"شاہ حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32:
}}
 
'''فقیر لاہور سخی شاہ حسین''' المعروف مادھو لال حسین ایک صوفی اور [[پنجابی زبان|پنجابی]] شاعر تھے۔ شاہ حسین کو مادھو لال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
 
 
== ابتدائی زندگی ==
شاہ حسین لاہوری 945ھ بمطابق 1539ءمیں [[ٹکسالی دروازہ|ٹکسالی دروازے]] [[لاہور]] میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلس رائے [[ہندومت|ہندو]]تھا جوکہ فیروز شاہ تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ تھے لیکن والد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔<ref>http://www.nawaiwaqt.com.pk/miscellaneous/28-Mar-2014/</ref>
شاہ حسین ایک صوفی اور شاعر تھے۔ شاہ حسین 1539ء میں [[لاہور]] میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا [[ہندومت|ہندو]] تھے لیکن والد حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور نام [[شیخ عثمان]] رکھا گیا۔ لاہور کے [[ٹکسالی دروازہ|ٹکسالی دروازے]] میں رہائش پذیر ہوئے۔
آپ کاخاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا ۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے (جولاہا)کے پیشے سے منسلک تھے۔ چنانچہ آپ محلے میں ''حسین جولاہا'' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باہر راوی کے کنارے آباد ایک محلے میں رہائش پذیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا ۔<ref>سہ ماہی تجزیات اسلام آباد۔2010/04ء</ref>
 
== زندگی ==
شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ہیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لئے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اُن کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔<ref>سہ ماہی تجزیات اسلام آباد۔2010/04ء</ref>
یہ زمانہ [[مغلیہ سلطنت]] کے مرکزی علاقوں میں احیائے دین کی تحریکوں کا زمانہ تھا جس کا رد عمل قادریہ مسلک کی صورت میں مروجہ صوفیانہ بغاوت کے علمبردار کے حیثیت سے سامنے آیا {{حوالہ درکار}}۔ اس مسلک کی تشکیل میں بھگتی اثرات کے علاوہ ملامتی مکاتیبِ فکر نے بھی حصہ لیا تھا اور اس نظام فکر کا اولین اظہار شاہ حسین کی صوفیانہ بغاوت کی صورت میں ہوا۔ ان کے گھرانے میں ہندو ثقافتی اور مذہبی اثرات بدستور موجود تھے۔ شاہ حسین پیشہ کے اعتبار سے [[بافندہ|بافندے]] تھے اور انہوں نے اپنے اس طبقاتی پس منظر کا کھلے دل کے ساتھ اظہار بھی کیا {{حوالہ درکار}}۔
=== شاہ حسین اور مادھو ===
 
اپنی زندگی کے ایک حصے میں شاہ حسین کی مادھو سے ملاقات ہوئی۔ مادھو ایک برہمن زادے تھے۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھو لال حسین کے نام سے جاننے لگے، گویا وہ دونوں یک جان ہو گئے۔ قربت کا یہ گہرا تعلق جو ان کے درمیان پیدا ہوا، ان کی زندگی ہی میں بہت سی بدگمانیوں اور اختلافات کا باعث بن گیا۔ ہندوستانی تصوف کے ماہر جان سبحان لکھتے ہیں کہ ایک ہندو لڑکے اور مسلمان فقیر کا یہ انتہائی قریبی تعلق ان کے معاصرین کے نزدیک "قابل شرم" ہونے کی وجہ سے "قابل اعتراض کردار" کا مظہرتھا۔ جبکہ جان سبحان ان دو افراد کی درمیان تعلق کی اس "ناقابل صبرکشش" کو "عشق" قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی تاریخ دان شفیع عاقل مادھو اور شاہ حسین کے اس تعلق کو "لا محدود محبت" کہتے ہیں اور اس تعلق کو بیان کرنےکے لیے زبان و بیان کے وہی پیرائے اختیار کرتے ہیں جو عام طور پر مرد اور عورت کے تعلق کو بیان کرنےکے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ "مادھو سے شاہ حسین کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاہتے تھے"۔وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ "شاہ حسین مادھو سے کسی صورت جدا ہونے کے لیے آمادہ نہ تھے۔"<ref>http://bhaur.blogspot.com/2010/08/madhu-lal-hussain.html</ref>
[[جنیوٹ]] کے قادری صوفی شیخ بہلول نے انہیں اپنے حلقے میں شامل کر لیا اور شاہ حسین کے شب وروز عبادتوں اور ریاضتوں میں بسر ہونے لگے۔ یہ سلسلہ چھتیس برس جاری رہا۔ انہی دنوں شیخ سعد اللہ نامی ایک ملامتی درویش لاہور آنکلے۔ وہ کامل ملامتی تھے {{حوالہ درکار}}۔ شاہ حسین نے ان کی صورت میں جب بغاوت کو مجسم دیکھا تو ان کے گرویدہ ہو گئے اور ان کی صحبت میں شاہ حسین مدہوش ہوتے گئے۔ [[شیخ بہلول]] حدود سے اس حد تک تجاوز کو پسند نہ کرتے تھے مگر شاگرد ”اصلاح “ کے مقامات سے گزر چکا تھا {{حوالہ درکار}}۔ وہ رقص کرتے، وجد میں رہتے ، دھمال ڈالتے اور لال رنگ کے کپڑے پہنتے {{حوالہ درکار}}۔ اسی بنا پر لال حسین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ اور اپنے حال میں مست رہے۔ انہی دنوں ایک [[برہمن]] زادے نے ان کی خود اعتمادی ، خود پر ستی اور حق شناسی کے آئینے کو ایک ہی نظر میں چور چور کر دیا۔ شاہ حسین اس کے پیچھے ہو لیے {{حوالہ درکار}}۔ کئی برس اسی تعلق میں گزار دیے {{حوالہ درکار}}۔ بالآخر حسین کا معرکہ عشق کی کامیابی پر ختم ہوا، اور [[مادھو]] نے اپنا دین ایمان '''دوست''' ? {{حوالہ درکار}} پر نچھاور کر دیا اور زندگی ان کی دلجوئی کے لئے وقف کر دی {{حوالہ درکار}}۔
 
== شاعری ==
''ادب کے میدان میں اکبر اعظم کا دور بڑے بڑے نابغوں کے لیے مشہور ہے ،چنانچہ حسین کے ہمعصر ایک طرف فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں تھے تو دوسری طرف اغلباً داستان ہیر رانجھا کے پہلے پنجابی شاعر دمودر بھی تھے۔ ہندی اور بھگتی ادب میں بھی محرم نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ذہن نشین کر لینے کی بات یہ ہے کہ شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر بھی ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔ چنانچہ مختصراً یہاں ان کی اوّلیات درج کی جاتی ہیں:
عشقِ حقیقی میں ڈوبی ہوئی یہ آواز ایک درویش صفت اور مست الست انسان کی آواز ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل خطہ [[پنجاب]] میں گونجی اور پھر دیکھتے دیکھتے پاک و ہند میں پھیل گئی {{حوالہ درکار}}۔ شاہ حسین پنجاب کے ان سرکردہ صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے برصغیر میں خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچایا {{حوالہ درکار}}۔
٭ پنجابی میں وہ کافی کی صنف کے موجد تھے۔
٭ پنجابی کے وہ پہلے شاعر تھے، جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔
٭ سب سے پہلے داستان ہیر رانجھا کو بطور عشق حقیقی کی تمثیل اپنے شعری کلام میں سمویا۔
٭ اپنے پیشے بافندگی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء و آلات کو مثلاً چرخہ، سوت، تانا، بانا وغیرہ کو صوفیانہ اور روحانی معنی پہنائے۔ ان کے بعد یہ پنجابی کا ایک جزولاینفک بن گئے۔
٭ پنجابی کو ایسے مصرعے، تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا یا ان پر طبع آزمائی کی۔ مثلاً رانجھا رانجھا کردی نی۔ میں آپے رانجھا ہوئی۔''<ref>سہ ماہی تجزیات اسلام آباد۔2010/04ء</ref>
 
== انتقال ==
پنجاب کے چند صوفی دانشوروں کی طرح حسینی فکر بھی عقل کی جگہ حس پر زیادہ توجہ دیتی تھی۔ شاہ حسین نے شاعری کو وسیلہ اظہار بنایا اور موسیقی آمیز شاعری کے ذریعے اپنے افکار و نظریہ کو خاص و عام میں فروغ دینے کی کوشش کی۔ صوفیانہ اظہار کی یہ صورت بعد ازاں پنجاب کی شاعری میں ایک صنف بن گئی۔ وہ صاحب حال صوفی تھے ان پر جو کیفیات گزرتیں، سادہ زبان میں بیان کر دیتے۔ قوتِ مشاہدہ کی بدولت ان کی شاعری کے سادہ الفاظ میں گہرے معنی پائے جانے لگے اور ان کی کافیوں میں استعمال کیے گئے عام الفاظ علامتوں کا روپ دھارنے لگے۔ شاہ حسین کی روز مرہ زندگی ملامتی زندگی میں رچی ہوئی تھی {{حوالہ درکار}}۔ ان کے مطابق طالب اور مطلوب کے درمیان رابطے کے لئے کسی تیسری ذات کی موجودگی اور اس کا فعال تعاون، بے حدی ضروری ہے {{حوالہ درکار}}۔ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ مغلیہ حاکموں کی بہت سی بیگمات اور شہزادیاں شاہ حسین کو اپنا بزرگ مانتی تھیں مگر شاہ حسین شاہی خانوادے کے اِس التفات سے بے نیاز تھے اور اپنے ڈھنگ کی زندگی بسر کرتے تھے {{حوالہ درکار}}۔
لاہور میں برس ہابرس تک درو یشانہ رقص و سرود کی محفلیں آباد کرنے کے بعد یہ درویش 1599ء میں اللہ کو پیارا ہو گئے۔ ان کی قبر اور مزار لاہور کے [[شالامار باغ|شالیمار باغ]] کے قریب [[باغبانپورہ]] میں واقع ہے، ہر سال [[میلہ چراغاں]] کے موقع پر ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ مادھو، ان کے بعد اڑتالیس سال بعد تک زندہ رہے، اور انہیں شاہ حسین کے برابر میں ایک مقبرے میں دفنایا گیا۔ یہ مزار آج تک عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کا مرجع ہے کہ یہاں جدا نہ ہو سکنے والے دو ایسے عاشقوں کی قبریں ہیں جو مرنے کے بعد بھی اسی طرح ایک ہیں جیسے زندگی میں تھے۔<ref>http://bhaur.blogspot.com/2010/08/madhu-lal-hussain.html</ref>
 
== انتقال ==
لاہور میں برس ہابرس تک درو یشانہ رقص و سرود کی محفلیں آباد کرنے کے بعد یہ درویش 1599ء میں اللہ کو پیارا ہو گئے۔ ان کی قبر اور مزار لاہور کے [[شالامار باغ|شالیمار باغ]] کے قریب [[باغبانپورہ]] میں واقع ہے، ہر سال [[میلہ چراغاں]] کے موقع پر ان کا عرس منایا جاتا ہے۔
 
==ان کے کلام کے بارے میں==