"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 62:
==ساغر ؔ جیدی کی رباعیات==
رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں فلسفیانہ حکیمانہ، صوفیانہ، اخلاقی اور عشقیہ مضامین کے علاوہ مختلف سماجی مسائل اور موضوعات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ اکثر شعراء اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ کسی بھی وزن میں چار مصرعے کہہ کر رباعی لکھی جاسکتی ہے۔ جبکہ ماہرین عروض نے رباعی کے لئے مخصوص اوزان کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے۔ رباعی کے ہر مصرعہ میں ’’مخصوص وزن‘‘ کے چار چار کن ہوتے ہیں اور یہ چار اراکین بیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان اراکین کو عروضِ اصطلاح میں افاعیل بھی کہتے ہیں، عرو ض داں نے رباعی کے چوبیس اوزان کو دو گروہوں میں ’’شجرۂ اخرب‘‘ اور ’’شجرۂ اخرم‘‘ میں برابر بانٹا ہے۔ ان سب فنی لوازمات کو ہنر مندی کے ساتھ برتنے میں ساغرؔ جیدی بے انتہا کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی رباعیات میں انسانی اقدار، اخلاقی معیار، سادگی، سلاست، روانی، سوز و گداز، جدت، ندرت، شگفتگی اور شائستگی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس نوعیت کے چند رباعیات ملا حظہ ہوں ؂
{{اقتباس|مٹی کا کٹورہ بھی نہیں ہے گھر میں
اک دوسرا کُرتا بھی نہیں ہے گھر میں
کیا بات ہو تخت و تاج کی ساغرؔ
ٹوٹی ہوئی کٹیا بھی نہیں ہے گھر میں}}
{{اقتباس|تہذیب کے اثرات بہت گہرے تھے
ظلمت کے دہانے پہ قدم ٹھرے تھے
آواز ہی آواز تھی چاروں جانب
ہم لوگ فرشتے تھے مگر بہرے تھے}}
{{اقتباس|ہر اندھے عقیدے کو ہرا رکھتی ہے
پھر پھر کے الگ آب و ہوا رکھتی ہے
یہ دور ہے بے دین، مگر اس کی جیب میں
دو چار خداؤں کا پتہ رکھتی ہے}}
 
==نعت گوئی==
ساغرؔ جیدی نے سرکارِ دو عالم کی عقیدت میں ڈوب کر حضورؐ کی تعریف اور اوصاف بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں میں درود و سلام کی خوشبو مہکتی ہے اور اپنی زندگی کو حضور کی سنتوں سے آراستہ کیا ہے اور ’’باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار‘‘ کے فارسی محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہا ہے، حضور کی تعریف میں لفظوں کا انتخاب بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہؓ کی نعتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو دوہوں میں انہیں منتقل کیا ہے۔ (مثلاً عائشہؓ اور ابو بکرصدیق ؓ کے عربی نعتوں کا ترجمہ دوہا صنف میں اظہار کیا ہے) ۔ موصوف کا ایک نعتیہ مجموعہ ’’صلو علیہ و الہی‘‘ کے نام سے سنہ2000ء میں شائع ہوچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂