"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 10:
علامہ زبیدی رح فرماتے ہیں:
 
"{{ع|1=الإجتهاد بذل الوسع في طلب الأمر والمراد به رد القضية من طريق القياس الى الكتاب و السنة"}}
ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو [[قیاس]] کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا. [<ref>تاج العروس : 2/330]</ref>
 
ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو [[قیاس]] کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا. [تاج العروس : 2/330]
 
{{ع|1=بذل الطائفة من الفقيه في تحصيل حكم شرعي ظني}}
 
کسی [[فقیہ]] کا کسی حکم_شرعی_ظنی کو حاصل ([[استنباط]]) کرنے کے لئے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا. [<ref>المسلم الثبوت : 2/362]</ref>
بذل الطائفة من الفقيه في تحصيل حكم شرعي ظني
 
کسی [[فقیہ]] کا کسی حکم_شرعی_ظنی کو حاصل ([[استنباط]]) کرنے کے لئے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا. [المسلم الثبوت : 2/362]
 
== اجتہاد کا شرعی حکم ==
 
جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰتعالیٰ ہے:
 
{{ع|1=يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ '''فَرُدّوهُ''' إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {}}<ref>4:59}</ref>
 
 
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے '''"لوٹاؤ"''' اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.(سورہ-النساء:٥٩)
 
 
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے '''"لوٹاؤ"''' اللہ (تعالٰیٰتعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.(<ref>سورہ-النساء:٥٩)59</ref>
اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف '''"لوٹانا"''' اور [[استنباط]] کرنا "اجتہاد_شرعی" یا "[[قیاس]]_مجتہد" کہتے ہیں.
 
 
 
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
 
'''<ref>[http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=3122&pid=438322 </ref>{{ع|1="عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ "]'''}}<ref>سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; </ref>
<ref>جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام]</ref>
 
[سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان;
جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام]
 
 
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی [[سنت]] کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
 
 
'''=== فقہی نکتے''': ===
 
١. قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں.
سطر 52 ⟵ 43:
٣. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو
 
٤. اجتہاد کا کرنے کا "اہل" ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے. چناچہچنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا
 
٥. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے. قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے.