"حاتم طائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
سطر 4:
== حالات زندگی ==
 
حاتم بنابن عبداللہعبد الله بن سعد بن حشرجأخزم بن أبي أخزم طائیالطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہوگیا تھا ۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی ۔ اپنی تمام ملکیتی چیز سخاوت کردیتی تھی ۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا ۔ انہوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا ۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے ، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی ۔
 
اس سخی مالماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا اور اسے سخاوت کا دودھ پلایا ۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا ۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا ۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا ، چھوٹی سی عمر تھی ، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا ، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا ، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا ۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا ۔ چنانچہ دادا نے اس ذمہاسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا ۔ ایک دن عبید بن الا برص ، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا ۔ اس نے ہر ایک کے لئے ایک ایک اونٹ ذبح کیا ، حالانکہ وہ انہیں جانتا بھی نہیں تھا ۔ جب انہوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیئے ، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے ، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا اور دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے ۔
میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتساتھ مل جل کر سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں ۔
 
میں اپنے مال کو اپنی عزت و آبرو کے لئے ڈھال بنالیتا ہوں اور جو بچ رہتا ہے مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔
سطر 13:
مجھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کہ سعد (دادا) اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا گیا اور مجھے گھر تنہا چھوڑ دیا کہ میرے ساتھ میرے گھر والے نہیں ہیں ۔
 
حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہوگئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کئے جاتے ہیں ۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لئے بڑھا چڑھائےچڑھا دیئے گئے ہیں ۔ حاتم کی سخاوت کے قصے اسی طرح بنائے گئے ہیں ، جس طرح امیہ کے اشعار دین کے بارے میں ، عنترہ کے فخر و حماسہ میں ابو العتاہیہ کے زہد میں اور ابو نواس کے فحش و بے حیائی میں گھڑ لئے گئے ہیں ۔ پہلے وہ کسی مقصد کے لئے شعر کہتے ہیں پھر وہ جس کے مضامین اور اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے اس شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں ۔
 
ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے ، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے ، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے ، جب وہ جوا کھیلتا ہے تو وہی جیتا ہے ، جب ماہ رجب کا چاند نظر آتا (زمانہ جاہلیت میں خاندان مضر رجب کے مہینہ کو بہت باعزت اور محترم گردانے تھے) حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے ۔
سطر 27:
میری عمر کی قسم ؛ میں نے کتنے اکلوتے بیٹے کو پناہ سی پھر نہ اسے قتل کیا اور نہ قید کیا اور میں نے کبھی اپنے چچا زاد پر ظلم کیا کہ میرے بھائی موجود ہوں اور اس کے بھائیوں کو زمانے نے ختم کردیا ہو ۔
 
حاتم کی بیٹی سفانہ جب قیدیوں میں قید ہو کر آئی تو رسولرس اکرام � کے سامنے کھڑی ہو کر رہائی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگی ’میرا باپ قیدیوں کو آزاد کراتا تھا ، حقوق کی حفاظت کرتا تھا ، مہمان نواز تھا اور مصیبت زدہ کی پریشانیوں کو دور کرتا تھا ، کھانا کھلاتا تھا ، اس نے ضرورت مند کو کبھی خالی نہ لوٹایا‘ تو رسول اللہ نے فرمایا یہ صفات مومن کی ہیں ’تیرا اگر مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس پر رحمت بھیجتے‘ اور فرمایا اس کو چھوڑ دو کیوں کہ اس کا باپ مکارم اخلاق کو پسند کرتا تھا ۔
 
== شاعری ==
 
یقیناً زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے اور شاعری احساسات کا آئینہ ہوتی ہے ۔ مذکورہ تفصلتفصیل میں حاتم کے جو اخلاق و عادات کا ذکر کیا ہے وہی اس کی شاعری میں اثر انداز اور رواں دواں نظر آتے ہیں ۔ اس کے الفاظ آسان و نرم ، اس کا اسلوب پختہ و محکم اور اس کا موضع اعلیٰ اور برتر ہے ، جسجسکی مثال بدوی شعرائشعراء میں بھی نہیں ملتی ہے ۔ اس بنائبناء پر ابن اعرابی نے کہا تھا ’اس کی سخاوت اس کی شاعری کے مشابہ ہے‘ اس کے کہنے کا مطلب ہے کہ اس کی شاعری ٹھائیںٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے ، جس میں جود و سخاوت اور اس کے متعلق ملامت کرنے کے موضوعات پر امثال و حکم کا بیش بہا خزانہ جوش مارتا رہا ہے ، اس میں لافانی شہرت اور دائمی ذکر کا تذکرہ بہت خوبصورت انداز میں اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے ، وہ اس لئے کہ اس کے کلام میں بہت سا ایسا کلام داخل کردیا گیا جو غلط طور پر اس سے منسوب کردیا گیا ہے ۔ یہ دوسرے طبقہ کا شعرائ کاشاعر ہے ۔ اس کا مجموعہ کلام دیوان کی شکل لندن اور بیروت سے شائع ہوچکا ہے ۔<ref>احمد حسن زیات ۔ تاریخ ادب عربی ۔ ترجمہ ، محمد نعیم صدیقی ۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور</ref>
 
==حوالہ جات==