"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 76:
==نعت گوئی==
ساغرؔ جیدی نے سرکارِ دو عالم کی عقیدت میں ڈوب کر حضورؐ کی تعریف اور اوصاف بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں میں درود و سلام کی خوشبو مہکتی ہے اور اپنی زندگی کو حضور کی سنتوں سے آراستہ کیا ہے اور ’’باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار‘‘ کے فارسی محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہا ہے، حضور کی تعریف میں لفظوں کا انتخاب بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہؓ کی نعتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو دوہوں میں انہیں منتقل کیا ہے۔ (مثلاً عائشہؓ اور ابو بکرصدیق ؓ کے عربی نعتوں کا ترجمہ دوہا صنف میں اظہار کیا ہے) ۔ موصوف کا ایک نعتیہ مجموعہ ’’صلو علیہ و الہی‘‘ کے نام سے سنہ2000ء میں شائع ہوچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
{{اقتباس|نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے کبھی ہم چاند کا چہرہ
تصور میں ہمارے ہے رخِ روشن محمدﷺ کا}}
{{اقتباس|خوشبو کیوں ہے سانس میں کیوں ہے آنکھ میں نور
قلب میں ذکر حضورؐ کا، چلتا ہوگا ضرور}}
 
{{اقتباس|درود کے اعداد کی اتنی ہے روداد
ساغرؔ ! بس ہم ہوگئے، دوزخ سے آزاد}}
 
درود کے اعداد کی اتنی ہے روداد
ساغرؔ ! بس ہم ہوگئے، دوزخ سے آزاد
==نثر نگاری==
ساغرؔ جیدی ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگاربھی ہیں۔ ان کے کل تین نثری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ دو نثری تصانیف تلگو زبان میں اور ایک اردوتصنیف شائع ہوچکی ہے۔ موصوف نے اردو اور ہندی ہی میں نہیں بلکہ تلگو زبان میں بھی کما حقہٗ عبور رکھتے ہیں، پہلی نثری تصنیف ’’صوفی دھاگے‘‘ کے نام سے سنہ2004ء میں شائع ہوچکی ہے جس میں حکمت ، پند و نصیحت کی باتیں شامل ہیں۔ یہ ایک طرح تلگو ہی میں شائع کی گئی نصیحت آموز متصوفانہ نثری کتاب ہے۔ دوسری نثری تصنیف تلگو زبان میں ’’ہیروں کا تاج‘‘ سنہ2006ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ساغرؔ جیدی کا کمال یہ ہے کہ ان تلگو نثری تصانیف کے نام بھی اردو سے تعلق رکھتے ہیں۔