"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ٹیگ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 3:
[[انیسویں صدی]] سے پہلے دنیا کے مختلف ملکوں کی کرنسی کی قدروں میں تبدیلوں کی وجہ سے کسی کرنسی پر اعتماد نہیں کیا جاتا تھا۔ ملکی کرنسی صرف اندرون ملک استعمال ہوتی تھی اور بین الا قوامی لین دین کے لیے سونے پر اعتماد کیا جاتا تھا، کیوں کے دنیا نے سونے کو بین الا قوامی کرنسی تسلیم کیا جاتا تھا، اس لیے بین الا قوامی لین دین میں صرف سونے کو قبول کیا جاتا تھا۔
 
سونے کے بین الا قوامیالاقوامی لین دین میں استعمال ہونے کی وجہ سے دور جدید کے شروع میں ایک ملک کے سکے دوسرے ملک کے لئے بیکار تھے۔ کیوں کے وہ دوسرے ملکوں میں استعمال نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے ماہرین معیشت نے کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش کی کہ اپنا سونا باہر نہ بھیجیں بلکہ اس کے بدلے سامان تجارت بھیجیں۔ وہ سونا اور چاندہ چوں کے دنیا میں محدود تھے اس لیے وہ اس کے ذخائر محفوظ رکھنے کے خواہش مند تھے۔ اس لئے وہ ان کی بیرونی ممالک منتقلی سے بچانے کے لئے غور و فکر کیا جانے لگا۔
 
ہیوم Dived Hume نے [[اٹھارویں صدی]] میں یہ نظریہ پیش کیا، کہ اگر کوئی ادائیگی زیادتی میں ہو تو اس کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دینا چاہیے۔ یہ عدم پذیر کی کیفیت حرکت پذیر ملکوں میں بہنے کی صلاحیت کو (سونا چاندی) روک لیتی ہے۔ ہیوم Dived HumeنےHume نے محسوس کیا کہ بچت اور محفوظ زر ایک جیسے ہوں تو اس بہاؤکے سبب قیمتیں بلند ہوجاتی ہیں۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر قیمتیں بلند ہوں تو بین الالقوامی مارکیٹ میں ہماری تجار ذوال پزیر ہونے لگتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اونچی قیمتیں ملکی اشیاء کو بیرونی مارکیٹ میں کم کردیتی ہیں۔ اس طرح ہمارے گاہگ زیادہ تر ان اشیاء کو استعمال میں فوقیت دیتے ہیں، جو قیمتوں میں زیادہ نہیں ہوتی ہیں۔ ہیوم Dived Hume اس نتیجے پر پہنچا کہ کم قیمتیں تجارت کو ترقی دیتی ہیں اور اگر برآمدپر نظر رکھتے ہوئے ادائیگیاں بچت سے کی جائیں تو نہ ہمیں تجارت میں نقصان ہوگا اور نہ ہی ہماری بچتوں میں تنزلی آئے گی۔
 
ہیوم Dived Humeنے دیکھا کہ وہ ممالک جو شروع میں محفوظ زر کو کاروبار میں لگا دیتے ہیں اور اپنی قیمتوں کو کم کرکے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا مقام بنالیتے ہیں، وہ غلط نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی بین الا قوامی مارکیٹ برابر بڑھتی رہتی ہے اور یہاں تک کہ ادائیگیوں کا توازن ان کے حق میں ہوجاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں مقام بنانے کے لیے یہی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
سطر 17:
Edgegeworth نے اپنے ایک مضمون ”بین الاقومی قیمتوں کا خالص نظریہ“ میں یہ خیال ظاہر کیا کہ جیون Jevon کے نظریہ مبادلہ Theory of Exchange اور مارشل کے پیش کردہ نظریہ ”رسد و طلب کی طاقتوں میں توازن“ سے بین الاقوامی تجارت کے بنیادی اصول وضع کئے جاسکتے ہیں۔ جو توازن کا نظریہ کہ بہت سے معاشیاتی مسائل کی تہہ میں موجود ہے۔ توازن رسد و طلب کے اس نظریہ نے برطانوی اور امریکی معاشین کے نظریات برائے بین الاقوامی تجارت میں رسوخ حاصل کرلیا۔ حتیٰ 1933 میں برطانیہ کی رائل اکنامک سوسائٹی Royal Ecnomice Sosity کے اجلاس کے میں ایڈون کینن Edwin Cannan نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ریکارڈو Ricardo کے وقت سے اس وقت سے اس وقت تک خاص غلطی یہ ہوئی ہے، کہ وہ بین الاقوامی تجارت کے لئے جو نظریہ قائم کرتے ہیں وہ اس نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے جو کوئی ملک اپنی اندرونی تجارت کے لئے اختیار کرتا ہے۔ اس نے اس کے بعد یہ مان لیا گیا کہ شرح زرمبادلہ کا دارو مدار کسی ملک کی کرنسی کی طلب و رسد یا اس کے توازن ادائیگی Balance of Payments پر ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اندرونی تجارت کا نظریہ جو جیون Jevon اور مارشل نے پیش کیا تھا کہ اصول رسد و طلب یا مسابقت Competition ہی اشیاء کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ 1933 مختلف ملکوں کی کرنسیوں کے شرح مبادلہ کے لئے بھی یہی نظریہ قبول کرلیا گیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں اصول و رسد و طلب کی ایک اور بڑی فتح تھی۔
 
[[دوسری جنگ عظیم]] میں محاربہ ممالک نے جنگ کی تیاری کی وجہ سے پیداشدہ توازن ادائیگی Balance of Payments کی غیر متوازنیت کے مد نظر غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول نافذ کردیا تھا اور وہ اپنے اپنے ملک کی شرح مبادلہ زر مقرر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے لڑائی کے نو سال کے بعد بھی غیر ملکی زرمبادلہ پر کنٹرول ابھی (جب یہ تحریر لکھی گئی تھی) تک نافذ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک دنیا جنگ کے تباہ کن اثرات سے سنبھل نہیں سکی اور محاربہ ممالک کے توازن ہاء ادائیگی موافق یا متوازن Payments Balance of نہیں ہوئے ہیں۔ شرح مبادکہ میں استحکام پیدا کرنے اور مبادلہ زر کے کنٹرول کو ختم کرنے کی غرض سے 1945 میں جنگ ختم ہونے کے بعد ایک بین الاقوامی ادارہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈInternationalفنڈ International Monetary Fund کے نام سے قائم کیاگیا۔ اس بات کااحساس ہوا کہ مختلف کرنسیوں کا آزادانہ تبادلہ ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہیں ہوسکتا ہے اور ڈالر کی قلت اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی، تا وقتیکہ امریکہ میں محصول درآمد کی گراں شرح کو کم کیا جائے۔ دوسرے ممالک امریکی ڈالر زیادہ مقدار میں اس وجہ سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں کہ امریکی حکومت نے سامان درآمد پر بھاری محصول لگارکھا تھا اور یہ ان کے مال کی برآمد میں جس سے وہ ڈالر حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ تھی۔
امریکی حکومت نے اس ذیل میں ایک کمیشن مقرر کیا اور امریکی صدر آئرن ہاور کے سامنے کچھ تجاویز پیش کیں۔ جن پر امریکی حکومت دیگر ممالک کو ڈالر حاصل کرنے میں سہولتیں مہیا کرسکے۔ کمیشن نے مارچ 1954[[1954ء]] میں اپنی تجاویز پیش کیں۔
 
محصولات درآمد و تجارت کا عام معاہدہGeneral Agreemenet on Tariffs and Trad - (GATT) کے معاہدہ عام کا اجلاس اکتوبرمیں جینوا میں منقد ہوا تھا۔ اس اجلاس سے دنیا کے مختلف ممالک کی
سطر 31:
کسی ملک کی درآمد اور برآمد اس وقت برابر ہو گی، جب اس کی ملکی کرنسی بین الاقونی بازار میں اپنی قیمت آزادانہ طور پر قائم کرے۔ کیوں کہ بیشی قیمت تجارت کو نقصان پہنچاتی ہے اور سکہ کی قیمت اصول رسد و طلب اور توازن ادائیگی ayments Balance of کے عمل سے مقرر ہونے دی جائے۔ غیر ملکی زر ہائے مبادلہ یا غیر ملکی کرنسیوں کے روزانہ نرخ عام معاشی قوتوں کے قانون توازن کے مطابق تعین ہوتے ہیں۔
اگر کسی ملک کو بین الاقومی بازار زر میں اپنے سکے کی اصلی قیمت مقرر کرانا منظور ہے تو اسے شرح زرمبادلہ کے زور دار ہچکولوں کو روکنے کی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔ یہ چیز ’حسابات ہمواری Exchange Equalistisation Account ؑتبادلہ زر کے طرز پر حساب ہمواری کے اجزاء سے حاصل ہوسکتی ہے۔ جب کبھی غیر ملکی زرمبادلہ کا نرخ چڑھ جاتا ہے تو حسابات ہمواری تبادلہ زر بازار زر میں کود پڑتے ہیں اور مناسب حد تک اس کے نرخ کو گرادیتے ہیں۔۔ اقتصادی قوتیں خود بخود غیر ملکی زر مبادلہ کی قیمتیں حدود میں رکھتی ہیں۔ کیوں کے غیر ملکی [[کرنسی]] کی مانگ بڑھتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور اس کو خود فائدہ نہیں رہتا ہے۔ تبادلہ زر اور عارضی اور فوری ضرورت کے تحت ایک چارہ کار ہیں۔
 
== ''' پاکستان کا ایک فیصلہ''' ==