ہوں، اور اسکے بعد آپ نے اسکو بمع اسکے بیٹے مروان بن الحکم کے طائف کی طرف شہر بدر کر دیا
۔
اہم بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی رسول اللہ (ص) نے اس شخص کو قتل نہیں کروایا بلکہ صرف شہر بدر کیا۔
 
اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ بستر مرگ پر اسے معاف بھی کر دیا ۔
 
حضرت عثمان بن عفان نے رسول اللہ (ص) سے اسکی سفارش کی تو رسول اللہ (ص) نے اسکو بستر مرگ پر معاف کر دیا۔ مگر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے اسکو اپنے دور میں مدینہ نہیں آنے دیا کیونکہ انہوں نے حضرت عثمان سے اس معافی کے وقت کا گواہ طلب کیا تھا جو موجود نہ تھا۔ مگر جب حضرت عثمان خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے حکم بن ابی العاص اور اسکے بیٹے مروان بن حکم کو واپس مدینہ بلا لیا۔
 
==نتیجہ==
 
اب ذرا حکم بن ابی العاص کا موازنہ آپ آسیہ بی بی کے کیس سے کریں۔ حکم بہت بدبخت شخص تھا اور اگر کوئی مارے جانے کے قابل تھا تو وہ یہ شخص تھا۔ اس نے ایسے ملعون فعل ادا کیے کہ پہلے یہ ہزار بار قتل ہو تو پھر کہیں جا کر آسیہ بی بی جیسوں کی باری آ سکتی ہے۔
 
اور سلمان تاثیر مرحوم کی تو بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ تو ہرگز توہینِ رسالت کے مرتکب نہ تھے۔ لہذا ان کا تو موازنہ حکم بن ابی العاص سے کیا ہی نہیں جا سکتا ۔
 
==عبداللہ ابن ابی کا شان رسالت میں گستاخی کرنا اور اس پر کسی سزا کا نفاذ نہ ہونا==
 
عبداللہ ابن ابی نے رسول اللہ (ص) کی شان میں انتہائی گستاخی کی۔ اس گستاخی پر نہ رسول اللہ (ص) نے اسکے قتل کا حُکم دیا اور نہ ہی وہاں پر موجود مسلمانوں نے اسے قتل کیا۔ اور اللہ نے بھی اسکے قتل کا حُکم نہیں دیا اور آیت تو نازل ہوئی مگر وہ اسے قتل کرنے کی نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو۔
 
صحیح بخاری، کتاب الصلح:
 
:ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہ انسؓ نے کہا لوگوں نے نبی (ص) کو رائے دی اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے چلیں تو بہتر ہے یہ سن کر آپؐ ایک گدھے پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے مسلمان آپؐ کے ساتھ چلے وہاں کی زمین کھاری تھی جب آپ اس (عبداللہ ابن ابی) کے پاس پہنچے تو وہ رسول (ص) کو کہنے لگا کہ چلو پرے ہٹو تمہارے گدھے کی بد بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ یہ سن کر ایک انصاری (عبداللہ بن رواحہ) بولے خدا کی قسم رسول اللہ (ص) کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص (صحابی) غصے ہوا۔ دونوں میں گالی گلوچ ہوئی اور دونوں طرف کے لوگوں کو غصہ آیا اور وہ چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے آپس میں لڑ پڑے۔ انسؓ نے کہا ہم کو یہ بات پہنچی کہ (سورت حجرات کی آیت وَ اِن طَائِفَتَانِ ِمنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَاصلحُوا بَینھمَا) اسی بات میں اتری۔ (یعنی مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو)۔
عبداللہ ابن ابی نے رسول اللہ (ص) کی شانِ اقدس میں براہ راست یہ گستاخی کی، مگر رسول اللہ (ص) نے پھر بھی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا اور فوراً ہی اسکے قتل کے در پے نہیں ہو گئے اور اگرچہ کہ دو مسلمان گروہوں میں ابتدائی طور پر جھگڑا ہوا، مگر رسول اللہ (ص) کی اس صبر و تحمل کی وجہ سے یہ جھگڑا ختم ہو گیا۔
 
==قرآن کی گواہی کہ یہودی رسول (ص) کی توہین کیا کرتے تھے==
 
سورہ نساء (٤)کی آیت ٤٦ میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہود کی اس گستاخانہ روش کا ذکر کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے وقت 'راعنا' (ہماری رعایت فرمایے) کے لفظ کو اس طرح بگاڑ کر ادا کرتے کہ وہ سب وشتم کا ایک کلمہ بن جاتا [رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ ۔ اسی طرح وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے۔]۔ اسی طرح وہ آپ کو مخاطب کرکے 'اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ' (سنو، تمھیں سنائی نہ دے) کے بددعائیہ کلمات بھی کہتے۔
 
قرآن مجید نے یہاں ان کی اس روش پر کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی اور عہد رسالت، عہد صحابہ اور اسلامی تاریخ میں بھی اس نوعیت کے واقعات پر صرف نظر اور تحمل و برداشت کا حکیمانہ رویہ اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
 
==قرآن کی ہدایت کہ مسلمان اہل کتاب ومشرکین کی بدگوئی پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کریں==
 
یہود و مشرکین اسلام اور رسول اللہ (ص) کے متعلق ایسی بدگوئیاں کرتے تھے جن سے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچتی تھی۔ مگر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کو حکم جاری ہو رہا ہے کہ وہ صبر اختیار کریں۔
 
:[جوناگڑھی، سورۃ آل عمران 3:186] ۔۔۔ اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں سننا پڑیں گی۔ اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقینا یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔
 
اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب (قرآن بمع ترجمہ و تفسیر، شاہ فہد پرنٹنگ پریس )لکھتے ہیں:
 
:اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (ص) ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ (ص) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ (ص) کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ (ص) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا جس کا اسے شدید صدمہ تھا۔ چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ (ص) کے خلاف سب و شتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگذر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہنا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں ۔
 
=="صحیح" حدیث کہ اسلام میں قتل کی سزا صرف تین صورتوں میں==
(ابو قلابہ فرماتے ہیں) میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بجز تین حالتوں کے کسی اور حالت میں کسی کو قتل نہیں کیا، ایک وہ جو قصاص میں قتل کیا گیا، جس نے شادی شدہ ہو کر زنا کیا، یا وہ جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی، اور اسلام سے پھر گیا۔<ref>http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=6420&pid=369412</ref>
 
یہی روایت دیگر مستند کتابوں (صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی۔۔۔) میں حضرت عائشہ ، حضرت عبداللہ ابن مسعود حضرت عثمان ابن عفان سے مختلف اسناد سےمروی ہے۔
 
اب حضرت عائشہ، عبداللہ ابن مسعود، حضرت عثمان وغیرہ نے پوری مدنی زندگیاں رسول اللہ (ص) کے ساتھ گذاری ہیں۔ ساتھ میں یہ بڑے پائے کے فقیہ بھی ہیں۔ اگر رسول اللہ (ص) کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہوتا جس میں گستاخی رسول پر کسی کو قتل کیا گیا ہوتا تو وہ واقعہ یقینا ان لوگوں کی نظر میں ہوتا۔
 
==امام ابو حنیفہ، امام ثوری اور اہل کوفہ کا مذہب کہ توہینِ رسالت کی سزا موت نہیں==
 
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ توبہ کی آیت 12 کے ذیل میں، اور عون المعبود میں "باب الحکم فیمن سِب النبی" کے ذیل میں امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:
 
:أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.
 
:یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرے)۔ اور انہوں نے حجت پکڑی ہے اللہ تعالی کے اس قول سے "وان نکثوا" والی آیت۔
 
اور سورۃ توبہ کی یہ آیت نمبر 12 یہ ہے:
 
:وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ﴿009:012﴾
‏ [
:ترجمہ محمودالحسن‏]))))))::::َ/ََ:ِؒ:: اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔
 
تفسیر صلاح الدین (شاہ فہد پرنٹنگ پریس کا شائع کردہ) میں اس آیت کے ذیل میں درج ہے:۔
 
:اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔
 
==فقہائے احناف کا فتوی کہ سزا صرف "عادی" اور "معمول بنا لینے" والے مجرم کو دی جائے==
 
فقہاے احناف کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کی سزا قتل نہیں اور عام حالات میں کسی کم تر تعزیری سزا پر ہی اکتفا کی جائے گی، البتہ اگر کوئی غیر مسلم اس عمل کو ایک" عادت" اور"معمول" کے طور پر اختیار کر لے تو اسے موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
 
حوالہ: ابن عابدین، رسائل ابن عابدین ١/٣٥٤
 
==موجودہ آرڈیننس کے غلط استعمال کو کسی صورت نہیں روکا جا سکتا==
 
سلف فقہائے احناف کا اوپر بیان کردہ فتوی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے اُن تمام فتنوں پر قابو پایا جا سکتا ہے جو کہ موجودہ آرڈیننس کی خرابی کے باعث معاشرے میں پیدا ہو رہے ہیں۔
 
موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کا کہنا ہے کہ قانون بالکل صحیح ہے اور سارا قصور حکومت اور عدالتوں کا ہے اور اگر وہ اس قانون کوصحیح طرح سے لاگو کریں تو یہ فتنے پیدا نہیں ہوں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کی غلطی ہے اور نہ عدالتوں کی، بلکہ موجودہ آرڈیننس میں بذات خود یہ سقم موجود ہے کہ شریر لوگ اس کو کھلونا بنا کر دوسروں سے اپنی ذاتی دشمنیاں بہت آرام سے نکالتے ہیں اور بدنام ہوتا ہے بے چارہ دینِ اسلام۔ آپ جس مرضی کو لا کر حکومت اور عدالتوں میں بٹھا دیں، مگر موجودہ حالت میں آپ اس قانون کے غلط استعمال کو نہیں روک سکتے۔
 
جبکہ فقہائے احناف کے بیان کردہ طریقے کے مطابق اگر آرڈیننس میں "عفو و درگذر اور توبہ" کا دروازہ کھلا ہو، اور پہلی مرتبہ میں ہی "فوراً" ہی قتل نہ کر دیا جائے، تو پھر یہ سقم خود بخود دور ہو جائیں گے اور کوئی شریر انسان انکو اپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کر سکے گا۔ نہ کسی بے گناہ کو قتل کیا جائے گا، اور نہ محمد رحمت اللعالمین (ص) کا دین بدنام ہو گا۔
بہت ضروری ہے کہ فقہائے احناف کی ان پیش کردہ صحیح تعبیرات کو موجودہ آرڈیننس کا حصہ بنایا جائے تاکہ موجودہ دور کے علماء حضرات نے جو غلط تعبیرات عدالتوں کے حوالے کی ہوئی ہیں، انکا خاتمہ ہو سکے اور کسی بے گناہ کو سزا نہ ہونے پائے۔
 
== وہ ضعیف واقعات جنہیں توہین رسالت کے موجودہ قانون کو ثابت کرنے کے استعمال کیا جاتا ہے ==
 
اصول یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے "قوانین" بناتے وقت "ضعیف" روایات کا استعمال نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر جب کہ موت و قتل جیسے قوانین بنائے جا رہے ہوں۔ مگر اسکے باوجود توہین رسالت قانون کو سہارا دینے کے لیے ضعیف روایات کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔
 
عصماء بنتِ مروان کا واقعہ یہ ہے:
 
 
:عصما بنت مروان رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جو کہ نابینا (اندھے) تھے، ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیرنے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔پھر نماز فجر رسول اللہ(ص) کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم (ص) نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں۔
 
یہ وہ روایت ہے جو مسلمانوں پر بہت سخت ہے اور اسلام مخالفین ہر جگہ اسے بیان کر کے ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ (معاذ اللہ) رسولِ خدا انتہائی بے رحم اور ظالم شخص تھے اور ان کے اصحاب کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس بات کا انتظار کر لیں کہ بچہ اپنی ماں کا دودھ پی کر فارغ ہی ہو جائے، بلکہ اُس دودہ پیتے بچے کو الگ کر کے اُسی وقت اُس کی ماں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
 
حیرت کی بات ہے کہ یہ صحابی نابینا تھے، مگر اسکے باوجود اس عورت کے گھر تک اکیلے پہنچ جاتے ہیں، پھر اکیلے اندھیرے میں اس انجان گھر میں اس عورت کو اندھیرے میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پورے وقت میں کسی گھر والے کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پھر ایک عورت ملتی ہے اور ٹٹولنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ماں جاگتی ہے اور نہ کوئی اور گھر والا (اگر کسی دودھ پیتے بچے کو الگ کیا جائے تو وہ فورا رونا شروع کر دیتا ہے)۔
 
اور پھر یہ صحابی تقریبا ًاندھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آدھی رات کا گھپ اندھیرا بھی تھا۔ تو پھر انہیں کیسے یقین ہوا کہ جس عورت کو وہ قتل کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ عصماء بنت مروان ہی ہے؟
 
درایت کے علاوہ سند کے حساب سے بھی یہ بالکل ضعیف روایت ہے۔ الشیخ ناصر الدین الالبانی صاحب اس روایت کو اپنی کتاب "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعۃ ، روایت نمبر 6013” کے ذیل میں نقل کیا ہے (یعنی انکے نزدیک یہ روایت ضعیف اور جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے)۔
 
اور ابن عدی، علامہ ابن جوزی اور ابن معین نے کہا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی "محمد بن الحاج" ہے جو کہ جھوٹی حدیث گھڑا کرتا تھا اور کذاب اور خبیث تھا، چنانچہ یہ روایت موضوع (گھڑی ہوئی) ہے۔
 
آج جو ہم اپنے مسلم معاشرے میں انتہاپسندی دیکھ رہے ہیں، اسکی ایک وجہ ایسی جھوٹی روایات کا عوام کو سنا سنا کر انہیں برین واش کرنے کی وجہ سے بھی ہے، کیونکہ اس روایت پر یقین لانے کے بعد ایک عام مسلمان کے دل میں رحمدلی کا کوئی تھوڑا بہت جذبہ بھی باقی رہ جائے کیونکہ اگر ایک دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کے ہونے والے خون کو اگر کچھ منٹوں کے لیے نہیں ٹال سکا تو پھر کسی اور پر رحم کھانا تو ناممکن ہی ہے۔ انہی واقعات کی وجہ سے "ماورائے عدالت" قتل کرنا آج فیشن کی صورت میں پھیلتا ہوا آپ کو نظر آ رہا ہے۔
 
ایسے ہی ضعیف واقعات میں ابو عفک یہودی <ref>http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=183&CID=21&SW=%DA%DD%DF#SR1 </ref> اور انس بن زنیم<ref>http://www.al-eman.com/islamlib/viewchp.asp?BID=400&CID=6</ref> کا واقعہ بھی ہے جسکی اسناد اس قابل نہیں کہ ان کوبذات خود علماء حضرات کے وضع کیے ہوئے اصولوں کے مطابق بطور حجت پیش کیا جا سکے۔
 
==وہ واقعات جن میں قتل کی وجہ صرف گستاخی رسول نہ تھی==
 
ان واقعات پر نظر ڈالیں تو اس سے یہ سبق ملے گا کہ:۔
 
# ان کفار کے قتل کی بنیادی وجہ ایک آدھ مرتبہ کی جانے والی گستاخی نہ تھی۔
# بلکہ وہ اس سے زبانی کلامی "ہجو" سے بڑھ کر "عملی" طور پر مسلمانوں کے لیے خطرناک سازشیں کر رہے تھے اور دیگر کفار اور قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے تھے۔
 
بہت اہم سوال یہ ہے کہ مکہ اور طائف اور خیبر وغیرہ میں ہزاروں نہیں تب بھی سینکڑوں ایسے کفار تھے جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی معاذ اللہ ہجو کی اور جواب میں شاعر رسول حسان بن ثابت بھی اشعار کے ذریعے ان لوگوں کو جواب دیتے تھے۔ مگر جب خیبر و مکہ و طائف وغیرہ فتح ہوئے تو رسول اللہ (ص) نے ایسے تمام کے تمام لوگوں کے قتل عام کا حکم نہیں دیا کہ جنہوں نے انکی ہجو کی تھی، بلکہ چُن کر کُل پانچ افراد کو قتل کیا گیا۔
 
==کعب بن اشرف یہودی کا واقعہ ==
 
اس کا واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثےے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ اسکا سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ یہ قریش کے کفار کو مسلمانوں کے جنگ کرنے کے لیے ابھارتا تھا، اور اگر وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جاتا تو اس سے مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوتا۔ اس لیے اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً ماہ ربیع الاول سنہ3 ہجری میں یہ قدم اٹھایا گیا۔
 
چنانچہ رسول اللہ (ص) کے حُکم پر سعد بن معاذ نے لوگوں کو جمع کیا اور پھر محمد بن مسلمہ اور چند مجاہدین کو اسکے پاس روانہ کیا گیا۔ انہوں نے اسکے پاس جا کر پہلے رسول اللہ (ص) کی (معاذ اللہ) برائیاں شروع کر دیں تاکہ اسے بھلا پھسلا کر اسکے گھر اور قوم سے دور لے جائیں، اور پھر موقع ملتے ہی اسے قتل کر دیا۔
 
مدینہ اور خیبر اور آپس پاس کے علاقوں میں ایسے کئی کفار و یہودی تھے جو رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے، مگر کعب بن اشرف یہودی کو یہ خطرہ مول لے کر اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ اسکی "عملی" سازشوں سے مسلمانوں کو جانی خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور اسکے اکسانے کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔
 
اور آخر میں یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ کعب بن اشرف نے جب پہلی مرتبہ گستاخی رسول کی تو اس پہلی مرتبہ پر ہی اس کو قتل کرنے کے لیے مجاہدین کو روانہ نہیں کیا گیا، بلکہ کعب بن اشرف نے رسول اللہ (ص) کو بُرا بھلا کہنا اپنی "عادت" اور "معمول" بنائی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس لحاظ سے بھی موجودہ آرڈیننس کی یہ تعبیر ہر لحاظ سےغلط ہے کہ کوئی غیر مسلم اگر غصے میں آ کر کوئی چھوٹی موٹی بات بھی غلطی سے منہ سے نکال دے تو فورا اُس پر قتل کا فیصلہ صادر کر دو۔
 
==ابو رافع یہودی کا واقعہ ==
 
اس ابو رافع کا جرم بھی صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے رسول (ص) کی ہجو کی تھی، بلکہ اسکا جرم اس سے بڑھ کر تھا اور یہ مسلمانوں کے خلاف عملی سازشوں میں ملوث تھا جس سے عملا مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ صحیح بخاری میں اسکا ذکر یوں ہے:۔
 
<blockquote>ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا ۔ یہ ابو رافع حضور(ص) کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا ۔حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا ۔</blockquote>
 
حافظ ابن حجر عسقلانی ، ابو رافع یہودی کے قتل کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
 
<blockquote>اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں پر اچانک چھاپہ مارکاروائی کی جا سکتی ہےجن سے مسلمانوں کو انتہائی درجہ کی اذیتیں لاحق ہو رہی ہوں۔</blockquote>
 
چنانچہ ابو رافع کی روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہو رہا ہے۔
 
==ابن اخطل کا واقعہ ==
 
ابن خطل کے بارہ میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ:
 
<blockquote>ابن اخطل مسلمان تھا مگر پھر مرتد ہوگیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کردیا تھا ۔ جو اس کا خدمت گار تھا،(فتح الباری) نیز اس نے ایک پیشہ ور گانے والی لڑکی پال رکھی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کے صحابہ کرام اور اسلام کے احکام وشعائر کی ہجو کرتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مارڈالنے کا حکم دیا۔ اس بات سے حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ حرم مکہ میں قصاص اور حدود سزائیں جاری کرنا جائز ہے ، حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے دیا کہ وہ مرتد ہوگیا تھا، تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قصاص کے طور پرقتال کرایا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اس کا قتل اس خاص ساعت میں ہوا ہوگا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے زمین حرم مباح کر دی گئی تھی۔</blockquote>
 
ابن اخطل کے قتل کی بنیادی وجہ اسکا مرتد ہونا اور اسکا ایک مسلمان کو قتل کر دینا تھا ۔ پھر ابن اخطل نے اپنی "عادت " اور "معمول" بنا رکھا تھا کہ وہ اسلام اور رسول اللہ (ص) کے شان میں بیہودہ باتیں کرتا تھااور لوگوں کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اکساتا تھا۔ فتح مکہ کے وقت وہاں ایسے بے تحاشہ لوگ موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ ص کی شان میں گستاخیاں کی تھیں، مگر ابن اخطل کے لیے خاص طور پر احکامات اس لیے جاری ہوئے کیونکہ وہ مرتد ہو گیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔
 
چنانچہ ابن اخطل کے قتل سے بھی موجودہ آرڈیننس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
 
ابن اخطل کے قتل کے حوالے سے یہ روایت بھی اہم ہے اور اسکی وجوہات پر روشنی ڈالتی ہے<ref>http://saha-e-sittah.com/search.php?t=&fnt=a&f=23870&p=2388</ref> ۔
 
<blockquote>زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، وہ اپنے والد سے، یزید نحوی، عکرمة، ابن عباس سے روایت ہے کہ خداوند قدوس نے اس فرمان مبارک میں کہ (إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ) آخر تک یہ آیت مشرکین کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے جو ان لوگوں میں سے توبہ کرے گرفتار کیے جانے سے قبل تو اس کو سزا نہیں ہوگی اور یہ آیت مسلمان کے واسطے نہیں ہے اگر مسلمان قتل کرے یا ملک میں فساد برپا کرے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرے پھر وہ کفار کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کے ذمہ وہ حد ساقط نہیں ہوگی (اور جس وقت وہ شخص اہل اسلام کے ہاتھ آئے گا تو اس کو سزا ملے گی)۔</blockquote>
 
==فتح مکہ پر قتل کرنے کے واقعہ سے احتجاج کرنا درست نہیں==
 
موجودہ آرڈیننس ثابت کرنے کے لیے فتح مکہ پر 5 افراد کے قتل کیے جانے کا استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے احتجاج کرنا درست نہیں کیونکہ وہاں بھی اصل مسئلہ ایک آدھ مرتبہ کی گئی توہینِ رسالت کا نہیں تھا بلکہ اللہ اور اسکے رسول (ص) سے محاربہ، فساد فی الارض اور بدعہدی کا تھا۔
 
اہل مکہ کے معاملہ میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی قبیلہ یا شہر والے اپنا معاہدہ توڑ دیتے اور مخالفین کی مدد کرتے تھے، تو پھر انکی شرارت کے بعد جب وہ مفتوح ہوتے تھے تو اس بدعہدی اور شرارت کے نتیجے میں حق بن جاتا تھا کہ ان سے قصاص لیا جائے۔
 
===بنو قینقاع کو شہر بدر کرنا===
 
انہوں نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا اور معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں ان پر حملہ کیا گیا اور انکی ابتدائی سزا قتل پائی، مگر انکے چونکہ انصار کے قبیلے خزرج سے بہترین تعلقات تھے لہذا حالات کے تحت انہیں انکے علاقے سے علاقہ بدر کر دیا گیا۔
 
=== بنو قریظۃ کا قتل ===
 
پہلے انہوں نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ معاہدہ کیا۔ مگر جب جنگ خندق جاری تھی تو انہوں نے کفار مکہ سے بات چیت شروع کر دی اور یوں معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں جنگ خندق کے بعد انکو عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے رسول اللہ (ص) نے فوج کشی کی اور انہوں نے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ انکی سزا قتل پائی۔
 
== اہل مکہ کی بدعہدی ==
 
اہل مکہ سے صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ مگر انہوں نے بدعہدی کی۔ ابن کثیر الدمشقی سورۃ توبہ کی آیت 7 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
 
<blockquote>"صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیاان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا"</blockquote>
 
چنانچہ مکہ کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے واقعات سے توہین رسالت آرڈیننس کے واقعات تلاش کرنا ہرگز درست نہیں کیونکہ وہاں صرف ان 5 افراد ہی نہیں بلکہ پوری آبادی کا قتل حلال ہو چکا تھا کیونکہ یہ قصاص تھا خزاعہ کے بہائے جانے والے خون کا۔ اگر توہین رسالت کے جرم میں ہی قتل کرنا ہوتا تو مکہ، طائف و خیبر وغیرہ میں ان 5 افراد سے کہیں زیادہ لوگ توہینِ رسالت کرتے تھے اور آپ (ص) کو ایذا دیتے رہے تھے اور آپ (ص) کو خون تک میں لہولہان کر چکے تھے۔ یہ دیکھیے، یہ تھا پورے اہل قریش کا طرز عمل:
 
<blockquote>صحیح بخاری:</blockquote><blockquote>اورحضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ سے ) فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اورلعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں ''محمد '' ہوں ۔''(بخاری)<br>تشریح:'' مذمم '' معنی کے اعتبار سے ''محمد ''کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ،وہ بدبخت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ''محمد '' کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اوریہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میںبد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ،چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان کی آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ،اورمیں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ،یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جومیری ذات کا مظہر ہے ،ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کانشانہ بننے سے بچا رکھا ہے ۔</blockquote>
 
اور جن 5 افراد کو قتل کیا گیا انہوں نے کوئی ایک آدھ مرتبہ ہی توہین رسالت کا جرم نہیں کیا تھا بلکہ انکے جرائم میں بدعہدی، مرتد ہونا، لوگوں کو اکسانا، سازشیں کرنے وغیرہ کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ عادتاً اور معمولاً رسول اللہ (ص) پر سب و شتم کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہاں سے بھی موجودہ آرڈیننس ثابت نہیں ہو سکتا (ان 5 افراد کے نام اور تفصیلات آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے)۔
 
== وہ واقعات جو واقعی صرف توہین رسالت سے مخصوص ہیں ==
 
کعب بن اشرف، ابو رافع یہودی اور اہل مکہ کے 5 افراد کے قتل کی وجوہات صرف ایک آدھ مرتبہ توہینِ رسالت ہی نہ تھی بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور تھیں۔ اب باقی رہ جاتے ہیں صرف تین واقعات جہاں اسلامی ریاست میں توہین رسالت پر سزا دی گئی۔ یہ تین روایات بہت اہم ہیں کیونکہ موجودہ توہین رسالت آرڈیننس کا اصل دارومدار انہی تین روایات پر ہے۔
 
=== پہلا: نابینا صحابی کی باندی کا واقعہ ===
 
یہ واقعہ سنن ابو داؤد میں یوں مرقوم ہے:
 
<blockquote>ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں</blockquote>
 
اس روایت کے متعلق اہم نکات یہ ہیں:
 
# اس روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل رسول (ص) کو بُرا بھلا کہتی تھی۔
# اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگذر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے۔<br>موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کے سامنے جب اوپر کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جہاں رسول اللہ (ص) نے صبر اور عفو و درگذر سے کام لیا (مثلا حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کا واقعہ)، تو وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ صرف رسول اللہ (ص) کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی ذات پر گستاخی کرنے والے کو معاف کر دیں۔ اور چونکہ آج رسول اللہ (ص) دنیا میں موجود نہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی گستاخی پر قتل کی سزا ہر صورت جاری ہو جائے گی۔<br>مگر انکی اپنی پیش کردہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نابینا صحابی پہلی مرتبہ میں ہیں فوراً اپنی باندی کو قتل نہیں کر رہے ہیں بلکہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہوئے اُسے مستقل نیک نصیحت کر رہے ہیں اور اسے ادب سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس روایت کی روشنی میں انکے اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی اور عفو و درگذر اور معافی کے راستے ہرگز بند نہیں ہیں۔
# اور پھر سند کے حوالے سےبھی اس روایت میں شدید اختلاف ہے۔ کئی علماء نے اس روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے۔ مثلا موسوعۃ الحدیث نے اسے یہاں ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=3798&pid=438322</ref> اس روایت کا ایک راوی عثمان الشحام ہے جس کے متعلق علامہ يحيى القطان كہتے ہيں: كبھى معروف اور كبھى منكر بيان كرتا ہے، اور ميرے پاس وہ نہيں (یعنی اسکی روایت قابل قبول نہیں).<br>ضعف کے علاوہ یہ روایت “خبرِ واحد” بھی ہےاور عثمان الشحام کے علاوہ کسی اور نے اس باندی والی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔
# یہ روایت "درایت" کے اصولوں پر بھی پوری نہیں اترتی۔ اسلام کوئی بے لگام ضابطہ حیات نہیں، بلکہ ایک مکمل صابطہ حیات ہے۔ اس میں "گواہوں" اور "شہادتوں" کا ایک مکمل نظام موجود ہے اور اس نظام میں انتہائی سختی ہے کہ نہ صرف گواہ موجود ہونے چاہیے ہیں بلکہ انکی گواہیوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ گواہوں کی اتنی سخت شرائط رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بے گناہ کو کسی صورت غلط سزا نہ ملنے پائے۔<br>اگر ان نابینا صحابی کے واقعے پر ایمان لے آیا جائے تو پھر یہاں سے اس فتنے کی راہ کھل جائے گی کہ جس کا جی چاہے گا وہ قتل کر کے بعد میں کہہ دے گا کہ مقتول نے رسول (ص) کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیےاُسے قتل کر دیا گیا۔
# ان حضرات کا ایک بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اس نابینا صحابی کے لیے گواہ اور ثبوت اس لیے نہیں پیش ہوئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک exceptional کیس ہو اور اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے رسول اللہ (ص) کو اس واقعے سے مطلع کر دیا ہو۔ <br>اول تو یہ وحی کا واقعہ نہیں لگتا کیونکہ رسول اللہ (ص) صبح کو قسم دے کر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ جس نے یہ قتل کیا ہے وہ سامنے آئے۔ اور اگر آپ کو exceptional کیس ماننے کا اتنا ہی شوق ہے تو آپ اسکے خون کے "رائیگاں" قرار دیے جانے کو exceptional کیس کیوں نہیں مان لیتے اور بنیادی اصول یہی ٹہرا کہ سب و شتم پر عفو و درگذر اور صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق بات کی تلقین جاری رکھی جائے (جیسا کہ عام حالات میں یہ نابینا صحابی مسلسل اسے نیک نصیحت کرتے اور اسے ادب سکھاتے تھے)؟جب بھی کوئی اصول بنتا ہے تو وہ عام حالات کے تحت ہونے والے واقعات کی بنیاد پر بنتا ہے، نہ کہ exceptional کیسز کی صورت میں۔
 
=== شہادتوں کے نظام کے تحت واقعہ افک پر ایک نظر ===
 
شہادتوں کا یہ نظام کتنا اہم ہے، اسکا اندازہ ہمیں واقعہ افک سے بہت بہترین طور پر ہو سکتا ہے۔اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دشمنی اور جہالت کی وجہ سے جھوٹے الزامات لگتے ہیں۔ لیکن افک کا واقعہ ہمارے لیے بہترین سبق ہے کہ "غلط گواہیاں" فقط دشمنی یا جہالت کی وجہ سے ہی نہیں سامنے آتیں، بلکہ بات اس سے کہیں زیادہ آگے تک جاتی ہے اور کبھی کبھار اچھے اچھے انسانوں کے دماغوں میں بھی صرف شک کی بنیاد پر ایسی ذہنی بیماری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بلاجواز اور بلا وجہ ہی دوسروں پر بڑے بڑے غلط الزام لگا جاتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے نہ صرف گواہ ضروری ہیں، بلکہ انکی گواہیوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔
 
واقعہ افک میں حضرت عائشہ پر الزام لگانے والے کوئی کفارِ مکہ نہیں تھے بلکہ رسول اللہ (ص) کےشاعر صحابی حسان بن ثابت، صحابی مسطح اور صحابیہ حمنہ بنت جحش (جو ام المومنین حضرت زینب کی بہن تھیں) شامل تھے۔
 
آج تک یہ معمعہ حل نہیں ہو سکا کہ انہوں نےام المومنین حضرت عائشہ پر جھوٹا الزام کیوں لگایا۔۔۔ واحد وجہ یہ ہی نظر آتی ہے کہ اچھے اچھے انسانوں میں کبھی کبھار "شک" کی بنیاد پر ذہنی بیماری پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں پر غلط الزام لگا جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ اس واقعہ کی کوئی اور توجیہ سامنے نہیں آئی ہے۔
 
چنانچہ جب ان دو صحابہ اور ایک صحابیہ کی گواہی کافی نہیں تو ایک اکیلے نابینا صحابی کی گواہی کیسے کافی ہو سکتی ہے جبکہ اس قصے میں کسی منصف کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا اور نہ ملزمہ کو اپنی صفائی میں کچھ بولنے کا موقع دیا گیا؟ (واقعہ افک میں مقدمہ رسول (ص) کے پاس آیا، حضرت عائشہ نے اپنے بے گناہی کا دعوی کیا اور پھر گواہ بھی سامنے آئے، مگر نابینا صحابی کے کیس میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا)۔
 
=== دوسرا: یہودی عورت کا قتل ===
 
سنن ابو داؤد میں ہی ایک اور واقعہ شعبی نے علی ابن ابی طالب سے منسوب کیا ہے:
 
<blockquote>ايك يہودى عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور آپ پر سب و شتم كرتى تھى، تو ايك شخص نے اس كا گلا گھونٹ ديا حتى كہ وہ مر گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا خون باطل قرار ديا</blockquote>
 
اس روایت کے اہم نکات یہ ہیں:
 
# اس روایت کے صحیح ہونے بھی زبردست اختلاف ہے۔ فقط شعبی نے ہی اسے علی ابن ابی طالب کے نام پر بیان کیا ہے۔ مگر اہل علم کی اکثریت کے مطابق شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں پایا ہے اور نہ ان سے احادیث سنی ہیں اور اس وجہ سے یہاں انقطاع ہے۔ اسی لیے ناصر الدین البانی صاحب نے اس روایت کو "ضعیف ابو داؤد" میں ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے بھی تہذیب التہذیب میں شعبی کی مراسیل (جو شعبی نے علی ابنی ابی طالب کے نام پر بیان کی ہیں) یہی بیان کیا ہے۔ <br>شیخ عثمان الخمیس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا شعبی کی علی ابن ابی طالب سے مراسیل قابل قبول ہیں؟ جواب میں شیخ عثمان الخمیس کہتے ہیں کہ شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں دیکھا ہے اور اہل علم کے اقوال کے مطابق یہی مشہور ہے کہ علی ابن ابی طالب سے شعبی کی مراسیل صحیح نہیں ہیں۔<ref>http://www.almanhaj.net/fatwaa/fatwaa_detail.php?fatwaa_id=412</ref>
# دوسرا یہ کہ یہ روایت بھی" خبر واحد" ہے جو شعبی کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کی ہے۔ اوپر والی روایت میں اُس نابینا صحابی کا نام نامعلوم تھا۔ اس روایت میں اس یہودیہ عورت کو قتل کرنے والے صحابی کا نام بھی نامعلوم ہے۔
# تیسرا یہ کہ اس روایت سے بھی موجودہ توہین رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ اُس یہودیہ عورت نے "عادت" بنا لی تھی اور وہ مستقل رسول اللہ (ص) پر سب و شتم کرتی تھی اور ایسا نہیں ہوا کہ پہلی مرتبہ میں ہی فورا اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
# چوتھا یہ کہ یہ روایت بھی درایت کے اصولوں پر پوری نہیں اتر پا رہی ہے۔ اس میں بھی منصف ہے، نہ عدالت ہے، نہ مجرمہ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع، نہ گواہان اور نہ انکی شہادتیں۔ کچھ علم نہیں کہ کسی شخص نے ذاتی عناد میں آ کر اُسے قتل کر دیا ہو اور بعد میں الزام لگا دیا ہو کہ وہ رسول اللہ (ص) پر سب و شتم کرتی تھی۔ واقعہ افک ہمارے سامنے ہے کہ ایسے غلط الزامات کا لگایا جانا کچھ بعید نہیں ہوتا۔
 
=== تیسرا : ابن ام مکتوم کا واقعہ ===
 
طبقات الکبری نامی کتاب میں یہ واقعہ ملتا ہے:
 
<blockquote>" ہميں قبيصہ بن عقبہ نے خبر دى، وہ كہتے ہيں ہميں يونس بن ابى اسحاق نے ابو اسحاق سے حديث بيان كى، وہ عبد اللہ بن معقل سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں: ابن ام مكتوم مدينہ ميں ايك انصارى كى پھوپھى جو يہودى تھى كے پاس ٹھرے، وہ ان كے ساتھ نرمى برتتى اور بڑى رفيق تھى، ليكن اللہ اور اس كے رسول كے متعلق انہيں اذيت ديتى، تو انہوں نے اسے پكڑ كر مارا اور قتل كر ديا، اس كا معاملہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا تو ابن ام مكتوم كہنے لگے:اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم اگرچہ وہ ميرے ساتھ بڑى نرم دل تھى، ليكن اس نے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بڑى اذيت دى تو ميں نے اسے مارا اور قتل كر ديا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:" اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، ميں نے اس كا خون باطل كر ديا "</blockquote>
 
اس تیسری اور آخری روایت سے بھی موجودہ آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا:
 
# پہلا یہ کہ یہ روایت بھی "خبر واحد" ہے، اور یہ حدیث"غریب" ہے۔ بلکہ غریب حدیث کی بھی جو سب سے نچلے درجہ کی قسم ہے، جسے “غریب مطلق” کہا جاتا ہے، یہ روایت اس “غریب مطلق” درجے کی ہے۔ (یعنی شروع سے لیکر آخر تک ہر دور میں اسکو بیان کرنے والا صرف اور صرف ایک ہی شخص ہے)۔
# دوسرا یہ کہ اس روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں بھی یہ ذکر ہے کہ اس عورت نے اپنی عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ اللہ اور اسکے رسول (ص) کے متعلق گستاخانہ باتیں کر کے لوگوں کو اذیت پہنچاتی تھی، اور یہ نہیں ہوا کہ پہلی دفعہ میں ہی پکڑ کر اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
# درایت کے اصولوں پر بھی یہ روایت پوری نہیں اترتی۔ اس روایت میں بھی کوئی عدالت لگتی ہے اور نہ کوئی گواہ ہیں اور نہ ملزمہ کو صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع مل رہا ہے۔ اگر اس روایت پر ایمان لایا جائے تو پھر تو کوئی بھی ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے قتل کرنے کے بعد کہہ سکتا ہے کہ اُس نے گستاخیِ رسول کرنے پر دوسرے کو قتل کیا ہے۔<br>پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر وہ عورت رسول اللہ (ص) پر سبِ و شتم کرتی تھی تو پھر اُس انصاری مسلمان نے ہی کیوں نہیں پہلی دفعہ میں ہی پکڑ کر اپنی اس یہودیہ پھوپھی کو قتل کر دیا؟
 
چنانچہ ایسی روایت جس میں درایت کے حوالے سے بھی کئی سقم پائے جاتے ہوں، اور پھر ہو بھی وہ بالکل "غریب مطلق" (یعنی تمام ادوار میں شروع سے لیکر آخر تک اس کو بیان کرنے والا ایک ہی شخص ہو) تو ایسی روایت پر کس حد تک یقین کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر یقین کر بھی لیا جائے تب بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ پہلی دفعہ میں ہی پکڑ کر اس عورت کو قتل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ متعدد بار یہ عمل دہرانے کے بعد اسے مارا گیا ہے۔
 
== فتوی: گستاخی رسول کی کوئی معافی نہیں بلکہ ہر صورت قتل کی سزا پوری کی جائے ==
 
سینیٹر پروفیسر ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان) کا 23 نومبر 2010 میں[http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 ][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 "نوائے وقت][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 " اخبار میں شاتم رسول کی سزا پر آرٹیکل ][http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/24-Nov-2010/16453 شائع ہوا ہے]۔ اس میں وہ معافی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
 
<blockquote>قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل، زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا تھا، مگر اب توبہ کری ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح شاتم رسول(ص) بھی ارتکاب جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے بدتر اور زیادہ سنگین ہے۔ ان دلائل کے پیش نظر درست یہی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اسکی سچی یا جھوٹی توبہ اسے اس سزا سے نہیں بچاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب اور اس کی نام نہاد تہذیبی اقدار سے مرعوب ہوکر اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک پیدا نہیں کرنی چاہیے۔</blockquote>
 
اسکے برعکس رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت یہ ہے کہ آپ دین میں نرمی اور رحمدلی دکھاتے تھے۔ اور کسی کافر یا یہودی نے غصے میں آ کر کبھی کچھ ایک آدھ مرتبہ کہہ بھی دیا تو اس پر سزا جاری کرنے کی بجائے رحمت اللعالمین اُس کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعا فرماتے تھے۔
 
بات اس سے آگے بڑھتی ہے اور طائف میں جن کفار نے نہ صرف زبانی کلامی آپ کو دکھ پہنچایا بلکہ پتھر مار مار کر لہولہان تک کر دیا، مگر رحمت اللعالمین نہ صرف انہیں معاف کر رہے ہیں بلکہ انکے لیے اللہ سے ہدایت کی مسلسل دعائیں کر رہے ہیں۔
 
بات آگے بڑھتی ہے، جن کفار مکہ نے بڑھ چڑھ کر ساری زندگی اپنا وطیرہ رکھا کہ رسولِ خدا (ص) کو بُرا بھلا کہا جائے اور انکے خلاف لوگوں کو لڑائی پر اکسایا جائے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے، ان میں سے بھی جن کے جرائم کچھ کم نوعیت کے تھے ان تک کو رسول اللہ (ص) نے معاف فرما دیا۔
 
فتح الباری، زاد المعاد، سیرت النبی کامل ابن ہشام وغیرہ میں مرقوم ہے کہ فتح مکہ کے وقت ابتدا میں رسول اللہ (ص) نے تیرہ افراد کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ انکے نام یہ ہیں[عبدالعزٰی بن خطل، حارث بن نفیل، مقیس بن صبابہ کنافی، حارث بن طلاطل خزاعی، ارنب جو کہ ابن خطل کی کنیز تھی، عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا (یہ بھی ابن اخطل کی کنیز تھی، پہلے یہ بھاگ گئیں اور بعد میں مسلمان ہو گئیں اور صحابیہ قرار پائیں)، سارہ یا ام سارہ (یہ بنی مطلب میں سے کسی شخص کی لونڈی تھی، اسی کے پاس سے حاطب بن بلتعہ کا خط برامد ہوا تھا)۔]
 
ان میں سے صرف 5 کو قتل کیا گیا کیونکہ انکے جرائم بہت سنگین تھے جبکہ بقیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انکے جرائم کچھ کم سنگین نوعیت کے تھے لہذا انہیں معاف کر دیا گیا۔ (یہ کم نوعیت بھی زندگی بھر اسلام کی مخالفت اور سازشیں تھیں، مگر اسکے باوجود انہیں معافی دی گئی)۔ ان 8 افراد کا شمار بعد میں صحابہ اور صحابیات میں ہوا اور ان 8 افراد کے نام یہ ہیں [عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا ، سارہ یا ام سارہ ]
 
ادھر علماء حضرات کی توہین آرڈیننس کی حالت یہ ہے کہ کسی عیسائی یا اقلیتی شخص نے اگر غصے میں آ کر ایک آدھ مرتبہ بھی کچھ چھوٹی موٹی بات بھی نکال دی (بلکہ نہ بھی نکالی اور کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نکالنی ہے) تو ان پر جھٹ گستاخی رسول کا الزام لگا اور پٹ میں اُسے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اور معافی کے نام سے تو علماء حضرات پھر الرجک ہیں۔
 
== عذر: رسول (ص) کے علاوہ کوئی معافی نہیں دے سکتا ==
 
رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ آپ نے اپنی توہین کرنے والوں کو معاف کیا اور خیبر، مکہ و طائف وغیرہ فتح ہو جانے کے باوجود ان تمام لوگوں کو قتل نہیں کیا جو آپ (ص) کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔
 
اس پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کو حق حاصل تھا کہ جو انکی شان میں گستاخی کرے اُسے معاف کر دیں، مگر ہمارے پاس آج یہ حق نہیں ، چنانچہ کسی بھی چھوٹے بڑے توہین کے واقعے کے بعد قتل کی سزا ہر حال میں پوری کی جائے گی۔ مگر یہ عذر بھی لغو ہے کیونکہ :
 
 
# رسول (ص) سے براہ راست ایسا کوئی اصول بیان نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ موجودہ توہین رسالت قانون کے حمایتیوں کی "اپنی طرف" سے گھڑا گیا ایک "نیا بدعتی قیاس" ہے
# اللہ نے سورۃ آل عمران ، آیت 186 میں صرف رسول (ص) کو ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صبر وتحمل کرنے کا حکم دیا ہے۔۔
# اور جب حضرت ابوہریرہ کی والدہ نے رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابو ہریرہ اس پر شدید رنجیدہ ہوئے، مگر آپ نے انکی اس گستاخی پر عفو و درگذر سے کام لیا، نہ کہ فوراً انکو قتل کر ڈالا۔معاف کرنے کا حق فقط رسول (ص) کا تھا اور ابو ہریرہ کے پاس یہ حق نہیں تھا تو پھر تو جناب ابو ہریرہ کو فی الفور اپنی والدہ کو قتل کر دینا چاہیے تھا جب انہوں نے توہین رسال کی۔ مگر نہیں، وہ یہ حق نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی والدہ کو قتل نہیں کرتے، اور پھر رسول (ص) کے پاس حاضر ہو کر بھی قتل کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اللہ کے رسول (ص) سے اپنی والدہ کی ہدایت کی دعا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
# بلکہ موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کی اپنی پیش کردہ نابینا صحابی اور یہودیہ عورت والی روایات کو بھی مان لیا جائے تب بھی ان سب سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلا قدم عفو و درگذر اور صبر و تحمل اور نیک نصیحت کا ہے، اور یہ عفو و درگذر فقط رسول (ص) تک محدود نہیں بلکہ وہ نابینا صحابی پہلے قدم میں عفو و درگذر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس روایت میں صاف صاف، بہت صاف طور پر موجود ہے کہ وہ کنیز باندی مسلسل اور بار بار رسول (ص) کی توہین کیا کرتی تھی۔۔۔ اور وہ صحابی معاف کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود اس کنیز باندی کو قتل نہیں کرتے تھے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ فقط نیک نصیحت کرتے تھے۔ چنانچہ بذات خود یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ یہ رسول (ص) کے حق کا عذر بنانا ایک "نیا بدعتی" اپنی طرف سے گھڑا گیا بہانہ ہے جسکا ذکر نہ رسول (ص) نے کبھی کیا اور نہ صحابہ کو علم تھا۔
 
== ہمارے معاشرے کی صورتحال ==
 
ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ جہالت بہت پائی جاتی ہے، صبر و ضبط اور احترام کی کمی ہے (نہ صرف مسلم طبقات بلکہ پاکستان کی عیسائی کمیونٹی بھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں اور جہالت کی وجہ سے ہمیشہ یہ ڈر رہتا ہے کہ کوئی غلط بات منہ سے نہ نکل جائے)۔
 
ایسے واقعات عام ہیں جہاں عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو انکے مذہب کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جواب میں غصے میں آ کر اگر انکے منہ سے کچھ چھوٹی موٹی غلط بات بھی نکل جائے تو یہ انسانی جان کے خون کا باعث بن جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو مذہبی بحث ہی شروع ہو جائے تو اس میں غصے میں آ کر لوگ ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہہ جاتے (مسلمان فرقے ہی غصے میں آ کر ایک دوسرے کو کافر اور ایک دوسرے کےمسلمان اکابرین کو گالیاں دیتے پھرتے ہیں)۔ اب عیسائیوں کا رسولِ خدا (ص) کے متعلق معاذ اللہ وہی عقیدہ ہے جو کہ ہمارا مرزا قادیانی کے متعلق ہے۔ ہم لوگ کھلے عام مرزا قادیانی کو جھوٹا نبی کہتے پھرتے ہیں اور ادھر عیسائی (معاذ اللہ) رسول خدا (ص) کے متعلق جھوٹا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، اور اگر کہیں مذہبی بحث چھڑ جائے اور انکے منہ سے غصے میں آ کر نکل جائے کہ (معاذ اللہ) رسول خدا (ص) جھوٹے نبی تھے تو اس پر کیا ان پر گستاخی رسول آرڈیننس جاری ہو گا کہ نہیں؟
 
یورپ و امریکہ میں ایسےواقعات بھی ملتے ہیں کہ اسلام مخالفت میں لوگ شروع میں رسول اللہ (ص) کو برا بھلا کہتے تھے، مگر پھر اللہ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ بذات خود رسول اللہ (ص)کے دور میں ایسے بے تحاشہ کفار و مشرکین بعد میں اسلام لے آئے، حالانکہ اس سے پہلے وہ رسول اللہ (ص) کو جھوٹا نبی مانتے ہوئے انکی تضحیک کرتے تھے۔
 
چنانچہ غصے میں آ کر کہی ہوئی کسی بات پر ہمیں کسی انسانی جان کو خون میں نہیں نہلا دینا چاہیے، بلکہ صبر و ضبط اور عفو و درگذرکا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اللہ سے ان لوگوں کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے اور ایسے لوگوں کے لیے معافی کا ایک دروازہ کھلا رکھنا چاہیے (جیسا کہ مرتد کی سزا میں ہوتا ہے )۔مگر ایسے غیر مسلم، جو اس چیز کو اپنی عادت ہی بنا لیے اور کھلے عام بیہودہ باتیں کرتا پھرے، اور وارننگ دینے کے باوجود باز نہ آئے تو اسکو اگر روکنے کے لیے سزا دینی ہے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔
 
یہاں مثالیں دی جاتی ہیں ملکہ برطانیہ کی توہین کی۔ تو کیا ہمیں اپنی شریعت ملکہ برطانیہ سے لینی ہے یا پھر رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت سے؟ کیا ہم معاذ اللہ رسول (ص) کی ثابت شدہ سنت کو بھلا کر رحمت اللعالمین کو بھی اٹھا کر ملکہ برطانیہ کے ساتھ بٹھا دیں؟ یہ ایک بہت بڑی حماقت ہے اور ایسی انتہا پسندی اسلام کی ضد ہے اور اسے بدنام کرنے کا باعث ہے اور رسول اللہ (ص) کو اس طرح ہم دنیا کے سامنے رحمت اللعالمین نہیں بلکہ انسانی خون کا پیاسا چنگیز خان بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
 
ادھر ارباب اختیار کا رویہ افسوسناک حد تک غلط ہے ۔ باقی تمام باتیں ایک طرف رہیں، کوئی اگر انکے بنائے ہوئے موجودہ آرڈیننس بل کے خلاف کوئی بات کرے تو یہ اسکے پیچھے پُل پڑتے ہیں اور ہرگز کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ فی سبیل اللہ فساد نہیں تو اور کیا ہے؟
 
== قائد اعظم نے توہین رسالت کے نام پرقتل کرنے والے کی پیروی کی ==
 
موجودہ توہین رسالت آرڈیننس کے حمایت حضرات کا آخری عذر یہ ہے کہ قائد اعظم نے بھی توہین رسالت پر ماورائے عدالت قتل کرنے والے علم دین کی وکالت کی تھی۔ یہ عذر بھی لغو ہے۔
 
قائد اعظم کا مقصد اور مؤقف کسی صورت یہ نہیں تھا کہ توہینِ رسالت کے نام پر ہر کسی کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے، یا پھر اسکی سزا موت ہی ہو۔ نہیں، بلکہ قائد اعظم نے اس مقدمے کی پیروی میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ علم دین نے "قتل عمد" (ارادتی قتل) نہیں کیا ہے بلکہ غم و غصہ کی وجہ سے کیا ہے، چنانچہ اسکی سزا پھانسی نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے کم درجے کی سزا دی جائے۔ یعنی قائد اعظم کی نظر میں بہرحال علم دین مجرم تھا مگر فرق صرف یہ تھا کہ وہ اسے قتل سےتھوڑے چھوٹے درجے کا مجرم اور قاتل سمجھ رہے تھے۔
 
==کیا ماورائے عدالت قتل کو روکا جا سکتا ہے؟ ==
 
یہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ ان لوگوں کے دلائل یہ ہیں:
 
# عصماء بنت عمیس کا واقعہ جو کہ علماء حضرات بڑھ چڑھ کر معصوم عوام الناس کو سنا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں صحابی عمیر بن عدی کے نام پر یہ سنت بیان کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے فیصلہ کر کے اس عورت کو "ماورائے عدالت" قتل کر دیا۔ اور جب بعد میں رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس ماورائے عدالت فعل سے خوش ہوئے۔
# ابن عباس والی روایت جہاں نابینا صحابی نے اپنے دو بچوں کی ماں کنیز کو ایک دن غصے میں آ کر ماورائے عدالت قتل کر دیا، اور جب رسول (ص) کو علم ہوا تو وہ اس فعل پر راضی ہوئے۔
# ام مکتوم والی روایت جہاں پھر سے ماورائے عدالت قتل پر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔
# علی ابن ابی طالب سے مروی یہودیہ عورت کا ماورائے عدالت قتل جس پر پھر رسول (ص) کو راضی بتایا گیا ہے۔
 
اگرچہ کہ بذات خود ان حضرات کی اکثریت ماورائے عدالت قتل کو ناجائز بتاتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، مگر انتہا پسند حضرات کے پیش کردہ ان دلائل کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور جلد یا بدیر انتہا پسند حضرات اس امر میں اِن پر غالب آنےوالے ہیں۔
 
مثال کے طور پر انٹرنیٹ پرسعودیہ کے مفتی، ناصر الدین البانی صاحب کے حوالے یہ تحریر [http://archive.is/20130422152944/http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:eF-OHPynOikJ:baazauq.blogspot.com/2011/01/kia-qaanoon-awaam-ke-haath-hai.html+%D9%85%DA%AF%D8%B1+%D8%B9%D9%85%D9%88%D9%85%DB%8C+%D9%82%D8%A7%D8%B9%D8%AF%DB%81+%DB%8C%DB%81+%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA+%DA%A9%DB%81+%DB%81%D8%B1+%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C+%D8%AE%D9%88%D8%AF+%D8%B3%DB%92+%D9%82%D8%AA%D9%84+%DA%A9%D8%B1+%D8%AF%DB%92&cd=1&hl=de&ct=clnk&gl=de لنک]) جہاں ایک طرف وہ ماورائے عدالت قتل کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں، مگر دوسری طرف ہی انہیں خود ماننا پڑ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے ماورائے عدالت قتل کر بھی دے تو بھی اس کا کوئی مواخذہ ہو گا اور نہ کوئی سزا۔
 
<blockquote>عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے کچھ سوال جواب یوں ہوئے ہیں :<br>سوال :<br>کیا اہانتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مرتکب کو کوئی بھی عام مسلمان قتل کر سکتا ہے؟<br>جواب :<br>یہ بات صحیح ہے کہ اہانت رسول کرنے والے کی سزا موت ہےلیکن اس کا حق صرف حکمران کو یا اس کے نائب کو ہے ہر کسی کو نہیں<br>سوال :<br>بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ایک صحابی نے بغیر حکومت کے بھی خود سے اپنی لونڈی کو قتل کر دیا کہ جب اس نے اہانت رسول کی<br>جواب :<br>یہ تو ایک واقعہ ہے کہ جب کوئی جذبات میں مغلوب ہوکر ایسا اقدام کرلے تو قدراللہ وماشاء فعل دلائل سے ثابت ہونے کے بعد اس کا مواخذہ پھر نہیں ہونا چاہیے مگر عمومی قاعدہ یہ نہیں کہ ہر کوئی خود سے قتل کر دے<br>سوال:<br>مرنے والے پر اظہار افسوس ؟؟<br>جواب :<br>نہیں افسوس تو نہیں ہوسکتا۔</blockquote>
 
اس سوال جواب میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر شیخ ناصر الدین البانی صاحب کی کوشش ہے کہ چیزوں کو اعتدال میں لیا جائےکہ یہ صرف حکومت یا عدالت کا حق ہےکہ سزا دے۔ مگر دوسری طرف جن روایات کو وہ خود بغیر درایت کے اصولوں پر پرکھے توہین رسالت کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور جہاں نہ کسی گواہ کی ضرورت ہے اور نہ عدالت کی، اسی کو بنیاد بنا کر انتہا پسند انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ مانیں کہ اگر کوئی شخص ماورائے عدالت بھی قتل کر دے تو بھی اسکا مواخذہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی سزا۔
 
 
== سورۃ المائدہ آیت 33 کا غلط استعمال ==
 
موجودہ توہین رسالت آرڈیننس والے سورۃ المائدہ کی آیت 33 کے حوالے سے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے توہین رسالت کا موجودہ قانون ثابت ہوتا ہے۔
 
 
یہ دعوی غلط ہے۔ اس قرآنی آیت زمین میں فساد پھیلانے والوں کا ذکر ہے جو کہ قتل و خونزیزی اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم کے متعلق ہے۔ اس قرانی آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیے:
 
<blockquote>[سورۃ المائدہ 5:32] اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں</blockquote><blockquote>[سورۃ المائدہ 5:33] بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے</blockquote>
 
اس آیت کریمہ میں ہاتھ پیر کاٹنے کی سزا فساد فی الارض سے متعلق ہے۔
سیاق و سباق کے علاوہ بہتر ہو گا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کو پڑھ لیا جائے جو کہ اختصار کے پیش نظر یہاں پیش نہیں کر رہے۔ مگر اسکے بعد آپ کو اور زیادہ واضح ہو جائے گا کہ ان قرآنی آیا ت کواستعمال کر کے ہرگز موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 
== سورۃ التوبہ، آیت 12 کا غلط استعمال ==
 
سورۃ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں اللہ نے اُن "ائمہ کفر (کفر کے سرداروں)” سے لڑنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے قسم کھا کر اپنے عہد کو توڑ دیا تھا اور دینِ اسلام کی انتہائی مخالفت کرتے ہوئے اس میں طعن کرتے تھے۔ دین میں اس طعن کے نام پر یہ "تفسیر بالرائے" پیش کی گئی ہے کہ توہینِ رسالت کرنے والا قابل قتل ہے۔
 
<blockquote>[القرآن توبہ، 12] وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ</blockquote><blockquote>‏‏ [محمودالحسن‏ توبہ آیت 12] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔</blockquote>
 
یہاں ذکر ہے اول "کفر کے ائمہ(سرداروں)" کا، یعنی جن کا کفر انتہائی شدید ہے اور جو عملی طور پر مسلمانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوم یہ کہ یہ آیت ہے جب انہوں نے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔
 
تفسیر عثمانی میں اسکی تفصیل یہ ہے:
 
<blockquote>"یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔"</blockquote>
 
موجودہ توہین آرڈیننس کے حامی حضرات کی اس دلیل میں یہ خامیاں ہیں کہ:
 
# اس آیت کے نزول کے سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
# صحابہ کرام (اور تابعین) سے اس آیت کی جو تفسیر مروی ہے اُسے بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے کیونکہ اُن کی بیان کردہ تفسیر انکے مؤقف کے بالکل خلاف ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام انکے برعکس یہ تفسیر اس آیت کے نزول کے حالات کے سیاق و سباق میں کر رہے ہیں۔
# رسول (ص) کی زندگی یا صحابہ کرام کے ادوار میں ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں شاتم رسول کو اس آیت کا حوالہ دے کر قتل کیا گیا ہو۔
# پھر یہاں کسی عام ایک دو دفعہ گستاخی کرنے والا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف "ائمہ الکفر" کا ذکر ہے۔
# پھر بدعہدی کرنے اور قسمیں کھا کر انہیں توڑ دینے کا ذکر ہے جس کا حکم شروع سے موجود ہے کہ ایسے عہد شکنوں سے قتال کرنا ہے۔
# <blockquote>انہوں نے اپنی تفسیر بالرائے میں دین میں طعن کو فقط توہینِ رسالت تک محدود کر دیا ہے۔ اگر تفسیر بالرائے کرنی ہی ہے اور "عہد شکنی" اور "ائمہ الکفر" کی شرائط کو نظر انداز کرنا ہی ہے تو پھر صرف ایک توہینِ رسالت پر ہی کیوں بلکہ دین اسلام پر کسی بھی قسم کےچھوٹے سے چھوٹے طعن کرنے والے کو بھی قتل کی سزا سنا دیجئے۔ مثلا[http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4619&pid=368372 صحیح بخاری ][http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4619&pid=368372 (کتاب التفسیر۔ لنک][http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4619&pid=368372 )] کی یہ روایت:<br>حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: <br>آپ(ص) نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہ تھا اور مجھے گالیاں دیں حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہ تھا مجھے اس کا جھٹلانا تو اس کا یہ قول ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جس طرح مجھے شروع میں پیدا کیا حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا مجھ پر اس کے دوبارہ پیدا کرنے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں ایک ہوں بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے۔ (آیت) اللہ بے نیاز ہے عرب اپنے سردار کو صمد کہتے ہیں <br>چنانچہ تفسیر بالرائے کو ہی اوڑھنا بچھونا بنانا ہے تو پھر تو تمام تر اہل کتاب عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی قتل کر ڈالیں کیونکہ وہ تو مسلسل اللہ کو گالیاں دے رہے ہیں اور یہ تو دین میں عظیم ترین طعن ہے۔</blockquote>
# اور انسانوں کے قتل و خون کرنے کے لیےکسی پلپلی نہیں، بلکہ بہت ٹھوس دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ ٹھوس دلیل کی جگہ فقط اپنی "تفسیر بالرائے" کی بنیاد پر انسانوں کے خون کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں گے؟ اور پھر یہ "تفسیر بالرائے" بھی ایسی کہ جس کے حق میں رسول (ص) کا کوئی قول نہیں ملتا ہے اور نہ آپ (ص) نےاپنی پوری زندگی میں توہینِ رسالت کرنے والے کسی شخص کو اس آیت کے نام پر قتل کیا۔۔۔ اور صحابہ کرام کی پیش کردہ تفسیرتو اسکےبالکل مخالف ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف صحابہ بلکہ امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور اہل کوفہ کی رائے کے بھی اس تفسیر بالرائے کے بالکل خلاف ہے۔
 
امام ابو حنیفہ کے متعلق اوپر ہم پیش کر چکے ہیں کہ اسی آیت سے کے متعلق انہوں نے انکی یہ تفسیر بالرئے مسترد کی تھی۔امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:
 
<blockquote>أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.</blockquote><blockquote>یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرے)۔ اور انہوں نے حجت پکڑی ہے اللہ تعالی کے اس قول سے "وان نکثوا" والی آیت۔</blockquote><blockquote>وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ﴿009:012﴾<br>‏ [محمودالحسن‏] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔</blockquote>
 
تفسیر صلاح الدین (شاہ فہد پرنٹنگ پریس کا شائع کردہ) میں اس آیت کے ذیل میں درج ہے:۔
 
<blockquote>اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔</blockquote>
 
تفسیر بالرائے کے مقابلے میں اس آیت کی تفسیر میں جو روایات (صحیح) موجود ہیں، انہیں یہاں پیش کرتے ہیں۔تفسیر بالرائے عموماً قرآنسٹ (منکر حدیث) حضرات کی وصف ہے جہاں وہ آیت کے نزول کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے قرآنی آیات کو ہر طریقے سے اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مڑوڑ سکتے ہیں۔
 
پہلی روایت (قتادہ):
 
<blockquote>حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ... } إلى: { يَنْتَهُونَ } ، فكان من أئمة الكفر: أبو جهل بن هشام، وأمية بن خلف، وعتبة بن ربيعة، وأبو سفيان، وسهيل بن عمرو، وهم الذين هموا بإخراجه.</blockquote>
 
امام عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ائمۃ الکفر" سے مراد ابو سفیان بن حرب، امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام اور سہیل بن عمرہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور رسول (ص) کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا قصد کیا۔
 
دوسری روایت (مالک بن انس):
 
امام ابن عساکر نے حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
 
تیسری روایت(مجاہد):
 
امام طبری نے مجاہد سے یہ روایت نقل کی ہے:
 
<blockquote>حدثنا ابن وكيع وابن بشار، قال ابن وكيع: ثنا غندر، وقال ابن بشار: ثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن أبي بشر، عن مجاهد: { فَقاتِلُوا أئمَّةَ الكُفْرِ أنَّهُمْ لا أيمَانَ لَهُمْ } قال أبو سفيان منهم.<br>اور امام ابن عساکر نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مجاہد نے کہا: "ائمہ الکفر" سے مراد سردارانِ قریش ہیں۔</blockquote>
 
چوتھی روایت (ابن عباس):
 
<blockquote>حدثني محمد بن سعد، قال: ثني أبي، قال: ثني عمي، قال: ثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس، قوله: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ... } إلى: { لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ } يعني: أهل العهد من المشركين</blockquote>
 
حضرت عبداللہ ابن عباس کا لقب امام المفسرین ہے۔ اور یہ اس آیت کا پس منظر بیان کر رہے ہیں کہ یہ آیت اُن مشرکین کے لیے نازل ہوئی تھی کہ جن سے عہد کیا گیا تھا۔
 
پانچویں روایت (عبداللہ ابن عمر ابن الخطاب):
 
امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ائمہ الکفر" میں سے ایک ابو سفیان بن حرب بھی ہے۔
 
چھٹی روایت (حضرت حذیفہ):
 
<blockquote>حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن حذيفة: { فَقاتِلُوا أئمَّةَ الكُفْرِ } قال: ما قوتل أهل هذه الآية بعد.</blockquote>
 
امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ لوگوں نے آپ کے پاس یہ آیت ذکر کی ہے تو آپ نے کہا: اسکے بعد اس آیت کے اہل میں سے کسی کو قتل نہیں کیا گیا ہے۔
 
حضرت حذیفہ کا قتل انکی تفسیر بالرائے کے بالکل خلاف ہے کیونکہ انکا دعوی ہے کہ یہ آیت توہین رسالت کرنے والے کو قتل کا حکم سنا رہی ہے اور نابینا صحابی کی کنیز وغیرہ اسی لیے قتل کیے گئے۔ جبکہ حضرت حذیفہ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد کسی کو اس آیت کے تحت قتل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یا تو یہ آیت توہینِ رسالت کے متعلق نہیں یا پھر نابینا صحابی کی کنیز کا قتل نہیں ہوا۔
 
ساتویں روایت (حضرت حذیفہ):
 
<blockquote>امام بخاری، امام ابن ابی شیبہ، اور ابن مردویہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت زید بن وہب نے اس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے فرمایا: اس آیت کے اصحاب میں سے تین کے سوا کوئی باقی نہیں اور منافقین میں سے چار کے سوا کوئی باقی نہیں۔ تو ایک اعرابی نے عرض کی: بلاشبہ تم تو حضرت محمد (ص) کے اصحاب ہو، ہمیں ان امور کے بارے میں بتائیے جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔ پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ہمارے گھروں کو پھاڑتے ہیں اور ہماری نفیس اور قیمتی چیزیں چرا لیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: وہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں ان میں سے چار کے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ انہیں میں سے ایک وہ بوڑھا شخص ہے کہ اگر وہ ٹھنڈا پانی پیے تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس نہ کرے (صحیح البخاری)۔</blockquote>
 
متفق علیہ روایات موجود ہیں جن کے مطابق رسول اللہ (ص) نے خود حضرت حذیفہ کو اپنے اصحاب میں موجود منافقین کے نام بتلائے تھے۔
 
آٹھویں روایت (علی ابن ابی طالب):
 
<blockquote>امام ابن مردویہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم بخدا! جب سے یہ آیت نازل ہوئی اسکے اہل میں سے کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔</blockquote>
 
چنانچہ علی ابن ابی طالب کے مطابق بھی اس آیت کے نزول کے مطابق اس کے کسی اہل کو قتل نہیں کیا گیا ہے
 
== حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا ==
 
یہ لوگ حضرت عمر ابن الخطاب کی اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:
 
<blockquote>اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”<br>اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛<br>فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )<br>[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.<br>یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریم(ص) کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔</blockquote>
 
 
حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:
 
# یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
# یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
# یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
# اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص) کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)
 
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
 
 
سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:
 
<blockquote>اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)</blockquote>
 
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی [http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4246&pid=367977 روایت کا لنک یہ ہے]۔ دوسری روایت کا[http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=2201&pid=366771 لنک یہ ہے۔]
 
=== حضرت عمر والی یہ روایت علم درایت کی کسوٹی پر ===
 
عقل اللہ کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر یوں آنکھیں بند کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روایات پیش کرنے کی بجائے کچھ عقل سے کام لے لیا جائے تو بہت سی ایسی ناگوار باتوں سے بچا جا سکتا ہے۔
 
اس روایت کے مطابق ایک شخص کو رسول اللہ (ص) کےدنیاوی معاملے کے صرف ایک فیصلے پر اعتراض ہوا تو حضرت عمر نے فوراً بغیر کسی توبہ کا موقع دیے، بغیر کوئی وارننگ دیے فی الفور اسے قتل کر دیا۔
 
مگر ذرا سوچئے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے، وہ رسول (ص) کا دنیاوی معاملات میں ایک فیصلہ تو کیا بلکہ پوری کی پوری شریعت کو پامال کر کے اسکا انکار کر رہا ہوتا ہے، اللہ اور اسکے رسول کا مکمل انکار کر رہا ہوتا ہے، مگر اسکے باوجود اسے فی الفور قتل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اُسے تین دن کی مہلت دینا کا حکم ہے تاکہ اُسے موقع مل سکے کہ وہ توبہ کر سکے۔
 
عقل رکھنے اور اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اس بات میں مکمل سبق موجود ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
 
=== سلمان تاثیر کا قتل اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے ===
 
جتنے بھی حضرات (علماء) نے ممتاز قادری کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی حضرت عمر والی ضعیف اور منکر روایت کو استعمال کیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔
 
 
اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔
 
== حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: رسول (ص) کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں ==
 
حضرت ابو بکر سے ایک روایت یہ مروی ہے:
 
ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔'''صحيح نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥'''
 
دلائل آپ کے سامنے پیش ہو تو چکے ہیں۔ رسول اللہ (ص) سے منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگذر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔
 
شریعت بنانے والی ذات فقط اور فقط اللہ ہے۔ حتی کہ رسول اللہ (ص) کو بھی ذرہ برابر حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ ہم رسول (ص) کی بات اس لیے مانتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے کہ رسول (ص) اسکے سوا کچھ نہیں بولتے جو کہ اللہ نے انکی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف رسول (ص) پر نازل ہوتے تھے، کسی دوسرے صحابی پر نہیں۔
 
چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔
 
صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا ہو گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔
 
وحی فقط رسول (ص) پر نازل ہوتی تھی، اور صرف انہی کا اسوہ شریعت کا حصہ بنے گا۔ کسی بھی صحابی کی رائے کو قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں ہی پرکھا جائے گا اور صرف اسکے بعد اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ صحابی اپنی رائے میں غلطی کر سکتا ہے، مگر یہ فقط اور فقط رسول (ص) کی ذات ہے جو کہ شریعت کے اصول بتاتے وقت کوئی غلطی نہیں کر سکتی۔
 
چنانچہ حضرت ابوبکر کی یہ روایت ابو ہریرہ والی روایت کے مطابق نہیں جس میں بذات خود رسول (ص) شریعت واضح کر رہے ہیں۔ اور اسکے بعد بھی اگر حضرت ابو بکر کی روایت صرف اسی صورت میں قبول ہو سکے گی جب رسول (ص) کی دوسری نابینا صحابی والی اور یہودیہ عورت والی روایات کی روشنی میں یہ کہا جائے کہ پہلے مرحلے میں ہی قتل نہیں ہے بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے پر قتل کیا گیا۔<br><br>نیز یہ روایت ایک مسلمان کے متعلق لگتی ہے جب وہ رسول (ص) کی ذات کے خلاف گستاخی کرے۔ چنانچہ اس صورت میں غیر مسلم کے خلاف یہ سزا جاری نہ ہو سکے گی۔
 
== خلاصہ ==
 
# موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس کے حامی حضرات جن قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں، وہ سب کی سب “تفسیر بالرائے” ہیں اور نہ رسول اللہ (ص) اور نہ کسی صحابی نے ان قرآنی آیات سے وہ مطلب نکالا جو یہ حضرات تفسیر بالرائے کرتے ہوئے نکال رہے ہیں۔
# اور جو روایات یہ حضرات پیش کرتے ہیں ان میں سے اکثر ضعیف اور منکر ہیں، یا پھر غیر متعلق ہیں۔
# اگر ان روایات کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ہرگز ہرگز صحیح ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی اپنی پیشکردہ روایات کے مطابق پہلی مرتبہ میں ہی فی الفور قتل نہیں کر دیا جاتا ہے بلکہ شروع میں انہیں مسلسل اچھی نصیحت کی جاتی ہے اور صرف عادت اور معمول بنا لینے کے بعد قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ موجودہ آرڈیننس میں عفو و درگذر کی کوئی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
# وہ روایات اور قرآنی آیات جو بیان کر رہی ہیں کہ توہین کرنے پر اللہ اور اُسکے رسول (ص) نے صبر کرنے کا حکم دیا ہے، وہ ان حضرات کے پیشکردہ دلائل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
# موجودہ حالت میں یہ آرڈیننس نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے اسکا misuse کسی صورت نہیں روکا جا سکتا ہے اور شریر لوگ مسلسل اسکو اپنی ذاتی دشمنیاں اور شرارت نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے معصوموں پر جھوٹے الزامات لگاتے رہیں گے۔ عدالت اور گواہوں سے پاک قتل کر دینے والی احادیث ان شریر لوگوں کو مکمل موقع فراہم کرتی رہیں گی کہ وہ جرم کر کے سارا گناہ توہینِ رسالت آرڈیننس کی جھولی میں ڈال کر مسلسل دینِ اسلام کو بدنام کرتے رہیں اور کوئی انکا بال بیکا تک نہ کر پائے۔
# بہت ضرورت ہے کہ یہ حضرات اپنی ضد چھوڑ کر قبول کریں کہ موجودہ حالت میں اس میں سقم موجود ہیں۔ انہیں دور کرنے کی ہر صورت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
 
==حوالہ جات==
{{حوالے}}
 
 
[[زمرہ:اسلام]]
[[زمرہ:توہین رسالت]]
[[زمرہ:محمد]]
[[زمرہ:متنازع مضامین]]
[[زمرہ:شریعت]]