"سورہ التحریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ: منتقلی 14 بین الویکی روابط، اب ویکی ڈیٹا میں d:q235785 پر موجود ہیں
م روبالہ:حذف بین الویکی موجود در ویکی ڈیٹا: ku
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{خانۂ معلومات سورت|سورت_کا_نام=التحریم|عربی_نام=|تصویر_سورت=|دور_نزول=مدنی|نام_کے_معنی=|دیگر_نام=|سورت_نمبر=66|پارہ_نمبر=28|زمانۂ_نزول=7 یا 8ھ |رکوع_کی_تعداد=2|آیات_کی_تعداد=12|الفاظ_کی_تعداد=|حروف_کی_تعداد=|حرف_مقطعات=|سجود_کی_تعداد=}}[[قرآن|قرآن مجید]] کی 66 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 12 آیات ہیں۔ اس میں [[واقعۂ تحریم]] کا ذکر ہے۔ == نام ==پہلی ہی آیت کے الفاظ ''لم تحرم'' سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے بلکہ اس نام سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں تحریم کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔== زمانۂ نزول ==اس میں تحریم کے جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دو خواتین کا ذکر آیا ہے جو اس وقت حضور {{درود}} کے حرم میں تھیں۔ ایک حضرت [[صفیہ بنت حی بن اخطب|صفیہ]] {{رض مو}} دوسری [[ماریہ قبطیہ]] {{رض مو}}۔ ان میں سے ایک، یعنی حضرت صفیہ [[فتح خیبر]] کے بعد حضور {{درود}} کے نکاح میں آئیں اور خیبر کی فتح بالاتفاق 7ھ میں ہوئی ہے۔ دوسری خاتون حضرت ماریہ کو 7ھ میں [[مصر]] کے فرمانروا [[مقوقس]] نے حضور {{درود}} کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور ان کے بطن سے [[ذی الحجہ]] 8ھ میں حضور {{درود}} کے فرزند حضرت [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] {{رض مذ}} پیدا ہوئے تھے۔ ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سورت کا نزول 7ھ یا 8ھ کے دوران میں کسی وقت ہوا ہے۔== موضوع اور مباحث ==یہ ایک بڑی اہم سورت ہے جس میں رسول اللہ {{درود}} کی [[امہات المؤمنین|ازواج مطہرات]] کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمات مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک یہ کہ [[حلال]] و [[حرام]] اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر [[اللہ|اللہ تعالٰی]] کے ہاتھ میں ہیں، اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ کے نبی {{درود}} کی طرف بھی ان کا کوئی حصہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ نبی بحیثیت نبی اگر کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے سکتا ہے تو وہ صرف اس صورت میں جبکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجید میں نازل ہوا ہو، یا وحی خفی کے طور پر کیا گیا ہو۔ لیکن بطورِ خود اللہ کی مباح کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر لینے کا مجاز نبی بھی نہیں ہے کجا کہ کوئی اور شخص ہو سکے۔ دوسرے یہ کہ انسانی معاشرے میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی بات بھی، جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پیش آئے چنداں اہمیت نہیں رکھتی، نبی کی زندگی میں اگر پیش آ جائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر ایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کا کوئی ادنٰی اقدام بھی منشاء الٰہی سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل بھی اگر نبی سے صادر ہوا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کر دی گئی ہے تاکہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب، بلکہ نبی کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں اور ان میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز ایسی شامل نہ ہونے پائے جو منشاء الٰہی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔تیسری بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی {{درود}} کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا، تو یہ چیز قطعی طور پر ہمارے دل میں یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حضور {{درود}} کی حیات طیبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات بھی ہمیں اب ملتے ہیں، اور جن پر اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، وہ سراسر برحق ہیں، اللہ کی مرضی سے پوری مطابقت رکھتے ہیں اور ہم پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔چوتھی بات جو اس کلام میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس رسول مقدس کی عزت و حرمت کو اللہ تعالٰی خود اپنے بندوں کے حق میں لازمۂ ایمان قرار دیتا ہے اسی کے متعلق اس سورت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے ایک مرتبہ اللہ کی حلال کی ہوئی ایک چیز اپنے اوپر حرام کر لی۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالٰی خود تمام اہل ایمان کی ماں قرار دیتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے انہی کو اس نے بعض غلطیوں پر اس سورت میں شدت سے تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر نبی پر یہ گرفت اور ازواج مطہرات کو یہ تنبیہ بھی خفیہ طور پر نہیں کی گئی بلکہ اس کتاب میں درج کر دی گئی جسے تمام امت کو ہمیشہ ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ میں اس کا ذکر کا منشا یہ نہ تھا، نہ یہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی اپنے رسول اور امہات المومنین کو اہل ایمان کی نگاہوں سے گرا دینا چاہتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورت پڑھ کر کسی مسلمان کے دل سے ان کا احترام اٹھ نہیں گیا ہے۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی اہل ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبی، نبی ہے، خدا نہیں ہے کہ اس سے کوئی لغزش نہ ہو۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضی الٰہی کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کی ادنٰی سی لغزش کو بھی اللہ نے اصلاح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے جس سے ہمیں یہ اطمینان نصیب ہو جاتا ہے کہ نبی کا چھوڑا ہوا اسوۂ حسنہ اللہ کی مرضی کی پوری نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی طرح [[صحابۂ کرام]] یا [[ازواجِ مطہرات]]، یہ سب انسان تھے، [[ایمان بالملائکہ|فرشتے]] یا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ حاصل ہوا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کی رہنمائی اور اللہ کے رسول کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کا جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرا تھیں۔ اسی وجہ سے نبی {{درود}} کے عہد مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اس پر ٹوکا گیا۔ ان کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضور {{درود}} نے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالٰی نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصور نہ قائم کر لیں جو انہیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کیا جائے تو اس کی پے در پے مثالیں سامنے آئیں گی۔ [[آل عمران|سورۂ آل عمران]] میں [[غزوہ احد|جنگ احد]] کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:{{اقتباس|اللہ نے (تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کر دیا جبکہ اس کے اذر سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار، تب اللہ نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے}} <ref>[[آل عمران|سورہ آل عمران]] آیت 152</ref> [[النور|سورۂ نور]] میں [[عائشہ بنت ابی بکر|حضرت عائشہ]] پر تہمت ([[واقعۂ افک]]) کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ سے فرمایا گیا: {{اقتباس|ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم لوگوں سے اسے سنا تھا اسی وقت مومن مرد اور عورتیں، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتان ہے؟ ۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ ذرا غور کرو، جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس قصے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو}} <ref>[[النور|سورۂ نور]] آیت 12 تا 17</ref>[[الاحزاب|سورۂ احزاب]] میں ازواج مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:{{اقتباس|اے نبی اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے}} <ref>[[الاحزاب|سورۂ احزاب]] آیت 28 تا 29</ref>[[الجمعہ|سورۂ جمعہ]] میں صحابہ کے متعلق فرمایا: {{اقتباس|جب انہوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو (خطبے میں) کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے}} <ref>[[الجمعہ|سورۂ جمعہ]] آیت 11</ref>[[الممتحنہ|سورۂ ممتحنہ]] میں ایک بدری صحابی حضرت [[حاطب بن ابی بلتعہ]] کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انہوں نے [[فتح مکہ]] سے پہلے حضور {{درود}} کے حملے کی خفیہ اطلاع کفار [[قریش]] کو بھیج دی تھی۔یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں، اسی قرآن میں جس میں اللہ تعالٰی نے صحابہ اور ازواج مطہرات کے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور انہیں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا پروانۂ خوشنودی عطا فرمایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی کے اُس "ھاویہ" میں گرنے سے بچایا جس میں [[یہودی|یہود]] و [[نصاریٰ]] گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ [[حدیث]]، [[تفسیر قرآن|تفسیر]] اور [[تاریخ اسلام|تاریخ]] کے موضوعات پر جن اکابر اہل سنت نے کتابیں مرتب کی ہیں ان میں جہاں صحابۂ کرام اور ازواج مطہرات اور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور ان سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔ پانچویں بات جو اس سورت میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملے میں خاص طور پر ازواجِ مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت [[نوح علیہ السلام]] اور حضرت [[لوط علیہ السلام]] کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امت مسلمہ میں وہی ہوتا جو نبی {{درود}} کی ازواج مطہرات کا ہے لیکن چونکہ انہوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ [[جہنم]] کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال [[فرعون]] کی بیوی ([[آسیہ]]) کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن خدا کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انہوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کر لیا، اسلیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالٰی نے انہیں [[جنت]] کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال [[حضرت مریم]] علیہا السلام کی ہے جنہیں یہ مرتبۂ عظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سر تسلیم خم کیا۔ حضرت مریم کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے کی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کر دیا گیا ہو اور اسے بتا دیا گیا ہو کہ اس کا رب اس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب حضرت مریم نے اس پر کوئی واویلا نہ کیا بلکہ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کر لیا جو اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا، تب اللہ نے ان کو "سیدۃ النسآء فی الجنۃ" <ref>مسند احمد</ref> کے مرتبۂ عالی پر سرفراز فرمایا۔ان امور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اس سورت سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نبی {{درود}} کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن میں درج ہوا ہے بلکہ آپ کے وحی کے ذریعے سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اس سورت کی آیت 3 ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نبی {{درود}} نے اپنی ازواج مطہرات میں سے ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور انہوں نے وہ کسی اور کو بتا دی۔ اس پر اللہ تعالٰی نے نبی {{درود}} کو مطلع کیا۔ پھر جب حضور {{درود}} نے اس غلطی پر اپنی اُن بیوی کو تنبیہ فرمائی اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کو میری یہ غلطی کس نے بتائی تو حضور {{درود}} نے جواب دیا کہ مجھے علیم و خبیر ہستی نے اس کی خبر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پورے قرآن میں کہاں وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہو کہ "اے نبی، تم نے اپنی بیوی سے راز میں جو بات کہی تھی وہ اس نے کسی اور پر، یا فلاں شخص پر ظاہر کر دی ہے"؟ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی {{درود}} پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرین حدیث کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتا ہے نبی {{درود}} پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔ ==حوالہ جات==<references/>{{سورت|66|[[الطلاق]]|[[الملک]]}}[[زمرہ:سورۃ|تحریم]]
{{خانۂ معلومات سورت
|سورت_کا_نام=التحریم
|عربی_نام=
|تصویر_سورت=
|دور_نزول=مدنی
|نام_کے_معنی=
|دیگر_نام=
|سورت_نمبر=66
|پارہ_نمبر=28
|زمانۂ_نزول=7 یا 8ھ
|رکوع_کی_تعداد=2
|آیات_کی_تعداد=12
|الفاظ_کی_تعداد=
|حروف_کی_تعداد=
|حرف_مقطعات=
|سجود_کی_تعداد=
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 66 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 12 آیات ہیں۔ اس میں [[واقعۂ تحریم]] کا ذکر ہے۔
 
== نام ==
 
پہلی ہی آیت کے الفاظ ''لم تحرم'' سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے بلکہ اس نام سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں تحریم کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔
 
== زمانۂ نزول ==
 
اس میں تحریم کے جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق احادیث کی روایات میں دو خواتین کا ذکر آیا ہے جو اس وقت حضور {{درود}} کے حرم میں تھیں۔ ایک حضرت [[صفیہ بنت حی بن اخطب|صفیہ]] {{رض مو}} دوسری [[ماریہ قبطیہ]] {{رض مو}}۔ ان میں سے ایک، یعنی حضرت صفیہ [[فتح خیبر]] کے بعد حضور {{درود}} کے نکاح میں آئیں اور خیبر کی فتح بالاتفاق 7ھ میں ہوئی ہے۔ دوسری خاتون حضرت ماریہ کو 7ھ میں [[مصر]] کے فرمانروا [[مقوقس]] نے حضور {{درود}} کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور ان کے بطن سے [[ذی الحجہ]] 8ھ میں حضور {{درود}} کے فرزند حضرت [[ابراہیم بن محمد|ابراہیم]] {{رض مذ}} پیدا ہوئے تھے۔ ان تاریخی واقعات سے یہ بات قریب قریب متعین ہو جاتی ہے کہ اس سورت کا نزول 7ھ یا 8ھ کے دوران میں کسی وقت ہوا ہے۔
 
== موضوع اور مباحث ==
 
یہ ایک بڑی اہم سورت ہے جس میں رسول اللہ {{درود}} کی [[امہات المؤمنین|ازواج مطہرات]] کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمات مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
 
ایک یہ کہ [[حلال]] و [[حرام]] اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختیارات قطعی طور پر [[اللہ|اللہ تعالٰی]] کے ہاتھ میں ہیں، اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ کے نبی {{درود}} کی طرف بھی ان کا کوئی حصہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ نبی بحیثیت نبی اگر کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے سکتا ہے تو وہ صرف اس صورت میں جبکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجید میں نازل ہوا ہو، یا وحی خفی کے طور پر کیا گیا ہو۔ لیکن بطورِ خود اللہ کی مباح کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر لینے کا مجاز نبی بھی نہیں ہے کجا کہ کوئی اور شخص ہو سکے۔
 
دوسرے یہ کہ انسانی معاشرے میں نبی کا مقام انتہائی نازک مقام ہے۔ ایک معمولی بات بھی، جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پیش آئے چنداں اہمیت نہیں رکھتی، نبی کی زندگی میں اگر پیش آ جائے تو وہ قانون کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر ایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کا کوئی ادنٰی اقدام بھی منشاء الٰہی سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ایسا کوئی فعل بھی اگر نبی سے صادر ہوا ہے تو اس کی فوراً اصلاح کر دی گئی ہے تاکہ اسلامی قانون اور اس کے اصول اپنی بالکل صحیح صورت میں نہ صرف خدا کی کتاب، بلکہ نبی کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں بھی خدا کے بندوں تک پہنچ جائیں اور ان میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز ایسی شامل نہ ہونے پائے جو منشاء الٰہی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
 
تیسری بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جب نبی {{درود}} کو ٹوک دیا گیا اور نہ صرف اس کی اصلاح کی گئی بلکہ اسے ریکارڈ پر بھی لے آیا گیا، تو یہ چیز قطعی طور پر ہمارے دل میں یہ اطمینان پیدا کر دیتی ہے کہ حضور {{درود}} کی حیات طیبہ میں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدایات بھی ہمیں اب ملتے ہیں، اور جن پر اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی گرفت یا اصلاح ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، وہ سراسر برحق ہیں، اللہ کی مرضی سے پوری مطابقت رکھتے ہیں اور ہم پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
 
چوتھی بات جو اس کلام میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس رسول مقدس کی عزت و حرمت کو اللہ تعالٰی خود اپنے بندوں کے حق میں لازمۂ ایمان قرار دیتا ہے اسی کے متعلق اس سورت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس نے اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے ایک مرتبہ اللہ کی حلال کی ہوئی ایک چیز اپنے اوپر حرام کر لی۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالٰی خود تمام اہل ایمان کی ماں قرار دیتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے انہی کو اس نے بعض غلطیوں پر اس سورت میں شدت سے تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر نبی پر یہ گرفت اور ازواج مطہرات کو یہ تنبیہ بھی خفیہ طور پر نہیں کی گئی بلکہ اس کتاب میں درج کر دی گئی جسے تمام امت کو ہمیشہ ہمیشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ میں اس کا ذکر کا منشا یہ نہ تھا، نہ یہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی اپنے رسول اور امہات المومنین کو اہل ایمان کی نگاہوں سے گرا دینا چاہتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی یہ سورت پڑھ کر کسی مسلمان کے دل سے ان کا احترام اٹھ نہیں گیا ہے۔ اب قرآن میں یہ ذکر لانے کی مصلحت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی اہل ایمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کی صحیح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبی، نبی ہے، خدا نہیں ہے کہ اس سے کوئی لغزش نہ ہو۔ نبی کا احترام اس بنا پر نہیں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضی الٰہی کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کی ادنٰی سی لغزش کو بھی اللہ نے اصلاح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے جس سے ہمیں یہ اطمینان نصیب ہو جاتا ہے کہ نبی کا چھوڑا ہوا اسوۂ حسنہ اللہ کی مرضی کی پوری نمائندگی کر رہا ہے۔ اسی طرح [[صحابۂ کرام]] یا [[ازواجِ مطہرات]]، یہ سب انسان تھے، [[ایمان بالملائکہ|فرشتے]] یا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ حاصل ہوا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کی رہنمائی اور اللہ کے رسول کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کا جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرا تھیں۔ اسی وجہ سے نبی {{درود}} کے عہد مبارک میں صحابہ یا ازواج مطہرات سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اس پر ٹوکا گیا۔ ان کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضور {{درود}} نے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالٰی نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصور نہ قائم کر لیں جو انہیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کیا جائے تو اس کی پے در پے مثالیں سامنے آئیں گی۔ [[آل عمران|سورۂ آل عمران]] میں [[غزوہ احد|جنگ احد]] کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:
{{اقتباس|اللہ نے (تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کر دیا جبکہ اس کے اذر سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار، تب اللہ نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے}} <ref>[[آل عمران|سورہ آل عمران]] آیت 152</ref>
[[النور|سورۂ نور]] میں [[عائشہ بنت ابی بکر|حضرت عائشہ]] پر تہمت ([[واقعۂ افک]]) کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ سے فرمایا گیا:
{{اقتباس|ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم لوگوں سے اسے سنا تھا اسی وقت مومن مرد اور عورتیں، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتان ہے؟ ۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ ذرا غور کرو، جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس قصے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو}} <ref>[[النور|سورۂ نور]] آیت 12 تا 17
</ref>
[[الاحزاب|سورۂ احزاب]] میں ازواج مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
{{اقتباس|اے نبی اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے}} <ref>[[الاحزاب|سورۂ احزاب]] آیت 28 تا 29
</ref>
[[الجمعہ|سورۂ جمعہ]] میں صحابہ کے متعلق فرمایا:
{{اقتباس|جب انہوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو (خطبے میں) کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے}} <ref>[[الجمعہ|سورۂ جمعہ]] آیت 11</ref>
[[الممتحنہ|سورۂ ممتحنہ]] میں ایک بدری صحابی حضرت [[حاطب بن ابی بلتعہ]] کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انہوں نے [[فتح مکہ]] سے پہلے حضور {{درود}} کے حملے کی خفیہ اطلاع کفار [[قریش]] کو بھیج دی تھی۔
 
یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں، اسی قرآن میں جس میں اللہ تعالٰی نے صحابہ اور ازواج مطہرات کے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور انہیں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا پروانۂ خوشنودی عطا فرمایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی کے اُس "ھاویہ" میں گرنے سے بچایا جس میں [[یہودی|یہود]] و [[نصاریٰ]] گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ [[حدیث]]، [[تفسیر قرآن|تفسیر]] اور [[تاریخ اسلام|تاریخ]] کے موضوعات پر جن اکابر اہل سنت نے کتابیں مرتب کی ہیں ان میں جہاں صحابۂ کرام اور ازواج مطہرات اور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور ان سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔
 
پانچویں بات جو اس سورت میں کھول کر بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا دین بالکل بے لاگ ہے۔ اس میں ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے اور کسی بری سے بری ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس معاملے میں خاص طور پر ازواجِ مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت [[نوح علیہ السلام]] اور حضرت [[لوط علیہ السلام]] کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو ان کا مقام امت مسلمہ میں وہی ہوتا جو نبی {{درود}} کی ازواج مطہرات کا ہے لیکن چونکہ انہوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ [[جہنم]] کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال [[فرعون]] کی بیوی ([[آسیہ]]) کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن خدا کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انہوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کر لیا، اسلیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالٰی نے انہیں [[جنت]] کا مستحق بنا دیا۔ تیسری مثال [[حضرت مریم]] علیہا السلام کی ہے جنہیں یہ مرتبۂ عظیم اس لیے ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سر تسلیم خم کیا۔ حضرت مریم کے سوا دنیا میں کسی شریف اور نیک لڑکی کو کبھی ایسی سخت آزمائش میں نہیں ڈالا گیا کہ کنوار پنے کی حالت میں اللہ کے حکم سے اس کو معجزے کے طور پر حاملہ کر دیا گیا ہو اور اسے بتا دیا گیا ہو کہ اس کا رب اس سے کیا خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب حضرت مریم نے اس پر کوئی واویلا نہ کیا بلکہ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ برداشت کرنا قبول کر لیا جو اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لیے برداشت کرنا ناگزیر تھا، تب اللہ نے ان کو "سیدۃ النسآء فی الجنۃ" <ref>مسند احمد</ref> کے مرتبۂ عالی پر سرفراز فرمایا۔
 
ان امور کے علاوہ ایک اور اہم حقیقت جو اس سورت سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نبی {{درود}} کے پاس صرف وہی علم نہیں آتا تھا جو قرآن میں درج ہوا ہے بلکہ آپ کے وحی کے ذریعے سے دوسری باتوں کا علم بھی دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی صریح دلیل اس سورت کی آیت 3 ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نبی {{درود}} نے اپنی ازواج مطہرات میں سے ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور انہوں نے وہ کسی اور کو بتا دی۔ اس پر اللہ تعالٰی نے نبی {{درود}} کو مطلع کیا۔ پھر جب حضور {{درود}} نے اس غلطی پر اپنی اُن بیوی کو تنبیہ فرمائی اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کو میری یہ غلطی کس نے بتائی تو حضور {{درود}} نے جواب دیا کہ مجھے علیم و خبیر ہستی نے اس کی خبر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پورے قرآن میں کہاں وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہو کہ "اے نبی، تم نے اپنی بیوی سے راز میں جو بات کہی تھی وہ اس نے کسی اور پر، یا فلاں شخص پر ظاہر کر دی ہے"؟ اگر ایسی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی {{درود}} پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس سے منکرین حدیث کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتا ہے نبی {{درود}} پر قرآن کے سوا اور کوئی وحی نہیں آتی تھی۔
 
==حوالہ جات==
<references/>
{{سورت
|66
|[[الطلاق]]
|[[الملک]]
}}
 
[[زمرہ:سورۃ|تحریم]]
 
[[ku:Mulk]]