"سورہ الاعلیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: {{خانۂ معلومات سورت |سورت_کا_نام=الاعلیٰ |عربی_نام= |گذشتہ=الطارق |آئندہ=الغاشیہ |تصویر_سورت= |دور_...
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 18:
|سجود_کی_تعداد=
}}
==نام==
پہلی ہی آیت ''سبح اسم ربک الاعلٰی'' کے لفظ ''الاعلٰی'' کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
==زمانۂ نزول==
اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، اور آیت نمبر 6 کے یہ الفاظ بھی کہ {{اقتباس|ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے}} یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ {{درود}} کو ابھی وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئي تھی اور نزول وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اس آیت کے ساتھ اگر سورۂ طٰہٰ کی آیت 114 اور سورۂ قیامہ کی آیات 16 – 19 کو ملا کر دیکھا جائے، اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیاں اور موقع و محل پر بھی غور کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورت میں حضور {{درود}} کو اطمینان دلایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دہرانے لگے۔ اس وقت فرمایا گیا "اے نبی، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کو غور سے سنتے رہے، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔" آحری مرتبہ سورۂ طٰہ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ 113 آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نہ نکل جائے اور آپ ان کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا "اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے" اس کے بعد پھر کبھی اس کی نوبت نہیں ہوئی کہ حضور {{درود}} کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ ان تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اس معاملے کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔
==موضوع اور مضمون==
اس چھوٹی سی سورت کے تین موضوع ہیں۔ توحید، نبی {{درود}} کو ہدایت اور آخرت۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اس کو کسی ایسے نام سے یاد نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں ان سب کی جڑ اللہ تعالٰی کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اس ذات پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف ان اسماء حسنٰی ہی سے یاد کیا جائے جو اس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔