"كاتبين وحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Obaid Raza نے صفحہ كاتبين وحي کو بجانب كاتبين وحی منتقل کیا
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{اطلاع|موضوع تعارف موجود نہیں ہے، اسے شامل کرنے کی ضرورت ہے}}
کاتبین وحی کی تعداد کے حوالے سے کتب تاریخ میں مختلف عدد پایا جاتا ہے۔ <ref>کتاب التراتیب الإداریہ مراکش</ref>میں ایسے صحابہ کرامؓکرام کی تعداد بیالیس(42) ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب <ref>کاتبانِ وحی</ref> میں اڑتالیس صحابہ کرامؓکرام کا ذکر ہے اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب <ref>کاتبانِ وحی</ref> میں چھپن(56)صحابہ کرامؓکرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے قاری ابوالحسن صاحب اعظمی نے <ref>کاتبینِ وحی</ref>میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد "کاتبین صحابہ کرامؓکرام" کی تعداد پچہتر(75) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (49) صحابہ کرامؓکرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں ان کے کاتب ہونے کی صراحت ملتی ہے۔
عہدِنبوی میں اصل مدار تو حفظِ قرآن مجید ہی پر تھا؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت قرآن کا بھی خاص اہتمام فرمایا، کتابت قرآن کا طریقہ کار حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سخت بوجھ محسوس کرتے اور آپ کے جسمِ اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے؛ پھرآپ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ھڈّی یاکسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس میں حاضرہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھواتے رہتے میں لکھتا جاتا یہاں تک کہ میں لکھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا؛ بہرحال جب میں فارغ ہوتا تو آپ فرماتے "پڑھو" میں پڑھ کر سناتا؛ اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے"۔<ref>المعجم الکبیر للطبرانی:5/142، 4889</ref>
سطر 5 ⟵ 6:
<ref>علوم القرآن:179، مصنف: مفتی تقی عثمانی</ref>
ان میں زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں:
* [[ابوبکر صدیق]]
* حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ،
* [[عمر بن خطاب]]
* حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،
* [[عثمان بن عفان]]
* حضرت علی رضی اللہ عنہ،
* [[علی بن ابی طالب]]
* حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ،
* [[ابی بن کعب]]
* حضرت [[عبداللہ بن ابی]] السرح رضی اللہ عنہ،
* حضرت [[زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ،]]
* حضرت [[خالد بن سعید]] رضی اللہ عنہ،
* حضرت ابان[[خالد بن سعید]] رضی اللہ عنہ،
* [[ابان بن سعید بن العاص]]
* حضرت [[حنظلہ بن ربیع]] رضی اللہ عنہ،
* حضرت [[معیقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ،]]
* حضرت [[عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ،]]
* حضرت [[شرحبیل بن حسنہ]] رضی اللہ عنہ،
* حضرت [[عبداللہ بن رواحہ]] رضی اللہ عنہ <ref>فتح الباری:9/27</ref>
* حضرت [[عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، ]]
* حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ،
* [[عمرو بن العاص]]
* حضرت [[ثابت بن قیس]] رضی اللہ عنہ،
* حضرت [[مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ،]]
* حضرت [[خالد بن ولید]] رضی اللہ عنہ،
* حضرت [[معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ،]]
* حضرت [[زید بن ثابت رضی اللہ عنہ]] <ref>علوم القرآن:179، مصنف: مفتی تقی عثمانی</ref>
حضورِ[[محمد]] پاک صلی اللہ علیہ وسلم{{درود}} پر جب بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے بعض کاتبین وحی کو بلواتے تھے اور ان کو نئی نازل شدہ آیتیں لکھواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ حضرت [[جبرئیل علیہ السلام]] کے امربتانے پر <ref>مسنداحمد:4/268۔رقم:17941۔کنزالعمال:2/9، 2957</ref> اس کی جگہ کی تعیین بھی فرمادیتےفرما دیتے تھے کہ اسے کس سورت میں کس آیت کے بعد رکھنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
 
"نبی[[محمد]] پاک صلی اللہ علیہ وسلم{{درود}} پر جب آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے بعض کاتبینِ وحی کو بلواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں (اس مقام پر) رکھو جس میں فلاں فلاں شیٔ کا ذکر ہے"۔<ref>سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:786</ref>
چنانچہ آپ کی ہدایت پر وہ لکھ لیا جاتا اور اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا اور لکھ کر رسول[[محمد]] اللہ صلی اللہ علیہ وسلم{{درود}} کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا <ref>مناہل العرفان:178</ref> تو اس طرح عہد نبوی ہی میں پورا قرآن کریم آپ کی نگرانی میں لکھا ہوا محفوظ تھا؛ مگرکاغذ کی کمیابی کے سبب مختلف قسم کی چیزوں میں منتشر تھا؛ اسی طرح [[صحابہ کرامکی رضوان اللہ علیہم اجمعینفہرست|صحابہ]] میں سے بھی بعض قرآن کریم کے لکھنے کا اہتمام کرتے تھے، حضرت [[عمر رضی اللہبن عنہٗخطاب]] کے اسلام لانے کا مشہور قصہ ہے جس میں آپ غصہ کی حالت میں اپنے بہن کے گھر گئے تو وہاں ان کی نظر ان پر پڑی جس میں قرآن کریم لکھا ہوا تھا <ref>السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:150</ref> اسی طرح اللہ کے نبی نے دشمن کی سرزمین میں قرآن مجید کو لے جانے سے منع فرمایا تھا <ref>صحیح بخاری، جہاد، باب کراھیۃ السفر بالمصاحف: 2990</ref> جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس اس وقت مکمل یانامکمل نسخے موجود تھے؛ ورنہ پھر اس ارشاد کا کوئی مطلب ہی نہ ہوگا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل وشواہد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اس کے لکھنے کا رواج تھا؛ لیکن ان میں کی اکثریت اپنے حافظہ ہی پر اعتماد کرتی تھی۔
 
== مزید دیکھیے ==
* [[متن قرآن]]
 
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
"نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے بعض کاتبینِ وحی کو بلواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں (اس مقام پر) رکھو جس میں فلاں فلاں شیٔ کا ذکر ہے"۔<ref>سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:786</ref>
چنانچہ آپ کی ہدایت پر وہ لکھ لیا جاتا اور اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا اور لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا <ref>مناہل العرفان:178</ref> تو اس طرح عہد نبوی ہی میں پورا قرآن کریم آپ کی نگرانی میں لکھا ہوا محفوظ تھا؛ مگرکاغذ کی کمیابی کے سبب مختلف قسم کی چیزوں میں منتشر تھا؛ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض قرآن کریم کے لکھنے کا اہتمام کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے اسلام لانے کا مشہور قصہ ہے جس میں آپ غصہ کی حالت میں اپنے بہن کے گھر گئے تو وہاں ان کی نظر ان پر پڑی جس میں قرآن کریم لکھا ہوا تھا <ref>السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:150</ref> اسی طرح اللہ کے نبی نے دشمن کی سرزمین میں قرآن مجید کو لے جانے سے منع فرمایا تھا <ref>صحیح بخاری، جہاد، باب کراھیۃ السفر بالمصاحف: 2990</ref> جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس اس وقت مکمل یانامکمل نسخے موجود تھے؛ ورنہ پھر اس ارشاد کا کوئی مطلب ہی نہ ہوگا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل وشواہد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اس کے لکھنے کا رواج تھا؛ لیکن ان میں کی اکثریت اپنے حافظہ ہی پر اعتماد کرتی تھی۔
[[زمرہ:خودکار ویکائی]]