"غزوہ موتہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: القاب)
م حذف القابات
(ٹیگ: القاب)
سطر 22:
|تذکرہ=
}}
یہ جنگ جمادی الاول 8ھ (ستمبر 629ء) میں جنوب مغربی [[اردن]] میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو [[دریائے اردن]] اور [[اردن]] کے شہر [[کرک]] کے درمیان ہے۔ اس میں حضور {{درود}} شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ (عربی میں {{ع}} '''معركة مؤتةمؤتہ''' {{ف}}) کہتے ہیں۔ اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہالمرتضی سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔ یہ بازنطینی (مشرقی رومی) افواج اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی۔ بازنطینی افواج میں نصف عرب عیسائی بھی شامل تھے جن کا تعلق اردن و بلاد شام سے تھا۔ جنگ کسی واضح نتیجہ کے بغیر ختم ہوئی اور طرفین (آج کے مسلمان اور مغربی دنیا) اسے اپنی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔
== پس منظر ==
[[صلح حدیبیہ]] کے بعد مسلمان اور قریش کے درمیان کچھ وقت کے لیے جنگ نہ ہوئی۔ یمن کے ساسانی گورنر کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قبائل بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ اس طرف سے اطمینان کے بعد حضور {{درود}} نے اسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ سفیر [[اردن]] اور [[شام]] کے عرب قبائل کی طرف روانہ کیے جنہیں ان قبائل نے سفارتی روایات کے برخلاف قتل کر دیا<ref>طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 128 </ref>۔ یہ عرب قبائل بازنطینی سلطنت (مشرقی روم کی سلطنت) کے باج گذار تھے۔ سفیروں کے قتل کے بعد ان قبائل کی سرکوبی کے لیے حضور {{درود}} نے 3000 کی ایک فوج تیار کر کے مغربی اردن کی طرف روانہ کی۔ حضور {{درود}} نے سپہ سالاروں کی ترتیب یہ رکھی کہ حضرت [[زید بن حارثہ]] {{رض مذ}} کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا، ان کی شہادت کی صورت میں حضرت عبداللہ بن جعفر ([[جعفر طیار]]) کو مقرر کیا اور ان کی شہادت کی صورت میں حضرت حضرت [[عبداللہ بن رواحہ]] کو مقرر کیا۔ اور یہ کہ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو لشکر اپنا امیر خود چن لے۔ دوسری طرف سے ھرقلہرقل کی قیادت میں ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عرب قبائل پر مشتمل فوج بھی تیار ہوئی جو مروجہ ہتھیاروں سے لیس تھی۔ جب [[مسلمان]] [[موتہ]] پہنچے اور دشمنوں کی تعداد کا پتہ چلا تو انہوں نے پہلے سوچا کہ [[مدینہ]] سے مزید کمک آنے کا انتظار کیا جائے مگر حضرت [[عبداللہ بن رواحہ]] {{رض مذ}} نے اسلامی فوج کی ہمت افزائی کی اور اسلامی فوج نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے جنگ کی۔<ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 17 </ref>
 
== جنگ ==
[[ملف:Shrine of Ja'far al-Tayyar in Mazar, Karak, Jordan 01.JPG|تصغیر|حضرت [[جعفر طیار]] کا مقبرہ اور مسجد]]
جنگ شروع ہوئی تو حضرت [[زید بن حارثہ]] {{رض مذ}} نے شجاعت کے ساتھ جنگ کی۔ رومی افواج تجربہ کار تھیں۔ انہوں نے حضرت [[زید بن حارثہ]] {{رض مذ}} کو نیزوں کی مدد سے زمین پر گرا کر شہید کر دیا تو حضرت [[جعفر طیار]] {{رض مذ}} نے علم سنبھال کر اسلامی افوج کی قیادت کی مگر جب وہ گھیرے میں آ گئے اور محسوس کر لیا کہ اب شہادت قسمت میں لکھی ہے تو اپنا گھوڑا فارغ کر دیا اور پیدل نہایت خونریز جنگ کی اور 80 زخم کھائے۔ اس دوران ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور وہ شہید ہو گئے<ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 20 </ref>۔ ان کے بعد حضرت [[عبداللہ بن رواحہ]] {{رض مذ}} نے علم سنبھالا اور رومی افواج کے مرکز میں زبردست حملہ کیا۔ شدید لڑائی میں وہ بھی شہید ہو گئے۔ <ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 21 </ref>۔ جب یہ تینوں نامزد قائد شہید ہو گئے تو اسلامی فوج نے حضرت [[خالد بن ولید]] {{رض مذ}} کو اپنا امیر چنا۔ حضرت [[خالد بن ولید]] {{رض مذ}} حال ہی میں اسلام لائے تھے اور اعلیٰ درجہ کے سپاہی اور جنگجو تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں کے جنگ جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسی اثناء میں رات ہو گئی۔ انہوں نے اپنی افواج کو پیچھے ہٹا لیا۔ انہوں نے ایک زبردست جنگی حربہ اختیار کیا۔ انہوں نے بے شمار سپاہیوں کو پہاڑ کی اوٹ میں بھیج دیا اور ان سے کہا کہ اگلی صبح نئے جھنڈوں کے ساتھ گردو غبار اڑاتے ہوئے پیچھے سے اسلامی فوج میں شامل ہو جائیں۔ اس تدبیر سے رومی سمجھے کہ مدینہ سے مسلمانوں کے لیے نئی امداد آ گئی ہے۔ رومیوں نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور جنگ رک گئی۔ اس طرح دونوں افواج واپس چلی گئیں اور مسلمانوں کو دو لاکھ کی رومی فوج سے بچا کر مدینہ واپس لایا گیا <ref>مغازی جلد 3 صفحہ 755 </ref> <ref>السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام </ref>
 
== نتائج ==
سطر 34:
 
== پیش منظر ==
مسلمان چونکہ یہ جنگ واضح طور پر نہ جیت سکے تھے اس لیے [[مکہ]] کے مشرک قریش نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا اور [[صلح حدیبیہ]] کی پروا نہ کرتے ہوئے قبیلہ بنی خزاعہ کے کچھ لوگ شہید کر دیے۔دئیے۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا کیونکہ قبیلہ بنی خزاعہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے تھے اور قریش صلح حدیبیہ کی رو سے ان سے جنگ و قتال نہیں کر سکتے تھے۔ [[ابوسفیان]] نے بھانپ لیا کہ اب ان کی خیر نہیں اور مسلمان اس بات کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اس نے مدینہ کا دورہ بھی کیا تاکہ [[صلح حدیبیہ]] کی تجدید کی جائے مگر [[محمد|حضور {{درود}}]] نے جواب نہ دیا اور [[ابوسفیان]] غصے کی حالت میں مکہ واپس چلا گیا <ref> السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 4 صفحہ 38-39 </ref>۔ قتل شدہ افراد کے قبیلہ نے مسلمانوں سے فریاد کی اور اس کے بعد حضرت [[محمد]] {{درود}} نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً رمضان 8ھ میں مکہ فتح ہو گیا۔
 
== حوالے ==