"سورہ الاخلاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ: منتقلی 1 بین الویکی روابط، اب ویکی ڈیٹا میں d:q234214 پر موجود ہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
{{خانۂ معلومات سورت
|سورت_کا_نام=الاخلاصاخلاص
|عربی_نام=الاخلاص
|گذشتہ=[[اللھب]]
|آئندہ=[[معوذتین|الفلق]]
|تصویر_سورت=
|دور_نزول=
|نام_کے_معنی=
|دیگر_نام= مقشقشہ، الاساس، الامان، النور، توحید، نجات
|دیگر_نام=
|سورت_نمبر=112
|پارہ_نمبر=30
|زمانۂ_نزول=مکی
|رکوع_کی_تعداد=1
|آیات_کی_تعداد=4
|الفاظ_کی_تعداد=15
|حروف_کی_تعداد=47
|حرف_مقطعات=
|سجود_کی_تعداد=
}}
 
==نام==
الاِخلَاص اس سورہ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے کیوں کہ اس میں خالص توحید بیان کی گئ ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی دوسرے لفظ کو اُن کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورہ میں لفظ اِخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اِس کی تعلیم پر ایمان لے آۓآئے گا، وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔
 
الاِخلَاص اس سورہ کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے کیوں کہ اس میں خالص توحید بیان کی گئ ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی دوسرے لفظ کو اُن کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورہ میں لفظ اِخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اِس کی تعلیم پر ایمان لے آۓ گا، وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔
 
زمانۂ نزول
 
==زمانۂ نزول==
اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔، اور یہ اختلاف اُن روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سببِ نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں۔ ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں۔
۱)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ (1) اس پر یہ سورت نازل ہوئی (طَبرانی)۔
سطر 30 ⟵ 28:
۳)۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے، اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے ) نبی صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن المنذر، طَبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)۔
۴)۔ عکرمہ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا گروہ رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حُبی بن اخطب وغیرہ شامل تھے، اور انہوں نے کہا ’اے محمد (صلی اللہ و علیہ و سلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔‘ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء و الصفات)۔
۵) ۔حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا ’اے ابو القاسمؐ! اللہ نے ملائکہ کو نورِ حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوۓہوئے گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے ےسے، آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟‘ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیلؑ آئے اور انہوں نے کہا ’ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، ان سے کہئے کہ ہو اللہ احد۔
۶)۔ عامر بن امطفیل نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ‘ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟‘۔ آپؐ نے فرمایا ’اللہ کی طرف‘۔ عامر نے کہا ’اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے؟‘ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔
۷)۔ ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے پاس آۓ اور انہوں نے کہا ’اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ صلی اللہ و علیہ و سلم پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت تورات میں نازل کی ہے، آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟، کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے یا پیتل سے یا لوہے سے یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے، اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہو گا؟‘ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
سطر 38 ⟵ 36:
پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالٰیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
 
==موضوع اور مضمون==
 
شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں، ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اُس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ایسے خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی با قاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لئے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتیٰ کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا۔ وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا۔ اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑ لیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ رب ہے کس قسم کا؟ جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کر دیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لئے کوئئ گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔
 
==فضیلت اور اہمیت==
 
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپؐ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تا کہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس اسے پھیلائیں کیوں کہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کر دیتی ہے جو فوراً انسان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔
سطر 48 ⟵ 45:
حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا، اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قل ہو اللہ احد پر قرات ختم کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟‘۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمٰن کی صفت بیان کی گئی ہے، اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے۔ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا ’’اخبروہ ان اللہ تعالٰیٰ محبُہٗ۔ ’ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالٰیٰ ان کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب مسجد قُبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قل ہوا اللہ پڑھتے پھر اور کوئی سورت تلاوت کرتے۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قل ہو اللہ پڑھنے کے اسے کافی نہ سمجھ کر اور کوئی سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو، اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو‘۔ انہوں نے کہا۔ ‘میں اسے نہیں چھوڑ سکتا، تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ میں امامت چھوڑ دوں‘۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آخرکار معاملہ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں، اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘ انہوں نے عرض کیا۔ ‘مجھے اس سے بہت محبت ہے۔‘ آپؐ نے فرمایا، ’حبکِ ایاَ ہا ادخلک الجنۃ۔ اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کر دیا ۔‘
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ کسی اجنبی شخص سے تعارف حاصل کرنا چاہتے تو کہتے تھے کہ انسبہٗ لَنَا اس کا نسب ہمیں بتاؤ۔ کیوں کہ اک کے ہاں تعارف میں سب سے پہلی چیز جو دریافت طلب ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ اس کا نسب کیا ہئ اور وہ کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی لیے انہوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ آپ کا رب کون ہے اور کیسا ہے تو انہوں نے کہا اِنسِب لَنَا رَبِکِ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے
 
سطر 61 ⟵ 56:
 
[[زمرہ:سورۃ]]
[[زمرہ:توحید]]