"افراط زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 26:
متفق ہونا پڑا کہ مرکزی بینک کی شرح کٹوتی سود کو تنظیم زر کا متروک یا غیر مستعمل آلہ سمجھنا چاہیے۔
کینز Keynes کے پیش کردہ نظریہ ترجیح سیال کا گرم با زاری کا پہلو برطانیہ میں 47۔ 1945 میں پایا ثبوت کو پہنچا۔ 1945 میں انگلینڈ کے مرکزی بینک کی مروجہ شرح 3 فیصد تھی، اس کو گھٹا کر ڈھائی فیصد کردیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا اور دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا، اس لئے ہر چیز کی کمی تھی اور سرمایا کاری کا زرین موقع تھا، کینز Keynes کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’اختتامی کارکردگی اصل‘ Marginal Efficiency of Capital بڑھ گئی تھی۔ سرمایا کار اپنا سرمایا لگانے کو تیار بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اختتامی کارکردگی میں اضافہ کے باعث زیادہ شرح سودپر سرمایادار قرض لینے پر بھی مائل تھے۔ ان کے پاس سرکاری کفالتیں بھی تھیں، اگر انگلینڈ کا مرکزی بینک شرح کٹوتی میں اضافہ کردیتا تو سرمایاکار نقصان کے خوف سے کفالتیں نہیں بھناتے اور نہ تجارتی بینکوں کے پاس قرض کی خاطر جاتے۔ لیکن بینک آف انگلینڈ نے شرح سود گھٹا کر ڈھائی فیصد کردی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن اشخاص کے پاس سرکاری کفالتیں تھیں، انہوں نے یا تو وہ فروخت کردیں یا تو ان کو بھنالیا۔ کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کفالتوں کے پیسے سے کوئی کارو بار کریں، کیوں کہ گرم بازاری کا دور تھا اور اختتامی کارکردگی بڑھی ہوئی تھی۔ اس طرح بینک آف انگلینڈ کو ایک سال سے کچھ زیادہ مدت میں 90 کروڑ پونڈ اسٹرلنگ بازار زر میں لانے پڑے۔ لیکن بازارکے جذبات نہیں سرد ہوئے اور آخر کار بینک آف انگلنیڈ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بینک آف انگلینڈ کی شرح سود پھر ۳ فیصد بلکہ اس سے زیادہ ہوگئی۔ یہ ایک طرف بینک آف انگلینڈ کی حکمت عملی کی ناکامی تھی، دوسری طرف کینز Keynes کے نظریہ ترجیح سیال کی کامیابی کا ثبوت تھا۔
 
آر ایس سیرز R S sayers اپنی کتاب جدید بینکاری Modern Banking میں لکھتا ہے کہ 47۔ 1945 میں یہ بات نہیں تھی کہ حکام شرح سود گھٹانے میں عجلت کررہے تھے۔ جو کے ان حالات میں گھٹنے والی تھی اور یہ احساس کہ سرکاری پالیسی معاشیات کے وقتی تقاضوں کے منافی تھی، افراط زر کے ظہور کا باعث ہوا، جس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا اس کوشش میں سارا مالیاتی نظام Monetary System بدنام ہوکررہ گیا۔