"مملکت یونانی ہند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 40:
{{نامکمل قطعہ}}
==ابتدائی تاریخ==
'''پس منظر'''
مملکت يونانی ہند میں يونانیوں نے ہندوستانی خصوصیات و رسومات اپنا لیے اور یہ علاقے حقیقی معنوں میں منفرد سیاسی اور یونانی و ہندوستانی ثقافت کا ایک مرکب بنے، کم از کم حکمران اشرافیہ کے لئے تو ایسا ہی تھا-
سکندر کے زمانے سے باختر یونانیوں کی نوآبادی تھی۔ سلوکس نے چندر گپت سے شکست کھانے کے بعد جو شرمناک معاہدہ کیا تھا اس میں سندھ پار کے علاقے سیستان، شمالی افغانستان اور بلوچستان پر چندگپت کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ بلخ کے یونانیوں کو خدشہ تھا کہ چندر گپت بلخ فتح کرنے کے لئے پیش قدمی کرے گا اس لئے باختریہ کے یونانیوں نے سلوکیوں کے خلاف بغاوت کردی۔
 
ابتدئی تاریخ
190 سے 165 قبل از مسیح کے درمیان مملکت يونانی ہند کئی ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے اور آپس میں لڑنے کے علاوہ [[سلطنت یونانی باختر]] سے بھی جنگ لڑتے رہے- شروع میں یہ [[قدیم مشرقی پنجاب]] تک حکومت کرتے اور ان کی مغربی سرحد ہندوستان کی [[شنگا سلطنت]] سے جا ملی-
باختریہ جس کا دارلحکومت بلخ تھا اور وہاں کی بغاوت کی قیادت ڈیوڈیٹسDeudetes جو یونانی نژاد تھا کررہا تھا۔ اس نے سغدیہ اور مرو کو متحد کرلیاِ اور سلوکیوں کا جوا اتار پھیکا۔ ادھر پارتھیا نے بھی بغاوت کردی، اس کی قیادت ایک مقامی سردار ارشک کررہا تھا۔ اس بغاوت کو سرد کرنے کے لئے انٹی گوس دوم Antiochus 2ed نے اپنے بھائی سلوکس سومSelecus 3ed کے ساتھ مل کر 237 ؁ ق م میں پارتھیا پر چڑھائی کی اور بلخ کے حکمران ڈیوڈوٹس سے معاہدہ کرکے اسے بھی پارتھیا پر حملہ کرنے کے لئے راضی کرلیا۔ لیکن ڈیوڈوٹس فوت ہوگیا ارشک نے موقع کو غنیمت جان کر کے اس کے بیٹے کر کے ڈیوڈوٹس دوم سے اتحاد کرلیا اور اس کو سلوکیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرلیا جس کی وجہ سے سلوکس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔
{{نامکمل قطعہ}}
 
==عروج==
['''عروج'''
[[سلطنت یونانی باختر]] کے ایک باغی سپہ سالار [[اوکراتید میغاس]] نے [[آنٹیماکھا یکم]]، [[دیمتریوس دوئم]] و [[آنٹیماکھا دوئم]] کو باری باری شکست دینے کے بعد سلطنت پر قابض ہوا- 165 قبل از مسیح میں [[اوکراتید میغاس]] نے مملکت يونانی ہند پر حملہ کیا اور سلطنت کے بیشتر اکثر حصے پر قبضہ کر لیا- مگر اس کی بدقسمتی تھی کہ اس نے آل اوتیدم سے جھگڑا منہ موڑ لیا، جس کا سب سے مشہور و معروف بادشاہ [[ملند اعظم]] نے [[اوکراتید میغاس]] کو 155 قبل از مسیح میں واپس [[سلطنت یونانی باختر]] میں دھکیل دیا اور اگلے 25 سالوں تک آل اوتیدم بغیر کسی دشواری کے مملکت يونانی ہند پر حکمرانی کرتے رہے- اس دوران [[ملند اعظم]] نے [[پاٹلپتر]] یعنی موجودہ [[پٹنہ]] تک شمالی ہندوستان کو فتح کر لیا مگر بعد میں خود خانہ جنگی میں مارا گیا-
ڈیوڈوٹس کو ایک اور یونانی سردار یوتھی ڈیمس Ueothidemes نے شکست دی۔ اسے بھی نئے حکمران انطیوکس اعظم (223 تا 187 ق م) سے لڑنا پڑا۔ جس نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختیاری تسلیم کرلی۔ انطیوکس یوتھی ڈیمس کے بیٹے ڈیمتریوس Demetrues سے جو باپ کی طرف سے صلح کی گفت و شنید کررہا تھا اس قدر متاثر ہوا کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی۔
 
یوتھی دیمس ایک طول عرصہ حکومت کے بعد 190 ؁ ق م میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا ڈیمتریوس اس کا جانشین ہوا جس کی شہرت پہلے ہی دور تک پھیل چکی تھی۔ اس نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لئے وادی کابل پر حملہ کر کے پنجاب وسندھ کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ لیکن اسے اپنے ہندی مقبوضات کی بڑی قیمت دینی پڑی۔ کیوں کی اس کی عدم موجودگی ایک اور یونانی سردار یوکراٹائی یز Eucratsevess نے اس کے پایہ تخت بلخ پر قبضہ کرلیا۔ ڈیمتریوس نے اپنے ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں رکھے اور سنگالہ Singala (سیالکوٹ) کو اپنا دارلحکومت بنالیا اور اس کے بعد وہ ہندیوں کا بادشاہ کہلانے لگا۔
{{نامکمل قطعہ}}
ڈیمتریوس کو بعد میں یوکراٹائی یز سے مقابلہ کرنا پڑا کیوں کے اس نے اپنی سلطنت کی حدودیں پنجاب تک بڑھا لیں۔ اس لڑائی میں ڈیمتریوس مارا گیا مگر یوکراٹائی یز کی کامیابی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور وہ جب واپس جارہا تھا کہ راستہ میں اس کے بیٹے ہیلو کلیز Heloclies نے اسے قتل کردیا اور بعد میں اس پدر کش حکمراں کے دور میں باختر پر ساکاؤں نے قبضہ کرلیا اور یونانیوں نے بھاگ کر ہندی علاقوں میں پناہ لی۔ اس طرح پنجاب اور کا بل میں ڈیمتریوس اور یوکراٹائی یزکے خاندان کی حکومتیں علیٰ ترتیب قائم ہوئیں۔ سکوں پر ہمیں ڈیمتریوس خاندان کے کئی حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں ایک انتالکیداس ہے جس کا ذکر ہمیں بیس نگر کے کتبہ میں ملتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے سفیر جو سنگ حکمران بھگا بھدرا کے دربار میں بھیجا گیا تھا وہاں اس نے ایک ستون پر بنوایا تھا۔ اس کتبے سے ظاہر ہے کہ یاونا (یونانی) حکمرانوں نے برصغیر کی ریاستوں سے سیاسی رشتہ جوڑ لئے، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بعد میں مقامی مذاہب بھی ختیار کرلئے تھے۔ کیوں کہ سفیر مذکورہ کا نام بہگوت کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس یونانی خاندان جس نے برصغیر کے سرحدی علاقوں پر حکومت کی ان میں ہرمیوسس Hermioses آخری تھا۔
 
یوتھی دیمس کے خاندان میں اپالو دوٹس Apalodotes اور منیانڈر Menander کے نام ادب میں اب تک موجود ہیں۔ غالباََ اپالو دوٹس کے عہد میں اس خاندان کا اقتدار مشرقی افغانستان سے ختم ہوا۔ منیانڈر کا نام نسبتاََ زیادہ مشہور ہے، کیوں کہ بدھ مت کی کتاب ’ملندا ہنہا‘ (ملندا کے سوالات) میں ملندا درحقیقت منیانڈرا کا نام ہے۔ یہ کتاب بزرگ سین اور منیانڈر Menander کے سوالات اور جوابات کی شکل میں ہے، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ منیانڈر نے بدھ مذہب قبول کرلیا۔ منیانڈر کا دور طویل اور خوش حال تھا۔ جس حکمران نے مگدھ پر حملہ کیا وہ غالباََ منیانڈر ہی تھا۔
==زوال==
''' ذوال'''
130 قبل از مسیح میں [[یوہژی]] قبائل کے خانہ بدوشوں نے [[سلطنت یونانی باختر]] پر حملہ کرکے آخری بادشاہ [[ہلی‌اکل]] کو جنگ میں شکست دے کر [[باختر]] و [[سغد]] پر قابض ہوئے اور علاقے کا نام تخارستان پڑ گیا- [[سلطنت یونانی باختر]] سے بےشمار یونانی '''مملکت يونانی ہند''' پناہ لینے آگئے- 130 تا 80 قبل از مسیح کے دوران کئی بادشاہوں نے مملکت کی ریاستوں پر حکومت کی جن میں بڑی ریاستیں [[پاروپامیز]]، [[رخج]]، [[گندھارا]]، [[قدیم مغربی پنجاب]] اور [[قدیم مشرقی پنجاب]] تھے- رخج پر بعد میں [[ساکا]] خانہ بدوش قبائل نے قبضہ کر لیا-
اس کے جانشین ناہل ثابت ہوئے پھر بھی ان ہندی یونانی بادشاہوں کی حکومت دو سو سال تک ہندوستان کے شمالی حصہ جس میں غالباً وادی کابل و سوات اور پشاور اور شمال مغرب کے قرب و جوار کے چند اضلاع اور مشرقی پنجاب شامل تھا ان کے زیر حکومت رہے خواہ وہ پارتھیوں کے زیر طاقت رہے اور ساکاؤں نے پہلی صدی میں ان کی حکومت ختم کردی۔
 
'''یونانی اثر'''
کچھ بادشاہ ان علاقوں کو دوبارہ ملانے میں تقریباً کامیاب ہو ئے مثلاً [[فیلاکسینوس انکتوس]] اور [[آرچیبیاس دیکایوس نقفور]]، لیکن آخر میں ناکام رہے- ایک '''آل اوتیدم''' ملکہ، [[آگاتھوکلیا بیگم]]، نے اپنے بیٹے [[استراتو یکم]] کے لئے ایک مضبوط حکومت قائم کی، لیکن صدی کے موڑ پر '''مملکت يونانی ہند''' کے علاقوں میں بہت اختلافات تھے-
یونانیوں نے ہندوستان کی تہذیب پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ پنجاب پر یونانیوں کا دوسو سال تک قبضہ رہا۔ یہی وجہ ہے یہاں ان ہی علاقوں میں ہم کو یونانی اثر زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن تعجب تو یہ ہے یہاں بھی یونانی آثار بہت ہی کم اور نامعلوم ہیں۔ سکوں کے سوا جن کے ایک طرف یونانی زبان میں عبارت ہوتی تھی اور صریحاً یونانی نمونے پر تیار ہوتے تھے اور کوئی چیز نہیں پائی جس سے کہ بیرونی سالہائے دراز کی حکمرانی کے اثر کا پتہ لگتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکوں سے یہ امر بالکل صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک حد تک ان اجنبی بادشاہوں کے درباروں میں یونانی زبان مستعمل تھی۔ مگر بعد کے سکوں پر دیسی زبان لکھے جانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام و الناس اس سے بالکل نابلد تھے۔ یونانی زبان کا کوئی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور ہندی کتبات میں اب تک صرف تین یونانی نام پائے گئے۔
 
'''یونانی حکمران کی فہرست '''
تخریبی عناصر کی شکل میں [[ساکا]] اپنے حکمران [[مؤ‏یس]] کے زیر اثر مملکت يونانی ہند میں داخل ہوئے- اس نے آل اوتیدم اور آل اوکراتید کے کئی بادشاہوں کو شکست دے کر [[پاروپامیز]]، [[گندھارا]] اور [[قدیم مغربی پنجاب]] کو فتح کر لیا- اس دشمن کے خلاف، دونوں خاندانوں نے [[امینتاس نیکاتر]] کے زیر اقتدار، جن کی [[قدیم مشرقی پنجاب]] میں حکومت تھی، نے اتحادی بن کر [[ساکا]] کی بھرپور مزاحمت کی اور یونانی ریاستوں کو بچایا اور 65 قبل مسیح میں اپنے علاقوں پر دوبارہ قابض ہوئے- لیکن ساتھ ہی یونانی ریاستوں کی آپسی دشمنیاں لوٹ آئیں-
ڈیوڈیٹسDeudetes تقریباً 250 ق م میں تخت نشینی
 
ڈیوڈوٹس دوم Deudetes 2ed تقریباً 245 ق م میں تخت نشینی
'''مملکت يونانی ہند''' کے آخری سالوں کی تاریخ دوبارہ خانہ جنگوں کی صورت میں لکھی گئی اور جلد ہی مشرقی علاقے دوبارہ [[ساکا]] جنگجو لے گئے- آخری حکمران مملکت يونانی ہند [[استراتو دوئم اور استراتو تریہم]] نے [[ساکا]] جنگجوؤں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور انکے سردار [[راجوولا]] نے انہیں مار دیا اور اس طرح '''مملکت يونانی ہند''' کا خاتمہ ہوا اور [[سلطنت ساکائے ہند]] کی شروعات ہوئی-
یوتھی ڈیمس Ueothidemesتقریباً 230 ق م میں تخت نشینی
 
ڈیمتریوس Demetrues تقریباً 190 ق م میں تخت نشینی
یوکراٹائی یز Eucratsevess تقریباً 175 ق م میں تخت نشینی
ہیلو کلیز Heloclies تقریباً 156 ق م میں تخت نشینی
پلٹیو Plato تقریباً 130 ق م میں تقریباً میں تخت نشینی اور باختریہ کا آخری حکمران
ہرمیوسس Hermioses تقریباً 10ء؁ میں تخت نشینی اور کوشانیوں سے شکست تقریباً ۰۲ء؁ کابل کا آخری بادشاہ
پلٹیو Plato تقریباً 165 ق م میں تقریباً یوکراٹائی یز کا ہم عصر اور غالباً سیستان کا بادشاہ تھا
تقریباً138 تا 120 میں تقریباً باختروی خاندان کا خاتمہ اور پنجاب میں میں مختلف یونانی شہزادوں کی آمد
منیانڈر Menander یوکراٹائی یز کے بعد تھا تقریباً ۵۵ا ق م میں ہندستان میں حملہ آور ہوا مگر کارڈنر کا خیال ہے کہ وہ 110 ق م میں گزرا ہے
امنٹس نیکیٹر ہومیوس سے ذرا پہلے تھا
نیکئس سوٹر یوکراٹائی یز کے گزرا ہے غالباً مغربی پنجاب میں کیوں کے اس کے سکے صرف جہلم میں دستیاب ہوئے
پنٹون۔ یوتھی ڈیمس اول یا ڈیمریوس کا ہم عصر تھا اور غالباً اگھتوکلیز کا پیشرو تھا تقریباً 190 ق م
اگتھو کلیز ڈکؤس غالباً پنٹون کا جانشین
آرٹی میڈاس انی کیٹاس منیانڈر کے بعد ہوا ہے
ڈیومڈس سوٹر اس کا تعق بظاہر یوکرانائی یز سے تھا
اپالو دوٹس Apalodotes تقریبا 156 ق م غالباً یوکرنائی یز کا بیٹا اور مشرقی پنجاب میں غالباً سٹریٹو اول کا ہم عصر تھا۔
زہئلوس سوٹر بظاہر اپالوڈوٹس کے بعد اور ڈیونی سئاس کا تقریباً ہم عصر
ہپاسٹرنیاس سوٹر میکس غالباً اپالو ڈوٹس کا جانشین
پیو لے کلؤس ڈیکؤس سوٹر ہپاسٹرنیاس کا ہم عصر تھا
ڈیونی سئاس سوٹر اپالوڈوٹس کے بعد تھا
اپالو فینس سوٹر مشرقی پنجاب میں غالباً سٹریٹو دوم کا ہم عصر تھا۔
سڑیٹوسوٹڑ اول مئیاس 120 ق م میں تقریباً تخت نشین سڑٹیو دوم (مغربی پنجاب میں) ہیلو کلیز کا ہم عصر تھا
سڑیٹو دوم سٹریٹو اول کا پوتا
دونوینس ۵۱۱ ق م میں تقریباً (تخت نشین) مختلف یونانی شہزادے
ٹیکسلہ اور متھرا کے سٹرپ تقریباً 50ء؁ میں تخت نشینی
انٹی الکیڈس نیکیفورس170 ق م میں تقریباً بظاہر ٹیکسلا کا حکمران
انٹی میکس اول تھیوس اول غالباً کابل میں ڈیوڈوٹس کا جانشین تھا
انٹی میکس دوم یوکراٹائی یز کے بعد یا اس کا ہم عصر تھا
فلاالسنیاس انٹی کٹیاس غالباً انٹی میکس کا جانشین
آرلیبا سوٹر غالباً اس کا تعلق ہیلیو کلیز خاندان سے تھا
پولکسناس ابپی فیز سوٹر؟
ٹیلی فوس یوار گٹیز؟
تھیوفلس ڈیلوس؟
یونانی باشاہوں کی یہ فہرت ویسنٹ اے اسمتھ کی کتاب قدیم ہندوستان کی مدد سے بنائی گئی ہے۔
 
==حکمرانوں کی فہرست==
سطر 165 ⟵ 198:
|-
|}
'''پس منظر'''
سکندر کے زمانے سے باختر یونانیوں کی نوآبادی تھی۔ سلوکس نے چندر گپت سے شکست کھانے کے بعد جو شرمناک معاہدہ کیا تھا اس میں سندھ پار کے علاقے سیستان، شمالی افغانستان اور بلوچستان پر چندگپت کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا۔ بلخ کے یونانیوں کو خدشہ تھا کہ چندر گپت بلخ فتح کرنے کے لئے پیش قدمی کرے گا اس لئے باختریہ کے یونانیوں نے سلوکیوں کے خلاف بغاوت کردی۔
ابتدئی تاریخ
باختریہ جس کا دارلحکومت بلخ تھا اور وہاں کی بغاوت کی قیادت ڈیوڈیٹسDeudetes جو یونانی نژاد تھا کررہا تھا۔ اس نے سغدیہ اور مرو کو متحد کرلیاِ اور سلوکیوں کا جوا اتار پھیکا۔ ادھر پارتھیا نے بھی بغاوت کردی، اس کی قیادت ایک مقامی سردار ارشک کررہا تھا۔ اس بغاوت کو سرد کرنے کے لئے انٹی گوس دوم Antiochus 2ed نے اپنے بھائی سلوکس سومSelecus 3ed کے ساتھ مل کر 237 ؁ ق م میں پارتھیا پر چڑھائی کی اور بلخ کے حکمران ڈیوڈوٹس سے معاہدہ کرکے اسے بھی پارتھیا پر حملہ کرنے کے لئے راضی کرلیا۔ لیکن ڈیوڈوٹس فوت ہوگیا ارشک نے موقع کو غنیمت جان کر کے اس کے بیٹے کر کے ڈیوڈوٹس دوم سے اتحاد کرلیا اور اس کو سلوکیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرلیا جس کی وجہ سے سلوکس کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔
'''عروج'''
ڈیوڈوٹس کو ایک اور یونانی سردار یوتھی ڈیمس Ueothidemes نے شکست دی۔ اسے بھی نئے حکمران انطیوکس اعظم (223 تا 187 ق م) سے لڑنا پڑا۔ جس نے ایک طویل مقابلے کے بعد باختریہ کی خود مختیاری تسلیم کرلی۔ انطیوکس یوتھی ڈیمس کے بیٹے ڈیمتریوس Demetrues سے جو باپ کی طرف سے صلح کی گفت و شنید کررہا تھا اس قدر متاثر ہوا کے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردی۔
یوتھی دیمس ایک طول عرصہ حکومت کے بعد 190 ؁ ق م میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا ڈیمتریوس اس کا جانشین ہوا جس کی شہرت پہلے ہی دور تک پھیل چکی تھی۔ اس نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لئے وادی کابل پر حملہ کر کے پنجاب وسندھ کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ لیکن اسے اپنے ہندی مقبوضات کی بڑی قیمت دینی پڑی۔ کیوں کی اس کی عدم موجودگی ایک اور یونانی سردار یوکراٹائی یز Eucratsevess نے اس کے پایہ تخت بلخ پر قبضہ کرلیا۔ ڈیمتریوس نے اپنے ہندی مقبوضات اپنے قبضہ میں رکھے اور سنگالہ Singala (سیالکوٹ) کو اپنا دارلحکومت بنالیا اور اس کے بعد وہ ہندیوں کا بادشاہ کہلانے لگا۔
ڈیمتریوس کو بعد میں یوکراٹائی یز سے مقابلہ کرنا پڑا کیوں کے اس نے اپنی سلطنت کی حدودیں پنجاب تک بڑھا لیں۔ اس لڑائی میں ڈیمتریوس مارا گیا مگر یوکراٹائی یز کی کامیابی بھی دیر پا ثابت نہیں ہوئی اور وہ جب واپس جارہا تھا کہ راستہ میں اس کے بیٹے ہیلو کلیز Heloclies نے اسے قتل کردیا اور بعد میں اس پدر کش حکمراں کے دور میں باختر پر ساکاؤں نے قبضہ کرلیا اور یونانیوں نے بھاگ کر ہندی علاقوں میں پناہ لی۔ اس طرح پنجاب اور کا بل میں ڈیمتریوس اور یوکراٹائی یزکے خاندان کی حکومتیں علیٰ ترتیب قائم ہوئیں۔ سکوں پر ہمیں ڈیمتریوس خاندان کے کئی حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں ایک انتالکیداس ہے جس کا ذکر ہمیں بیس نگر کے کتبہ میں ملتا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے سفیر جو سنگ حکمران بھگا بھدرا کے دربار میں بھیجا گیا تھا وہاں اس نے ایک ستون پر بنوایا تھا۔ اس کتبے سے ظاہر ہے کہ یاونا (یونانی) حکمرانوں نے برصغیر کی ریاستوں سے سیاسی رشتہ جوڑ لئے، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بعد میں مقامی مذاہب بھی ختیار کرلئے تھے۔ کیوں کہ سفیر مذکورہ کا نام بہگوت کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس یونانی خاندان جس نے برصغیر کے سرحدی علاقوں پر حکومت کی ان میں ہرمیوسس Hermioses آخری تھا۔
یوتھی دیمس کے خاندان میں اپالو دوٹس Apalodotes اور منیانڈر Menander کے نام ادب میں اب تک موجود ہیں۔ غالباََ اپالو دوٹس کے عہد میں اس خاندان کا اقتدار مشرقی افغانستان سے ختم ہوا۔ منیانڈر کا نام نسبتاََ زیادہ مشہور ہے، کیوں کہ بدھ مت کی کتاب ’ملندا ہنہا‘ (ملندا کے سوالات) میں ملندا درحقیقت منیانڈرا کا نام ہے۔ یہ کتاب بزرگ سین اور منیانڈر Menander کے سوالات اور جوابات کی شکل میں ہے، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ منیانڈر نے بدھ مذہب قبول کرلیا۔ منیانڈر کا دور طویل اور خوش حال تھا۔ جس حکمران نے مگدھ پر حملہ کیا وہ غالباََ منیانڈر ہی تھا۔
''' ذوال'''
اس کے جانشین ناہل ثابت ہوئے پھر بھی ان ہندی یونانی بادشاہوں کی حکومت دو سو سال تک ہندوستان کے شمالی حصہ جس میں غالباً وادی کابل و سوات اور پشاور اور شمال مغرب کے قرب و جوار کے چند اضلاع اور مشرقی پنجاب شامل تھا ان کے زیر حکومت رہے خواہ وہ پارتھیوں کے زیر طاقت رہے اور ساکاؤں نے پہلی صدی میں ان کی حکومت ختم کردی۔
'''یونانی اثر'''
یونانیوں نے ہندوستان کی تہذیب پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ پنجاب پر یونانیوں کا دوسو سال تک قبضہ رہا۔ یہی وجہ ہے یہاں ان ہی علاقوں میں ہم کو یونانی اثر زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن تعجب تو یہ ہے یہاں بھی یونانی آثار بہت ہی کم اور نامعلوم ہیں۔ سکوں کے سوا جن کے ایک طرف یونانی زبان میں عبارت ہوتی تھی اور صریحاً یونانی نمونے پر تیار ہوتے تھے اور کوئی چیز نہیں پائی جس سے کہ بیرونی سالہائے دراز کی حکمرانی کے اثر کا پتہ لگتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکوں سے یہ امر بالکل صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک حد تک ان اجنبی بادشاہوں کے درباروں میں یونانی زبان مستعمل تھی۔ مگر بعد کے سکوں پر دیسی زبان لکھے جانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام و الناس اس سے بالکل نابلد تھے۔ یونانی زبان کا کوئی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور ہندی کتبات میں اب تک صرف تین یونانی نام پائے گئے۔
'''یونانی حکمران'''
ڈیوڈیٹسDeudetes تقریباً 250 ق م میں تخت نشینی
ڈیوڈوٹس دوم Deudetes 2ed تقریباً 245 ق م میں تخت نشینی
یوتھی ڈیمس Ueothidemesتقریباً 230 ق م میں تخت نشینی
ڈیمتریوس Demetrues تقریباً 190 ق م میں تخت نشینی
یوکراٹائی یز Eucratsevess تقریباً 175 ق م میں تخت نشینی
ہیلو کلیز Heloclies تقریباً 156 ق م میں تخت نشینی
پلٹیو Plato تقریباً 130 ق م میں تقریباً میں تخت نشینی اور باختریہ کا آخری حکمران
ہرمیوسس Hermioses تقریباً 10ء؁ میں تخت نشینی اور کوشانیوں سے شکست تقریباً ۰۲ء؁ کابل کا آخری بادشاہ
پلٹیو Plato تقریباً 165 ق م میں تقریباً یوکراٹائی یز کا ہم عصر اور غالباً سیستان کا بادشاہ تھا
تقریباً138 تا 120 میں تقریباً باختروی خاندان کا خاتمہ اور پنجاب میں میں مختلف یونانی شہزادوں کی آمد
منیانڈر Menander یوکراٹائی یز کے بعد تھا تقریباً ۵۵ا ق م میں ہندستان میں حملہ آور ہوا مگر کارڈنر کا خیال ہے کہ وہ 110 ق م میں گزرا ہے
امنٹس نیکیٹر ہومیوس سے ذرا پہلے تھا
نیکئس سوٹر یوکراٹائی یز کے گزرا ہے غالباً مغربی پنجاب میں کیوں کے اس کے سکے صرف جہلم میں دستیاب ہوئے
پنٹون۔ یوتھی ڈیمس اول یا ڈیمریوس کا ہم عصر تھا اور غالباً اگھتوکلیز کا پیشرو تھا تقریباً 190 ق م
اگتھو کلیز ڈکؤس غالباً پنٹون کا جانشین
آرٹی میڈاس انی کیٹاس منیانڈر کے بعد ہوا ہے
ڈیومڈس سوٹر اس کا تعق بظاہر یوکرانائی یز سے تھا
اپالو دوٹس Apalodotes تقریبا 156 ق م غالباً یوکرنائی یز کا بیٹا اور مشرقی پنجاب میں غالباً سٹریٹو اول کا ہم عصر تھا۔
زہئلوس سوٹر بظاہر اپالوڈوٹس کے بعد اور ڈیونی سئاس کا تقریباً ہم عصر
ہپاسٹرنیاس سوٹر میکس غالباً اپالو ڈوٹس کا جانشین
پیو لے کلؤس ڈیکؤس سوٹر ہپاسٹرنیاس کا ہم عصر تھا
ڈیونی سئاس سوٹر اپالوڈوٹس کے بعد تھا
اپالو فینس سوٹر مشرقی پنجاب میں غالباً سٹریٹو دوم کا ہم عصر تھا۔
سڑیٹوسوٹڑ اول مئیاس 120 ق م میں تقریباً تخت نشین سڑٹیو دوم (مغربی پنجاب میں) ہیلو کلیز کا ہم عصر تھا
سڑیٹو دوم سٹریٹو اول کا پوتا
دونوینس ۵۱۱ ق م میں تقریباً (تخت نشین) مختلف یونانی شہزادے
ٹیکسلہ اور متھرا کے سٹرپ تقریباً 50ء؁ میں تخت نشینی
انٹی الکیڈس نیکیفورس170 ق م میں تقریباً بظاہر ٹیکسلا کا حکمران
انٹی میکس اول تھیوس اول غالباً کابل میں ڈیوڈوٹس کا جانشین تھا
انٹی میکس دوم یوکراٹائی یز کے بعد یا اس کا ہم عصر تھا
فلاالسنیاس انٹی کٹیاس غالباً انٹی میکس کا جانشین
آرلیبا سوٹر غالباً اس کا تعلق ہیلیو کلیز خاندان سے تھا
پولکسناس ابپی فیز سوٹر؟
ٹیلی فوس یوار گٹیز؟
تھیوفلس ڈیلوس؟
یونانی باشاہوں کی یہ لسٹ ویسنٹ اے اسمتھ کی کتاب قدیم ہندوستان کی مدد سے بنائی گئی ہے۔
ترتیب معین انصاری
ماخذ
سطر 220 ⟵ 203:
پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول
وسینٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند
انٹی میکس نیکفورس اول غالباً کابل میں ڈیوڈوٹس کا جانشین تھا
 
{{نامکمل}}
 
[[زمرہ:پاکستان کی قدیم اقوام]]
[[زمرہ:بھارت کے نسلی گروہ]]