[[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان ، اس کی بیوی ھندہہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ھندہہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھا کیکیا گئی۔گیا۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتوںعورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ھندہہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور {{درود}} کے چچا حضرت حمزہ {{رض مذ}} کا کلیجہ چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حضرت حمزہ {{رض مذ}} کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر مارچ 625ء میں یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔ <ref> المغازی جلد اول صفحہ ۲۱۳۔۲۱۴213۔214 </ref> <ref> السیرۃ النبویۃ از ابن ھشامہشام</ref>۔
<br />
حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] {{درود}} کے چچا حضرت عباس نے ، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انہیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضور {{درود}} نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور {{درود}} نے اصحاب کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ھفتہہفتہ 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور {{درود}} نے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس سواروںتیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔ <ref> تاریخِ طبری جلد دوم </ref> <ref> السیرۃ النبویۃ از ابن ھشامہشام</ref>۔
== جنگ ==
جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب حضرت [[علی (ضد ابہام)|علی]] علیہ السلام نے قتل کر دیے۔ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتداء کی زبردست جنگ میں حضرت[[علی (ضد ابہام)|علی]] کرم اللہ وجہہ، حضرت حمزہ {{رض مذ}} اور حضرت ابو دجانہ {{رض مذ}}مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات اصحاب نے حضور {{درود}} کی یہ ہدائت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا۔ اسی اثناء میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت محمد {{درود}} شہید کر دیےدئیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اور راہِ فرار اختیار کی۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور تیسرے دن واپس آئے۔ <ref> تاریخ طبری جلد ۲2 صفحہ ۵۱۴514 </ref>۔ کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور افسوس کیا کہ وہ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور {{درود}} کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں کچھ لوگ حضور {{درود}} کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی۔ ان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت حمزہ {{رض مذ}} شامل تھے۔ اس موقع پر حضور {{درود}} نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو 'ذوالفقار' کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوران حضور درود کے دانت شہید ہوئے۔حضرتہوئے۔ حمزہ {{رض مذ}} بھی شہید ہو گئے۔ <ref> تاریخ طبری جلد ۲2 صفحہ ۵۱۴ 514</ref> <ref> السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام</ref>۔ اس بارے میں اللہ نے قران میں فرمایا۔
جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ <br /> سورۃ آل عمران آیت ۱۵۳153
</blockquote>
کچھ وقفے بعد اصحاب میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ ابو سفیان کی بیوی ھندہہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ھندہہندہ نے حضرت حمزہ {{رض مذ}} کا کلیجہ نکال کر چبایا جس کا حضور {{درود}} کو بے حد رنج رہا۔ کچھ مسلمانوں کے واپس آنے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور {{درود}} شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے جنگ سے مکہ کی طرف واپسی اختیار کی۔ <ref> السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد ۳ صفحہ2صفحہ ۱۲۹129</ref>