"گلبرگہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 16:
|}
[[زمرہ:گلبرگا ]]
 
گلبرگا ریاست کرناٹک کا ایک تاریخی شہر ہے۔یہ تاریخی شہر گلبرگا بنگلورسے 623 کلومیٹراور حیدرآباد سے 200 سے زائدکلومیٹر ہے۔یہ ازادی سے قبل حضورنظام اورسلطنت اصفیہ کے زیرنگین اورریاست حیدرآبادکا حصہ تھا۔فارسی میں گل کے معنی پھول کے ہیں اوربرگہ کے کہتے ہیں باغ کو۔مطلب گلبرگہ پھولوں کے باغ کوکہتے ہیں۔شاعرانہ زبان فارسی میںگلبرگہ پھول اور پتوںکوبھی کہاجاتاہے۔ایک روایت یہ بھی ہیکہ پرانے دنوں میں گبرگہ کانام Kalaburagiبھی تھاجسے حالیہ دنوں میںایک جی اوکے ذریعہ گلبرگہ کاپراناکالابرگی رکھ دیاگیاہے۔
پہلے گلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاتھا۔اس تاریخی شہرمیں قلعہ گلبرگہ بھی واقع ہے۔یہ قلعہ 0.25 اسکوائر کلومیٹرپرپھیلاہواہے۔اس قلعہ کو۔روزگارڈن پھولوں کاباغ یاگلبرگہ کے طورپرتعمیرکیاگیاتھا۔یہ بھی کہاجاتاہیکہ ایک زمانہ میں اس شہرکے زیادہ ترگھروںمیں پھولوں کے باغ ہواکرتے تھے جس سے اس شہرکانام گلبرگہ پڑا۔اس نام سے شہرکی جاہ وحشمت اوردولمندی کابھی پتہ چلتاہے۔ہندوستان کی ازادی کے بعدگلبرگہ لسانی بنیادپرریاستوں کی تنظیم جدید کے تحت ریاست کرناٹک میں چلاگیا۔
سطر 21 ⟵ 22:
 
[[تاریخ]]
 
ویسے اس ضلع کی تاریخ کااغازچھٹے صدی عیسوی سے ہوا۔Rashtrakutasنے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیالیکن جلد ہی چالوکیہ خاندان اس دوبارہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔چالوکیہ خاندان کی اس شہرپرتقریبادو سو سال تک حکومت رہی۔پھر Kalaharisنے اسے اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے اس پر بارہویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔12th صدی کے آخری برسوں میں دیواگری کے یادوں اور
Dwarasamadra کےHoysalas نے چالوکیہ اورKalachuris. کے اقتدارکوتباہ کردیا۔انھی دنوں ورنگل کی کاکتیہ سلاطین اتے ہیں اورگلبرگہ سمیت رائچورکواپنی سلطنت میں داخل کرتے ہوئے دواضلاع کی تشکیل عمل میں لاتے ہیں۔لیکن تیراسواکیس عیسوی میں تاریخ کاوہ سنہرادوربھی شروع ہوتاہے جس میں سلاطین دہلی کی امدہوتی ہے۔سلاطین دہلی گلبرگہ رائچورسمیت پورے سطح مرتفع دکن پرقبضہ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم کرتے ہوئے۔ اس طر شہرگلبرگہ پہلی مرتبہ مسلم ریاست کے زیراقتداراتاہے۔
سطر 27 ⟵ 29:
 
[[بہمنی سلطنت ]]
 
بہمنی سلطنت جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں پہلی آزاد اسلامی مملکت تھی۔بہمنی سلطنت کوقرون وسطی کی عظیم سلطنتوں میں شمارکیاجاتاہے۔علاو�¿شمارکیاجاتاہے۔علاو الدین حسن بہمن شاہ اس سلطنت کابانی ہے۔علاو�¿ہے۔علاو الدین حسن بہمن شاہ نے سلطان محمد بن تغلق سے بغاوت کی تھی۔جس کے بعدسلطنت دہلی کاباغی نذیرالدین اسماعیل شاہ نے ظفر خان کے حق میں دستبرداری اختیارکرلی۔جس کے بعدظفرشاہ علاو�¿علاو الدین حسن بہمن شاہ کے خطاب سے تخت نشین ہوا۔یہ سلطنت دہلی سلطنت کے جنوبی صوبوں میں ایک تھی۔بہمنی سلطنت کوجنوبی ہندکی ہندوریاست وجئے نگراسے سخت مقابلہ تھا۔1466-1481 کے بیچ محمودگاواں کی دوران وزارت بہنمی سلطنت کوعروج حاصل ہوا۔1518 کے بعدیہ مملکت پانچ ریاستوں میں ٹوٹ گئی۔جن میں احمد نگر کی نظام شاہی۔گولکنڈا کی قطب شاہی۔بیدرکی بَرِیدشاہی،برار کی عمادشاہی۔اوربیجاپور کی عادل شاہی شام ہے۔ان سب ریاستوں کومجموعی طورپردکن سلطنتیں کہاجاتاہے۔
 
 
[[دکن کی ریاستیں]]
 
تیرہویں صدی عیسوی میں سلطنت دہلی کمزورہوجاتی ہے جس کے باعث چھوٹی چھوٹی خودمختاراورازادریاستیں وجودمیں ائیں۔ان ریاستوں میں بہمنی سلطنت بھی شامل ہیں۔1347عیسوی میں حسن گنگونے بہمنی سلطنت کاقیام عمل میں لایا۔حسن گنگونے اس وقت کے احسن ابادموجودہ گلبرگہ کودارالحکومت بنایا۔لیکن دیگرسلطنتوں کی طرح بہمنی سلطنت کابھی ایک دن خاتمہ ہوناتھااورہوا۔1428عیسوی میں بہمنی سلطنت کاخاتمہ ہوااوراس سلطنت کے کھنڈرات سے پانچ ریاستیں ہندوستان کے نقشہ پرابھرائیں۔یہ ریاستیں ۔بیدر۔برار۔بیجاپور۔احمدنگراورگولکنڈہ ہیں۔ان دنوں گلبرگہ کاکچھ حصہ سلطنت بیجاپوراورسلطنت بیدرکے زیرنگین تھا۔اخرمیں ان سلطنتوں کو1687میں مغلیہ سلطنت کے ولی صفت بادشاہ حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒعالمگیر نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
 
 
[[سترہویں صدی سے 1956 تک ]]
 
مغلیہ سلطنت کے فرماں رواں حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کی جانب سے 17 صدی میں دکن کی فتح کے ساتھ، گلبرگا مغلیہ سلطنت میں داخل ہوگیا۔لیکن اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا زوال ہوگیا۔اٹھارویں صدی کے ابتدائی برسوں میں اورنگزیبؒ کے جنرل آصف جاہ گولکنڈہ کی خودمختاری کااعلان کردیا۔اس طرح اخرکاریہ شہرریاست حیدرآباد میں داخل ہوگیا۔1947 میں ہندوستان کوازادی حاصل ہوئی اور1948 میں ریاست حیدرآبادکاانڈین یونین میں انضمام ہوگیا۔لیکن 1956میں آندھرا پردیش اور گلبرگا ۔نیومیسور اسٹیٹ۔میں شامل کردیاگیا۔
 
 
[[تاریخی عمارتیں]]
 
اب ڈالتے ہیں گلبرگا کے تاریخی عمارتوں پرایک نظر۔گلبرگہ میں بہمنی سلاطین کاقدیم اورخستہ حال قلعہ بھی ہے۔لیکن اس قلعہ میں کئی دلکش عمارتیں بھی ہیں۔جن میں جامع مسجد گلبرگابھی شامل ہے۔اس قلعہ میں 15 میناربھی ہیں۔گلبرگامیں Bahmani سلاطین کے گنبدیں بھی ہیں۔ گلبرگہ میںسری Kshetra Ghangapur مندر ہے۔ Siddarth trustکاBuddha Vihar بھی ہے۔ٹینک بند روڈ پرSharanbasaveshvar گارڈن ہے۔ساتھ ہی اس شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی بھی علم کے چراغ روشن کررہی ہے۔
 
 
[[قلعہ گلبرگہ ]]
 
قلعہ گلبرگہ کوسب سے پہلے سلطنت ورنگل کے حمکراں راجہ گول چندنے تعمیر کیاتھا۔لیکن بعد میں سلاطین دہلی سے علاحدگی کے بعد قلعہ گلبرگہ کو 1347 میں بہمنی حکمراں علاءالدین بہمنی نے توسیع کی۔دارالحکومت کو یادگاربنانے کیلئے اس قلعہ میںشاندارمساجد،محلات، گنبدیں، اوردیگر عمارتیں تعمیرکی گئیں۔جس میں خوبصورت جامع مسجدبھی شامل ہے۔گلبرگہ 1327 سے 1424ءتک بہمنی سلطنت کادارالحکومت رہا۔لیکن بہترموسمی حالات اورپرفضاماحول کی وجہ سے 1424 کے بعدبہمنی سلطنت کے دارالحکومت کوقلعہ بیدرمیں منتقل کردیاگیا۔
 
 
[[جامع مسجد ]]
 
قلعہ گلبرگہ کی بات قلعہ کی جامع مسجدکے ذکربغیرادھوری رہتی ہے۔قلعہ گلبرگہ میں واقع جامع مسجدکوایک Moorish معمارنے تعمیرکیاہے۔یہ مسجدچودہویں یاپندرہویںصدی کے دوران تعمیرکی گئی ۔جامع مسجد کواسپین کی ریاست قرطبہ میں موجود عظیم مسجد کی مشابہت رکھتی ہے۔اس مسجدکوCathedral–Mosque of Córdoba بھی کہاجاتاہے۔گلبرگہ کی جامع مسجدہندوستان کی منفردمساجدمیں سے ایک ہے۔مسجدکے مغربی کنارے ایک بڑاگنبد ہے جومسجدکے ایک بڑے حصے کوگھیرے ہوئے ہے۔جبکہ مسجدکے چاروں اطراف واقع چھت کواوسط اورچھوٹے سائز کے گنبدوں سے خوبصورت بنایاگیاہے۔مسجدکے داخلے کیلئے موجودچاروں اطراف کے راستوں کی چھتوں پربھی 63 گنبدیںہیں۔ جامع مسجد گلبرگا کے مہراب کاڈیزائن حیدرآبادکے بیگم پیٹ میں واقع ہسپانوی مسجد کے اندرونی ڈیزائن کی شبیہ پیش کرتاہے۔ہندوستان میں اس ڈیزان کی صرف یہ دومسجدیں ہیں۔گلبرگہ کی جامع مسجدساﺅتھ ایشیاکی شاندارمسجدشمارکی جاتی ہے۔اس تاریخی مسجدکو(1358 سے 75کے بیچ تعمیرکیاگیاتھا۔جامع مسجدکی تعمیرمحمد شاہ اول نے اپنے دارالحکومت کومیں کروائی تھی۔مسجدکامرکزی دروازہ یعنی سنٹرل گیٹ شمال میںواقع ہے۔مسجدکی بیرونی دیواریں محراب دارہیں۔جس سے ضروری روشنی اورصحن کی تازہ ہوا فلٹرہوکرمسجدمیں داخل ہوتی ہیں۔مسجدکے اندرونی ستونوں پرکوئی نقش ونگارنہیں ہے ان ستونوں کوسفیدچونے سے رنگاگیاہے۔ہال میں کھڑے ہوئے یہ وسیع ستون مسجدکی فضاکوخوبصورت اورروحانی بناتے ہیں۔
 
 
[[حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز]]
 
گلبرگہ کوگلبرگہ شریف بھی کہاجاتاہے۔شایداس کی وجہ شہرمیں موجودصوفیااکرام کے مزرات ہیں۔شہرمیں کئی بزرگوں مزرات ہیں اوران مزرات پرشاندارگنبدوں کی تعمیرکے ذریعہ بادشاہان وقت نے بزرگوں سے اپنی عقیدت کااظہارکیاہے۔مشہور درگاہوں میں سے ایک شہنشاہ دکن حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز کی درگاہ ہے۔حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز سلسلہ چشتیہ کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ملک وبیرون ملکوں سے ہرسال ہزاروں زائرین عرس شریف میں شرکت کرتے ہیں۔وہ سلطان تاج الدین فیروز شاہ کی دعوت پر 1397 میںگلبرگہ تشریف لائے۔نومبر 1422ءاپ کاوصال ہوگیا۔حضرت بندہ نوازگیسودراز کانام سیدمحمدتھا۔اپ خواجہ بندہ نوازاورخواجہ گیسودرازکے نام سے معروف ہوئے۔اپ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کے سجادہ نشین تھے۔اپ کاخاندانی شجرہ امام حسین سے ہوتے ہوئے حضرت علی سے ملتاہے۔حضرت بندہ نواز سیدیوسف حسینی عرف سیدراجا کے گھرانہ میں پیداہوئے۔چارسال کی عمرمیںاپ کے اباجان سلطان محمدتغلق کے دورمیں دیوگیرمنتقل ہوگئے۔پندرہ سال کی عمرمیں خواجہ صاحب نے حضرت چراغ الدین دہلی میں بیعت کی۔یہ 736ہجری کی بات ہے۔انیس سال کی عمرمیں شرعی علوم سے فارغ ہوئے۔پرعلوم باطن کیلئے زبردست ریاضت کی۔حضرت چراغ دہلوی نے انتقال کے وقت سیدگیسودراز اپناجانشین منتخب کیا۔جب اپ گلبرگہ تشریف لائے توسلطان فیروزشاہ نے اپنے خاندان والوں۔امیروں۔دربارکے علمااورشاہی لشکرکے ساتھ شہرکے باہراستقبال کیا۔تویہ تھی حضرت کی شان۔اس کے علاوہ شہراورشہرکے اطراف کئی بزرگوں کے چھوٹے بڑے مزارات اور درگاہیں موجودہیں۔
 
 
[[زمرہ:جغرافیہ ]]
 
تاریخی ضلع گلبرگہ دکن کے سطح مرتفع یعنی Deccan Plateau,پر واقع ہے۔یہ شہر دو اہم دریاو�¿ں،دریاوں، دریائے کرشنا اور دریائے BHIMAسیراب ہوتاہے۔اس ضلع کی مٹی تقریباسیاہ ہے۔ضلع میں ابپاشی کے کئی ذخائرہیں۔Upper Krishna Project ضلع کااہم پراجیکٹ ہے۔جوار، مونگ پھلی، چاول، اور دال یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔تور کی دال کیلئے گلبرگہ کرناٹک بھرمیں مشہورہے۔صنعتی اعتبارسے گلبرگہ پسماندہ ضلع ہے۔سیمنٹ، ٹیکسٹائل، چمڑے اور کیمیکل صنعتوں میں ترقی کے آثارہیں۔تعلیمی اعتبارسے یہ شہرملک میں اہم مقام رکھتاہے۔شہرمیں گلبرگہ یونیورسٹی ہے اوردومیڈیکل کالجس ہیں۔Mahadevappaہیں۔ Mahadevappa Rampure میڈیکل کالج اور KBN میڈیکل کالج۔اسی طرح گلبرگہ میںتینمیں تین ڈینٹل کالجزہیں۔جبکہ 6 انجینئرنگ کالجس طلبہ کوفنی تعلیم سے اراستہ کررہے ہیں۔
 
[[زمرہ:جغرافیہ کرناٹک]]