"کیبنٹ مشن پلان، 1946ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 33:
== مسلم لیگ اور کانگریس کاردعمل ==
 
ابتداء میں کیبنٹ مشن پلان پر[[انڈین نیشنل کانگریس|کانگرس]] اور [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کا ردعمل مختلف رہا۔ 6 جون 1946ء کو [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا ، کیونکہ اس میں [[ہندوستان]] کی تقسیم اور [[قیام پاکستان]] کے آثار موجود تھے۔ دوسری طرف کانگریس[[انڈین نیشنل کانگریس|کانگرس]]نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے بالآخر 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا اور دوسرے کو نامنظور کرلیا۔ جو طویل المعیاد منصوبہ تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں لانا تھا کو قبول کر لیا گیا۔ جو قلیل المعیاد منصوبہ تھا۔ جس کے تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا، کو مسترد کر دیا گیا۔
 
اس صورت حال میں انگریز سرکار کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کرتے ، کیونکہ [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]]نے کابینہ مشن پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا ، لیکن افسوس کہ انگریز سرکار ایسا نہ کر سکی انگریز کی اس بدعدہ کے نتیجے میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] نے احتجاجاً 29 جولائی 1946ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پلان کی قبولیت) واپس لی بلکہ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا ۔ اور پورے [[ہندوستان]] کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ اس موقع پر [[انڈین نیشنل کانگریس|کانگرس]] پنڈتوں نے ایک نیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے 10 اگست 1946ء کو کابینہ مشن پلان کے دونوں حصوں کو منظور کر لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 اگست 1946ء کو [[انڈین نیشنل کانگریس|کانگرس]] کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تجاویز طلب کیں۔ [[لندن]] سے منظوری حاصل کرنے کے بعد وائسرائے نے 24 اگست کو پنڈت[[ جواہر لال نہرو ]] اور ان کے ساتھیوں کی عبوری حکومت میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کے بعد [[ہندوستان]] میں ہندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ہوا جو علاقے اور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں[[ کلکتہ]] ، [[بمبئی]] ،[[ آگرہ]] ،[[ احمد آباد،آباد]]، نواں کلی ، [[بہار ]] اور [[دہلی]] کے نام قابل ذکرہ یں۔ ان حالات و واقعات میں کانگریسی لیڈروں نے انگریزوں کے ساتھ اپنی دوستی اور وفا کا بھرم رکھتے ہوئے 2 ستمبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا حلف اٹھایا
 
اس کے بعد وائسرائے ہند لارڈ ویول ، قائداعظم اورپنڈت نہرو کے درمیان بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ۔ نواب صاحب آف بھوپال نے کانگریس[[انڈین نیشنل کانگریس|کانگرس]]اور[[ آل انڈیا مسلم لیگ]] کے درمیان مستقل بنیادوں پر مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ مگر ان کی کوششیں بار آور ثآبتثابت نہ ہوئیں۔ بات چیت کے اس دور کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ[[ آل انڈیا مسلم لیگ]] نے 16 اکتوبر 1946ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ لیکن لیگ میں شمولیت سے ہندوستانی مسئلے کی نوعیت میں کوئی فرق نہ آیا۔کیونکہ قائداعظم [[محمد علی جناح]] نے مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ۔ انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پنڈت [[جواہر لال نہرو]] کابینہ کو مشن کے بعض نکات جو طویل العمیاد منصوبے سے متعلق تھے کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔ اور مجوزہ قانون ساز اسمبلی کی تعریف و توضیح اور دائرہ کار کے اختیارات سے متعلق وضاحتیں اور تشریحات اپنے مفاد اور اپنی خواہشات کے مطابق کر رہے تھے۔
 
نہرو کا استدلال یہ تھا کہ مجوزہ قانون ساز اسمبلی مکمل طور پر ایک خودمختار ادارہ ہوگا ۔ اور یہ ادارہ جو چاہے کر سکے گا۔ لیگ کے لیے ایسے ادارے میں شرکت اپنے مطالبے (مطالبہ پاکستان) سے خود بخود دستبردار ہونے کے مترادف تھا۔ بقول لیاقت علی خان:
 
’’ اگر مجوزہ قانون ساز اسمبلی کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ مان لیا جائے تو اس میں [[آل انڈیا مسلم لیگ|مسلم لیگ]] کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی ، کیونکہ اس اسمبلی میں ایک مسلم ممبر کا مقابلہ دیگر چار اراکین سے ہوگا۔‘‘
 
اگر قائداعظم مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان نہ کرتے تو کانگریس اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپنی ہی خواہشات کے مطابق ہندوستان کے لیے آئین تیارکرتی ۔ لیکن مسلم لیگ کسی بھی قیمت پر کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی اور یوں اتنی سیاسی پیش رفت کے باوجود ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود آئینی بحران اور سیاسی اختلاف بدستور قائم رہا۔
 
اگر قائداعظم مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان نہ کرتے تو کانگریس اپنی اکثریت کی بنیاد پر اپنی ہی خواہشات کے مطابق ہندوستان کے لیے آئین تیارکرتی ۔ لیکن مسلم لیگ کسی بھی قیمت پر کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی اور یوں اتنی سیاسی پیش رفت کے باوجود ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود آئینی بحران اور سیاسی اختلاف بدستور قائم رہا۔
 
== مجموعی جائزہ ==