"ورقہ بن نوفل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
ورقہ بن نوفل ، [[حضرت خدیجہ]] رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے، روایات میں اُن کا پورا نام ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی آیا ہے۔ جوانی میں [[نصرانی]] مذہب اختیار کر لیا تھا۔ نبی کریم {{درود}} پر جب پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور وہ گھبرائے تو اُن کی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہ]] رضی اللہ عنہا آپ {{درود}} کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جنہوں نے [[بائبل]] میں پڑھی ہوئی پیشن گوئیوں کی مدد سے صاف پہچان لیا کہ آپ {{درود}} ہی نبی آخر الزمان {{درود}} ہیں۔
ورقہ بن نوفل کا ذکر احادیث کی ان روایات میں ہے:
#صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 3 حدیث [[مرفوع]] مکررات 24 متفق علیہ 22 بدون مکرر: یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، [[عروہ بن زبیر]] ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چنانچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس حرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ()قُمْ فَأَنذِرْ()وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ()وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی، عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔
#صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 481 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22 بدون مکرر: عبداللہ بن یوسف لیث عقیل ابن شہاب ابوسلمہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس کے بعد وحی منقطع ہوگئی پس (ایک دن) میں جا رہا تھا کہ میں نے ایک آسمانی آواز سنی تو میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں اس سے ڈر گیا حتیٰ کہ زمین پر گرنے لگا پھر میں گھر والوں کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اے چادر اوڑھنے والے اٹھیے اور (کافروں کو عذاب سے) ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک کیجئے اور بتوں کو چھوڑیئے ابوسلمہ نے کہا کہ رجز کے معنی ہیں بت۔
#صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 628 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22 بدون مکرر: عبداللہ بن یوسف لیث عقیل ابن شہاب عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھڑکتے دل سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس واپس آئے وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور ورقہ نصرانی ہو گئے تھے انجیل کو عربی میں پڑھا کرتے تھے تو ورقہ نے پوچھا آپ نے کیا دیکھا؟ آنحضرت نے انہیں سب بتا دیا تو ورقہ نے کہا یہ وہی ناموس (یعنی فرشتہ) ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل فرمایا تھا اور اگر مجھے تمہارا زمانہ ملے گا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا الناموس یعنی وہ راز دار جسے آدمی اپنے ایسے راز بتا دے جنہیں وہ ہر ایک پر ظاہر نہیں کرتا۔