"ابو طالب بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 31:
ایمان ابوطالب پر یقین نہ کرنے والے درج ذیل عمومی دلیلیں دیتے ہیں۔
قرآن پاک کی آیت کریمہ
{{ع|1=إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}}(القصص:56)
اے نبیﷺآپ ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ہاں خدا ہدایت دیتا ہے جسے چاہے وہ خوب جانتا ہے جو راہ پانے والے ہیں۔
مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیہ کریمہ ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی
معالم التنزیل ،جلالین،مدارک التنزیل،کشاف ،زمحشری ،تفسیر کبیر سب نے ابو طالب کے متعلق لکھا
امام نووی شرح صحیح مسلم شریف کتاب الایمان میں فرماتے ہیں : {{ع|1=فَقَدْ أَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي أَبِي طَالِب}}۔مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی ۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں ہے : {{ع|1=لِقَوْلِهِ تَعَالَى فِي حَقِّهِ بِاتِّفَاقِ الْمُفَسِّرِينَ: {إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ}} اللہ تعالی کے اس ارشاد کی وجہ سے جو باتفاق مفسرین اس (ابو طالب) کے بارے میں ہے : اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ۔
 
* رسول اللہ {{درود}} کا نکاح بے شک آپ ہی نے پڑھایا۔ تا ہم یہ خطبہ نکاح آج کل کے خطبہ نکاح کی طرح نہ تھا اس میں نہ تو لاالہ الا اللہ کا اقرار ہوتا تھا اور نہ ہی اس میں رسول اللہ {{درود}} کی رسالت کا اقرار ہوتا تھا لہزا اس نکاح پڑھانا آپ کے ایمان لانے کی دلیل نہیں بن سکتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت تک رسول اللہ {{درود}} نے دعوت {{زیر}} اسلام نہیں دی تھی۔ اس لئے اس وقت تک کوئی کافر نہیں کہلایا جاسکتا تھا۔ دعوت {{زیر}} اسلام کے بعد ہی اسلام اور کفر کا فرق واضح ہوا جس نے کلم کا اقرار کیا صرف وہ ہی مسلمان کہلائے جانے کا حقدار ہوا۔