"اصطلاحات علم تصوف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 21:
 
=== طریقت ===
ان اعمال باطنی کے طریقوں (Procedures)کو جس سے اخلاق حمیدہ حاصل ہوتے ہیں اور اخلاق رذیلہ سے چھٹکارہ حاصل ہوتا ہے ،اس کو طریقت کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ مقصد صحت ہے طریقہ نہیں پس جس وقت جن طریقوں سے روحانی اور قلبی صحت کا زیادہ امکان ہو اس وقت ان ہی طریقوں کو طریقت کہا جائے گا۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== حقیقت ===
طریقت سے جب اعمال کی درستی ہوتی ہے تو اس سے قلب میں صفائی اور ستھرائی پیدا ہوتی ہے اس سے دل پر بعض اعمال اور اشیاء بالخصوص اعمال حسنہ و سیّہ کے حقائق و لوازمات منکشف ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا ادراک ہوتا ہے جس سے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جیسا تعلق ہونا چاہیے اس کا ادراک ہوتا ہے ان علوم و معارف تک سالک کی رسائی کو حقیقت کہتے ہیں۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
 
=== معرفت ===
بندے اور خدا کے درمیان اس تعلق کا ادراک ہی معرفت کہلاتا ہے کہ اس کے ذریعے سالک ہر وقت اپنے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی منشاء کا بہتر طریقے سے ادراک کرلیتا ہے۔ اس لئے اس صاحب انکشاف کو محقق اور عارف کہتے ہیں اور اس نعمت کو معرفت۔ عارف چونکہ اپنی عجز اور بے ثباتی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اس لئے باوجود دوسروں سے بہتر جاننے کے اپنے آپ کو ہمیشہ قاصر سمجھتا ہے۔اس کو سمجھنے کے لئے آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== نسبت ===
نسبت کے معنی تعلق کے ہیں۔یہ تعلق جانبین سے ہوتا ہے۔تصوف کی اصطلاح میں نسبت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا ایسا تعلق ہے کہ اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر اور جوابدہ پاتا ہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی صورت میں یاد کرتا ہے۔اس سے اس کو طاعات اور عبادات کی طرف طبعی رغبت یا ایسی کامل عقلی رغبت کہ وہ اس کی طبعیت ثانیہ بن جائے ہوجاتی ہے اور گناہوں سے اس کو ایسی نفرت ہو جاتی ہے جیسا کہ پیشاب پاخانے سے ہوتی ہے۔ایسے شخص کوہمہ وقت اتباع سنت کی فکر ہوتی ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو ایسا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کا معصیتوں سے حفاظت کا انتظام ہوجاتاہے اور طاعات کی توفیقات سے اس کو نوازا جاتا ہے جس پر رضائے الٰہی کا ترتب ہوتا ہے۔اس کے آثار مختلف ہوتے ہیں جن میں خود بخود روحانی تربیت کے اسباب کا بننا ،دینی کاموں کے لئے استعمال ہونا، اہل قلوب کے دلوں میں خود بخود اس کے لئے محبت کا پیدا ہونا اور اس کے پاس بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کا استحضار پیدا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== بیعت ===
بیعت تصوف کی اصطلاح میں شیخ اور مرُیدکے درمیان معاہدہ ہے کہ شیخ اس کو طریق تعلیم کرے گا اور مرُیداس پر عمل کرے گا۔اس کا مقصد اعمال ظاہری و باطنی کا اہتمام و التزام ہے جس کے لئے مرُیدشیخ کو اپنا نگران دل سے تسلیم کرلیتا ہے اور شیخ اس کو اپنا سمجھ کر اپنی تعلیم اور دعا سے اس کی مدد کا قصد کرتا ہے۔اس کو بیعت طریقت کہا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کے ہاں بتواتر رائج ہے۔ اس کی شرعی حیثیت سنت مستحبہ کی ہے لیکن اس کی برکت سے فرائض واجبات اور سنن پر عمل نصیب ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بعض خوش نصیبوں کو نسبت حاصل ہوجاتی ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی بھی دوسری چیز کچھ بھی نہیں۔نسبت کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تربیت کروانا فرض عین ہے اور بیعت اس کا ایک ذریعہ ہے لیکن سنت مستحبہ ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== شیخ ===
وہ عارف جو طالبین طریقت( جن کو سالک یا مرُیدکہا جاتا ہے ) کو تعلیم کرنے کا اہل ہو شیخ کہلاتا ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== مرُید ===
وہ طالب جو شیخ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے جو کہ فرض عین ہے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ شیخ کی ہر بات کو بلا چون و چرا مانے گا۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== سلسلہ ===
اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں۔جو کہ چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی ،ہومیوپیتھی ،آکو پنکچر اوریونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے۔ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== تلوین ===
احوال کا بدلنا تلوین کہلاتا ہے۔ چونکہ مرُیدکی جب تربیت ہوتی ہے تو اس پر عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں جس سے اس کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ناپختگی کی علامت ہوتی ہے اس لئے سالک اس سے پناہ مانگتا ہے اور تمکین کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن تمکین کے لئے تلوین لازمی ہے جیسا کہ منزل کے لئے راستے کا قطع کرنا۔چونکہ دوران تلوین مختلف احوال کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے سالک گو کہ اس میں معذور ہے اور یہ لوازم طریق میں سے ہے اس لئے ماخوذ نہیں ہوتے۔ لیکن اس حال میں وہ قابل تقلید بھی نہیں ہوتے بلکہ ابھی راہ میں ہوتے ہیں اس لئے مشائخ بھی ان کے لئے تمکین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== تمکین ===
آخر میں حسب استعداد کسی حالت محمودہ پر استمرار نصیب ہوجاتا ہے اس کو تمکین کہتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کے حقوق خوب ادا ہوتے ہیں۔اسی کو توسط اور اعتدال بھی کہتے ہیں صاحب تمکین حق شناس ہوتا ہے اور واصل ہوتا ہے اس لئے قابل تقلید اور مقتدا بننے کا اہل ہوتا ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== سیر الی اللہ ===
سالک جو ابتدا ءمیں روحانی مریض ہوتا ہے ، علاج کے لئے مرشد کامل کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اس میں اطلاع و اتباع کے ذریعے سالک کی روحانی بیماریاں آہستہ آہستہ دور ہورہی ہوتی ہیں۔یہاں تک درجہ ضرورت میں سالک کا دل ان بیمایوں سے پاک ہوجاتا ہے۔یعنی اس کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے جس کی طرف قُرآن میں اشارہ ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا یعنی بے شک جس نے نفس کو پاک کیا کامیاب رہا۔اس کے ساتھ سالک کا قلب اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہوا یعنی اس میں تواضع ،اخلاص ، تفویض، حب الٰہی و حب رسول اور انابت الی اللہ کی صفات پیدا ہوئیں اور اس میں رسوخ حاصل ہوا۔ یعنی ان صفات نے قلب میں جگہ پکڑ لی اور ان کو حاصل کرنے کی تدابیر سے آگاہی ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ اس کی سیر الی اللہ کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد سالک کو علم الیقین اور فناءِ تام حاصل ہوجاتا ہے اور شیخ اس کو اکثر اجازت وخلافت دے دیتا ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== سیر فی اللہ ===
سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ اور حقائق اعمال شرعیہ سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین سے حق الیقین تک سفر کرتا رہتا ہے اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید اور تجرید کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے۔اس میں چاہے شیخ سے مرُیدبڑھ جائے۔یہ بھی ممکن ہے۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ بعض کتابوں میں سیر فی اللہ کے بعد بھی دو سیر لکھی گئی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سیر فی اللہ کا ہی حصّہ ہیں۔ان کو الگ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔جہاں تک شیخ کی نگرانی میں سالک کے سلوک طے کرنے کا تعلق ہے وہ سیرالی اللہ ہے جس کاجاننا ضروری ہے۔سیر فی اللہ سالک اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے
میان عاشق و معشوق رمزے ست
کراماً کاتبین را ہم خبر نیست
چاہے کسی کو اپنے جمال کے مشاہدہ میں مستغرق کردے جو اصطلاح میں "مُسْتَہْلِکِیْن "کہلاتے ہیں یا ان کو مخلوق کی اصلاح پر مامور کرکے صفت بقاء سے متصف کردے جو اصطلاح میں راجعین کہلاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو بھی فیصلہ فرمادے۔ راجعین کو مرشدین بھی کہتے ہیں۔ان کے ظاہر کو عام مخلوق سے خلط ملط کرکے ان کے ذریعے احکام شرعیہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== علم الیقین ===
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے مستند طریقوں سے کسی کو پتہ چلے کہ زہر سے آدمی مرتا ہے اور آگ اشیاء کو جلاتی ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== عین الیقین ===
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی کسی چیز کو آگ سے جلتا ہوا دیکھتا ہے یا زہر سے مرتا ہوا دیکھتا ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
=== حق الیقین ===
اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے خود پر کوئی چیز گزرتی ہے جیسے آگ سے جلا یا زہر سے مرنے لگا تو اس کے لئے وہ حق الیقین ہے۔<ref name="تزکیہ">[زبدۃ التصوف،شبیر احمد کاکا خیل،صفحہ19 تا 25، خانقاہ امدادیہ راولپنڈی]</ref>
 
== حوالہ جات ==