"ارتقائی حیاتیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ویکائی
سطر 1:
{{حیاتیاتی ارتقا}}
===Evolutionary Biology===
'''ارتقائی حیاتیات''' {{دیگر نام|انگریزی=Evolutionary biology}} [[حیاتیات]] کی ایک ذیلی شاخ ہے جس میں ان [[نظریۂ ارتقا|ارتقائی طریقہ ہائے کار]] کے اصول و قوانین مطالعہ کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ [[زمین]] میں [[حیاتی تنوع]] وجود پذیر ہوتا ہے۔ جو افراد اس موضوع کے ماہر ہوتے ہیں انھیں '''ماہرین ارتقائی حیاتیات''' کہا جاتا ہے۔
{{Commonscat|Evolutionary biology}}
<big> نظریہ ارتقائ</big>
 
==نظریہ ارتقاء==
یہ دونوں تصورات ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں جامد ہے ۔ سب مخلوق شروع سے اسی طرح وجود میں آئی ہے اور ان میں باہمی کوئی رشتہ نہیں اور نہ ان میں باہمی کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ ان میں کوئی ارتقائ ہے ۔
زمانےیہ دونوں تصورات کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں جامد ہے، تمام مخلوقات شروع سے مفکریناسی طرح وجود میں آئی ہیں اور سائنسان دانمیں کوئی باہمی رشتہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ارتقاء ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ زندگی اپنے آغاز سے لے کر اب تک پیہم ایک سلسلہ ارتقاء میں سفر کر رہی ہے اور ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کی تبدیلی اور تغیر جارہی رہے گا۔ نہایت قدیم زمانے سے مفکرین اور سائنس دان کہتے رہے ہیںہیں۔ ۔ ارتقائارتقاء کا یہ نظریہ [[چارلس ڈارون|ڈارون]] نے پہلی دفعہ پیش نہیںکیانہیں ،کیا، بلکہ اس سے بہت پہلے ارتقائارتقاء کی حقیقت طرفکی اشارہجانب کراشارات رہےملتے ہیں ۔ہیں۔ مثلاً قدیم یونانی مفکرین ،مفکرین، فلسفی اور ماہر فلکیات ہیراقلتسHERACLEITUSہیراقلتس HERACLEITUS کا نظریہ تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں مسلسل تغیر پزیر ہیںہیں۔ ۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ تر اہل فکر لاگاس Logaos )لفظی معنی عقل سبب ،سبب، مراد قانون کائنات ( کو نہیں سمجھتےسمجھتے۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیںہیں۔ ۔ اس کا خیال تھا کہ ’ قانون کائنات ‘ کے زریعہ کائنات کی تمام چیزیں آپس میں مربوط ہیں اور اسی قانون کے تحت تمام قدرتی واقعات رونما ہوتے ہیںہیں۔ ۔ اسی قانون کا ایک اہم مظہر یہ ہے کہ دو متعضاد چیزوں میں ایک اندرونی رشتہ پایا جاتا ہےہے۔ ۔ مثلاً صحت اور بیماری ایک دوسرے کا تعین کرتے ہیںہیں۔ ۔ نیکی اور بدی سرد و گرم ایک دوسرے کے بغیر اپنا مفہوم کھو دیں گےگے۔ ۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز کے دو متعضاد پہلو ہو سکتے ہیںہیں۔ ۔ مثلاً سمندر کا پانی نقصان دہ بھی ہے ) انسانوں کے لےے ( اور مفید بھیبھی۔ ۔ ) مچھلیوں کے لیے ( اس کا کہنا تھا کسی کیفیت یا چیز کا ثبات و دوام ظاہری ،ظاہری، سطحی اور عارضی ہےہے۔ ۔ جب کہ تغیر اصلی اور ابدی حقیقت ہےہے۔ ۔ ایک اور یونانی فلسفی اناکسی مینڈ جو فلکیات کا بانی سمجھا جاتا ہے ،ہے، اس کا خیال تھا مٹی ، ہوامٹی، ،ہوا، آگ اور پانی سے ہی امتزاجات اور افتراقات سے لا تعداد دنیائیں جنم لیتی ہیں اور پھر تباہ ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہےہے۔ ۔ اس یہ خیال تھا کہ انسان مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق سے ترقی پا کر وجود میں آیاآیا۔ ۔ اس طرح مسلمان مفکرین کی تحریروں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہےہے۔ ۔ خاص کر ان مسکویہ تحریروں میںمیں۔ ۔ لیکن ان مسکویہ اور دوسرے مفکرین انسان کا قریبی
دوسرا یہ ہے کہ زندگی اپنے آغاز سے لے کر اب تک پہم ایک سلسلہ ارتقائ میں سفر کر رہی ہے اور ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کی تبدیلی اور تغیر جارہی رہے گا ۔ نہایت قدیم
رشتہ دار گھوڑے کو ٹہرایا ہےہے۔ ۔ اس طرح اس کا ذکر اخوان صفائصفاء کی تحریروں میں ملتا ہے ،ہے، لیکن بہت الجھا ہواہوا۔ ۔
زمانے سے مفکرین اور سائنس دان اور مفکرین کہتے رہے ہیں ۔ ارتقائ کا نظریہ ڈارون نے پہلی دفعہ پیش نہیںکیا ، بلکہ اس سے بہت پہلے ارتقائ کی حقیقت طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ مثلاً قدیم یونانی مفکرین ، فلسفی اور ماہر فلکیات ہیراقلتسHERACLEITUS کا نظریہ تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں مسلسل تغیر پزیر ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ تر اہل فکر لاگاس Logaos )لفظی معنی عقل سبب ، مراد قانون کائنات ( کو نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ ’ قانون کائنات ‘ کے زریعہ کائنات کی تمام چیزیں آپس میں مربوط ہیں اور اسی قانون کے تحت تمام قدرتی واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ اسی قانون کا ایک اہم مظہر یہ ہے کہ دو متعضاد چیزوں میں ایک اندرونی رشتہ پایا جاتا ہے ۔ مثلاً صحت اور بیماری ایک دوسرے کا تعین کرتے ہیں ۔ نیکی اور بدی سرد و گرم ایک دوسرے کے بغیر اپنا مفہوم کھو دیں گے ۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز کے دو متعضاد پہلو ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً سمندر کا پانی نقصان دہ بھی ہے ) انسانوں کے لےے ( اور مفید بھی ۔ ) مچھلیوں کے لیے ( اس کا کہنا تھا کسی کیفیت یا چیز کا ثبات و دوام ظاہری ، سطحی اور عارضی ہے ۔ جب کہ تغیر اصلی اور ابدی حقیقت ہے ۔ ایک اور یونانی فلسفی اناکسی مینڈ جو فلکیات کا بانی سمجھا جاتا ہے ، اس کا خیال تھا مٹی ، ہوا ، آگ اور پانی سے ہی امتزاجات اور افتراقات سے لا تعداد دنیائیں جنم لیتی ہیں اور پھر تباہ ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے ۔ اس یہ خیال تھا کہ انسان مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق سے ترقی پا کر وجود میں آیا ۔ اس طرح مسلمان مفکرین کی تحریروں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ۔ خاص کر ان مسکویہ تحریروں میں ۔ لیکن ان مسکویہ اور دوسرے مفکرین انسان کا قریبی
رشتہ دار گھوڑے کو ٹہرایا ہے ۔ اس طرح اس کا ذکر اخوان صفائ کی تحریروں میں ملتا ہے ، لیکن بہت الجھا ہوا ۔
 
فرانس کے ماہر حیاتیات و نبات ژاں بیپتست نے 1809 میں اپنی کتاب ’ فلسفہ حیات ‘ اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں ارتقائارتقاء سے جڑی ہوئی ہےہے۔ ۔ الفریڈ ویلس نے 1858 میں بھی ارتقائارتقاء کی حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کیکی۔ ۔ اس کے بعد چالس ڈارون نے اس نظریہ کو انقلابی شکل دیدی۔ ۔ اس کی کتاب آغاز النوع ‘انواع جو 1859 میں شائع ہوئی تھیتھی۔ ۔ اس کے بعد ہزاروں سائنس دانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ایسی بے شمار حقیقتوں کو دریافت کیا ہےہے۔ ۔ جس سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے اور اب ارتقائارتقاء کی حقیقت سائنس کی دنیا میں مسلمہ ہوچکی ہےہے۔ ۔
 
اس نظرے پر وقتاً وقتاً جو اعتراضات سائنسدانوں کی طرف سے کیئے گئے ،گئے، وہ ضمنی حقائق پر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیق اسے مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی ہےہے۔ ۔ اس نظریہ کو بنیادی طور پر رد کرنے والے دنیا میں صرف مذہبی مفکرین ہیں یا ایسے عینیت پسند سائنسدان جو مذہبی تبلیغ میں دلچسپی رکھتی ہیں ۔
 
گزشتہ صدی میں یہ خیال عام تھا کہ ایک بچہ ماں کے بیٹ میں قرار حمل سے لے کر پیدائش تک نو ماہ تک کے عرصہ میں ترتیب وار ان مراحل سے گزرتا ہے کہ جن سے کائنات کے اندر زندگی اپنے
ارتقائارتقاء کے سفر آغاز ظہور انسان تک ساڑھے تین ارب سال میں گزری ہےہے۔ ۔ یہ تفصیلات میں تو درست نہیں لیکن اس میں بنیادی صداقت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہےہے۔ ۔ علم جنین ) ایمبر لوجی ( کی جدید ترین تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے بچے ( بشمول انسان ) حمل ٹہرنے سے لے کر پیدائش تک ایک جیسے مراحل طہ کرتے ہیںہیں۔ ۔ ابتدا میں ایسے تمام جانداروں کے جنین ایک دوسرے کا مماثل ہوتے ہیںہیں۔ ۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان میں اختلاف واضح ہونے لگتے ہیںہیں۔ ۔ آخر میں یہ بالکل الگ شکل کے ہوجاتے ہیںہیں۔ ۔
 
اس سے ثابت ہوتا کہ تمام جانداروں کے درمیان زبردست ارتقائی رشتہ ہےہے۔ ۔ سائنس کے مختلف شعبے جس کے مطالعہ سے ارتقائے حیات کا ثبوت ملتا ہے ،ہے، ان میں علم الابدن ( بیا لوجی ) خاص کر اس تحقیقی شعبے (علم الانواع ) ٹیکسانومی ( علم العضا، ) اناٹومی( اور علم جنین ) ایمیبریا لوجی ( شامل ہیں۔ علم الابدان کے علاوہ ماحولیات ) ایکا لوجی ( قدیم بناتات قدیم حیوانیات ) پیل اونٹالوجی ( میں سائنسی تحیقات اور علم آثار ) متجحرات ( اور زمانہ قبل از تاریخ کی قدیم مصنوعات وغیرہ کے سائنسی مطالعہ شامل ہے ۔
تحقیقی شعبے علم الانواع ) ٹیکسانومی ( علم العضا ، ) اناٹومی( اور علم جنین ) ایمیبریا لوجی ( شامل ہیں ۔ علم الابدان کے علاوہ ماحولیات ) ایکا لوجی ( قدیم بناتات قدیم حیوانیات ) پیل اونٹالوجی ( میں سائنسی تحیقات اور علم آثار ) مجحرات ( اور زمانہ قبل از تاریخ کی قدیم مصنوعات وغیرہ کے سائنسی مطالعہ شامل ہے ۔
 
<big>==علم الانوع کی شہادت</big> ==
 
علم الانوع کا دائرہ زندگی کے مختلف انوعانواع SPECIES خصوصی مطالعہ کرنا ہےہے۔ ۔ ان کی تعریف ،تعریف، وضاحت اور درجہ بندی کرنا ہےہے۔ ۔ اگر انوع میں اپنی اپنی نوع کی مختلف صفات خلط ملط ہوتی ہیں تو اس علم کی شاید ضرورت نہ ہوتی اور اس کی گواہی بھی درست نہیں ہوتی ،ہوتی، لیکن چونکہ ہر نوع کے جملہ افراد اپنی نوع کی خصوصیات لازمی طور پر رکھتے ہیںہیں۔ ۔ اس لیے نوع کی درجہ بندی ممکن ہے اور ان کے درمیان روابط کی تلاش بھی ممکن ہےہے۔ ۔ مثلاً سب مرغیاں انڈے دیتی ہیںہیں۔ ۔ لیکن کوئی مرغی انڈے اور کوئی بچے یا پھر کوئی پرندہ پر کھتا اور کسی پرندے کے بال ہوتے یا گندم کے ایک پودے پر کوئی تو گندم کا سٹہ ہوتا اور کوئی جوار کا یا باجرے کا تو علم الانوع ،الانوع، ارتقائارتقاء کے نظریہ میں کوئی مدد نہ کرسکتا تھاتھا۔ ۔ لیکن علم الانوع یہ ثابت کرتا ہے کہ مختلف انواع کو مشترکہ خصوصیات کے پیش نظر چند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہےہے۔ ۔ اس طرح سے انواعانواع، ،اقسام، اقسامخاندان، ،سلسلہ، خاندان ، سلسلہ ، جماعت ،جماعت، خیل اور سلطنت میں کائی سے لے کر برگد تک اور جانداروں کی سلطنت میں پوٹوزو �âیک ایک خلوی �áخلوی، خوربینی جانوروں میں سے لے کرآزاد شیر داروں تک مختلف انواع میں میں ایک باہمی رشتہ پایا جاتا ہے ،ہے، جو کسی مشترکہمشترک جد پر مبنی ہونے کا ثبوت بہم پہچاتا ہے اور یوں نظریہ ارتقائارتقاء کی صداقت کی گواہی دیتا ہےہے۔ ۔
 
<big>==تقابلی علم الاعضا کی شہادت</big>==
 
مختلف پودووں اور جانوروں کے جسمانی ڈھانچوں کا تقابلی مطالہ بھی مشترکہ اوصاف کی نشاندہی کرتا ہے اور یوں مشترکہ جد کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہےہے۔ ۔ مثلاً مینڈک ،مینڈک، چھپکلی ،چھپکلی، درندے اور شیر دار جانداروں کے جسموں میں ہڈیوں کے ڈھانچے بنیادی ساخت ایک جیسی ہے۔ جو ثابت کرتی ہے کہ ان سب کا جد امجد ایک ہی ہے جو کوئی ریڑھ کی ہڈی والا جاندار تھا۔ اسی طرح تمام شیر دار جانوروں کے اعظائ کا بنیادی نظام ایک جیسا ہے، خواہ یہ جانور تیرنے والے ہوں یا خشکی پر چلنے والے، رینگنے والے ہوں یا اڑنے والے ۔
جانداروں کے جسموں میں ہڈیوں کے ڈھانچے بنیادی ساخت ایک جیسی ہے ۔ جو ثابت کرتی ہے کہ ان سب کا جد امجد ایک ہی ہے جو کوئی ریڑھ کی ہڈی والا جاندار تھا ۔ اسی طرح تمام شیر دار جانوروں کے اعظائ کا بنیادی نظام ایک جیسا ہے ، خواہ یہ جانور تیرنے والے ہوں یا خشکی پر چلنے والے ، رینگنے والے ہوں یا اڑنے والے ۔
 
<big>==علم حنین کی شہادت</big>==
 
پیدائش سے پہلے کسی بھی جاندار کا جنین ) ایمبریو ( جن مراحل سے گزرتا ہے ،ہے، وہ حیرت انگیز حد تک ایک جیسے ہوتے ہیںہیں۔ ۔ چاہے جنین ماں کے پیٹ میں ہو یا انڈے میںمیں۔ ۔ اگر مثال کے طور پر ریڑھ والے مختلف جانداروں کے جنین کی افزائش کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی مراحل میں یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اگر مچھلی، چھپکلی اور بارہ سنگھے کے ابتدائی حنین سامنے رکھ دیئے جائیں تو ماہرین کے لیے یہ بتانا مشکل ہوگا کہ ان میں سے کون سا جنین کس جاندار کا ہے۔ یہ مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ نسلی طور پر ماضی قدیم میں یہ سب ایک مشترکہ جد سے تعلق رکھتے ہیں۔
والے مختلف جانداروں کے جنین کی افزائش کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی مراحل میں یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ اگر مچھلی ، چھپکلی اور بارہ سنگھے کے ابتدائی حنین سامنے رکھ دیئے جائیں تو ماہرین کے لیے یہ بتانا مشکل ہوگا کہ ان میں سے کون سا جنین کس جاندار کا ہے ۔ یہ مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ نسلی طور پر ماضی قدیم میں یہ سب ایک مشترکہ جد سے تعلق رکھتے ہیں ۔
 
<big>==ماحولیات کی شہادت</big>==
دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے جانداروں کی نسلیں اور دیگر زندہ اجسام کی شکلیں بعض اوقات ایسے عجیب و غریب مظاہر کو سامنے لاتی ہےں ، جن کا کوئی دوسرا سائنسی جواب نظریہ ارتقائ کے
ممکن نہیں ہے ۔ مثلاً قریب قریب واقع کئی سمندری جزیروں میں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، مگر اپنے قریبی براعظموں کے پرندوں سے مماثل ہیں ۔ اسی طرح ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا رکھنے والے دو علاقوں میں ایک جیسے جانور نہیں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً برازیل اور افریقہ کی آب و ہوا ایک جیسی ہے ۔ مگر افریقہ میں گوریلے اور ہاتھی ہیں ، جب کہ برازیل میں یہ جانور نہیں ہیں ۔ ان پہلیوں کا جواب صرف نظریہ ارتقائ کے پاس ہے کہ یہ جانور ان اجداد کی نسل سے ہیں ، جو اس بر اعظموں میں وجود آئے ہیں اور بعد میں زیادہ ساز گار ماحول والے علاقوں کی طرف چلے گئے ۔ اسی قسم کے سفر میں قدرتی رکاوٹیں آخری حد کا کام کرتی تھیں ۔ پانی والے جانوروں کے لیے خشکی کا بڑا ٹکرا اور خشکی کے جانوروں کے لیے کوئی سمندر ۔
 
دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے جانداروں کی نسلیں اور دیگر زندہ اجسام کی شکلیں بعض اوقات ایسے عجیب و غریب مظاہر کو سامنے لاتی ہےں، جن کا کوئی دوسرا سائنسی جواب نظریہ ارتقاء کے ممکن نہیں ہےہے۔ ۔ مثلاً قریب قریب واقع کئی سمندری جزیروں میں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ہیں، مگر اپنے قریبی براعظموں کے پرندوں سے مماثل ہیںہیں۔ ۔ اسی طرح ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا رکھنے والے دو علاقوں میں ایک جیسے جانور نہیں پائے جاتے ہیںہیں۔ ۔ مثلاً برازیل اور افریقہ کی آب و ہوا ایک جیسی ہےہے۔ ۔ مگر افریقہ میں گوریلے اور ہاتھی ہیں ،ہیں، جب کہ برازیل میں یہ جانور نہیں ہیںہیں۔ ۔ ان پہلیوں کا جواب صرف نظریہ ارتقائارتقاء کے پاس ہے کہ یہ جانور ان اجداد کی نسل سے ہیں ،ہیں، جو اس بر اعظموں میں وجود آئے ہیں اور بعد میں زیادہ ساز گار ماحول والے علاقوں کی طرف چلے گئےگئے۔ ۔ اسی قسم کے سفر میں قدرتی رکاوٹیں آخری حد کا کام کرتی تھیںتھیں۔ ۔ پانی والے جانوروں کے لیے خشکی کا بڑا ٹکرا اور خشکی کے جانوروں کے لیے کوئی سمندر ۔
اس طرح ایک دلچسپ مثال گھڑیال کی ہے ، اس کی دو نسلیں دنیا میں دور دراز موجود ہیں ۔ ایک مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسری عوامی جمہوریہ چین میں ۔ ان کے اجداد قدیم زمانوں سے ایشیائ سے لے کر فلوریڈا تک پھیلے ہوئے تھے اور خشکی کے اس معدوم راستے پر جاتے تھے ، جو کسی زمانے میں روس کو الاسکا سے ملاتا تھا ۔ اس راستہ کے معدوم ہو جانے سے یہ دونوں نسلیں اپنے ماحول کے اثر سے قدرے تبدیل ہوتی گئیں ۔ لیکن دو انتہائی دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہیں ۔ یوں نظریہ ارتقائ ان جغرافیائی پہلیوں کے تسلی بخش جواب پیش کرتا ہے ۔
 
اس طرح ایک دلچسپ مثال گھڑیال کی ہے ،ہے، اس کی دو نسلیں دنیا میں دور دراز موجود ہیںہیں۔ ۔ ایک مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسری عوامی جمہوریہ چین میںمیں۔ ۔ ان کے اجداد قدیم زمانوں سے ایشیائ سے لے کر فلوریڈا تک پھیلے ہوئے تھے اور خشکی کے اس معدوم راستے پر جاتے تھے ،تھے، جو کسی زمانے میں روس کو الاسکا سے ملاتا تھاتھا۔ ۔ اس راستہ کے معدوم ہو جانے سے یہ دونوں نسلیں اپنے ماحول کے اثر سے قدرے تبدیل ہوتی گئیںگئیں۔ ۔ لیکن دو انتہائی دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہیںہیں۔ ۔ یوں نظریہ ارتقائارتقاء ان جغرافیائی پہلیوں کے تسلی بخش جواب پیش کرتا ہےہے۔ ۔
<big>مجحرات کی شہادت</big>
 
<big>مجحرات==متجحرات کی شہادت</big>==
لیکن سب سے مسکت دلیل خود ان خزانوں کی ہے ۔ جو زمین نے اپنے سینے میں لاکھوں کروڑوں سالوں سے چھپا کر حفاظت سے رکھے تھے ۔ یہ ان زندہ جانداروں اور نباتات کے پتھرائے ہوئے ڈھانچے ہیں ، جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے زمین پر چلتے تھے یا لہلہاتے تھے ۔ یہ مجحرات مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زمانی ترتیب سے ان مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا قدیم کوئی پودا یا جاندار ہے ، اس کی ساخت اتنی ہی سادہ ہے ۔ جب کہ ان کی زیادہ ترقی یافتہ شکلیں یعنی زیادہ پیچیدہ اور باصلاحیت شکلیں بعد میں نمودار ہوتی گئیں ۔ مجحرات کا تسلی بخش سائنسی جواب صرف نظریہ ارتقائ کے کسی کے پاس نہیں ہے ۔
 
لیکن سب سے مسکت دلیل خود ان خزانوں کی ہےہے۔ ۔ جو زمین نے اپنے سینے میں لاکھوں کروڑوں سالوں سے چھپا کر حفاظت سے رکھے تھےتھے۔ ۔ یہ ان زندہ جانداروں اور نباتات کے پتھرائے ہوئے ڈھانچے ہیں ،ہیں، جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے زمین پر چلتے تھے یا لہلہاتے تھےتھے۔ ۔ یہ مجحراتمتجحرات مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زمانی ترتیب سے ان مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا قدیم کوئی پودا یا جاندار ہے ،ہے، اس کی ساخت اتنی ہی سادہ ہےہے۔ ۔ جب کہ ان کی زیادہ ترقی یافتہ شکلیں یعنی زیادہ پیچیدہ اور باصلاحیت شکلیں بعد میں نمودار ہوتی گئیںگئیں۔ ۔ مجحراتمتجحرات کا تسلی بخش سائنسی جواب صرف نظریہ ارتقائارتقاء کے کسی کے پاس نہیں ہےہے۔ ۔
<big>ارتقائ کا طریقہ کار</big>
 
<big>ارتقائ== ارتقاء کا طریقہ کار</big>==
ارتقائ کا عمل عمموماً دو قوتوں کا مرحون منت رہا ہے ۔ ایک اندرونی جینیاتی تبدیلی اور دوسرا ماحول کی مواقت یا عدم مواقت کا اثر ۔ جینیاتی تبدیلی کا جدید تصور یہ ہے کہ یہ اچانک ہوتی ہے ۔ کیوں ہوتی ہے ؟ آیا کوئی کائناتی شعاعیں اچانک پڑنے سے ، کسی نئے کیمیائی مواد کے انجدب سے یا کسی اور وجہ یا وجوہات سے ؟ اس بات کا کوئی جواب نہیں معلوم ، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے ۔
 
ارتقائارتقاء کا عمل عمموماً دو قوتوں کا مرحون منت رہا ہےہے۔ ۔ ایک اندرونی جینیاتی تبدیلی اور دوسرا ماحول کی مواقت یا عدم مواقت کا اثراثر۔ ۔ جینیاتی تبدیلی کا جدید تصور یہ ہے کہ یہ اچانک ہوتی ہےہے۔ ۔ کیوں ہوتی ہے ؟ آیا کوئی کائناتی شعاعیں اچانک پڑنے سے ،سے، کسی نئے کیمیائی مواد کے انجدب سے یا کسی اور وجہ یا وجوہات سے ؟ اس بات کا کوئی جواب نہیں معلوم ،معلوم، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہےہے۔ ۔
دوسرا ماحول کا اثر ہے ۔ ماحول ارتقائ کی شرائط مہیا کرتا ہے ۔ حیات کے اندر جو تبدیلی کی صلاحیت اس کو ماحول کی موافقت ایک خاص رخ پر لے جاتی ہے اور مخالفت اسے کچل دیتی ہے ۔ لہذا زیادہ اہل جسم و ماحول کی مطلوبہ تبدیلیوں سے دو چار ہو کر زندہ رہ جاتا ہے اور ناہل تبدیل نہ ہوسکنے کے باعث راستہ میں ہی رہے جاتا ہے ۔ قدرتی انتخاب اور بقائے صلح کا قانون ارتقائ کے خارجی عوامل ہیں ، جب کہ باطنی عامل جنین کی تبدیلی ہے ۔
 
دوسرا ماحول کا اثر ہےہے۔ ۔ ماحول ارتقائارتقاء کی شرائط مہیا کرتا ہےہے۔ ۔ حیات کے اندر جو تبدیلی کی صلاحیت اس کو ماحول کی موافقت ایک خاص رخ پر لے جاتی ہے اور مخالفت اسے کچل دیتی ہےہے۔ ۔ لہذا زیادہ اہل جسم و ماحول کی مطلوبہ تبدیلیوں سے دو چار ہو کر زندہ رہ جاتا ہے اور ناہل تبدیل نہ ہوسکنے کے باعث راستہ میں ہی رہے جاتا ہےہے۔ ۔ قدرتی انتخاب اور بقائے صلح کا قانون ارتقائارتقاء کے خارجی عوامل ہیں ،ہیں، جب کہ باطنی عامل جنین کی تبدیلی ہےہے۔ ۔
<big>بے ریڑھ کے جانوروں کا ارتقائ</big>
 
<big>== بے ریڑھ کے جانوروں کا ارتقائ</big>ارتقاء ==
تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے یک خلوی خلیہ سے زندگی کی ابتدا ہوئی تھی ۔ یہ زندہ مخلوق نہ نباتات میں شمار ہوتی تھی اور نہ ہی حیوانات میں ۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے تقریباً
تین ارب سال پہلے ہوا تھا ۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے کوئی ایک ارب سال پہلے ہوا تھا ۔ اس وقت تک نباتات اور حیوانات یک خلیاتی مرحلے میں تھے اور یہ دونوں پانی کے اندر تھے ۔ یہ ارتقائ شروع کیسے ہوا ، یہ بھی سربستہ راز ہے ۔ کیوں کہ حاصل شدہ مجحرات کے دور سے پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ بہرحال یک خلیاتی جسموں میں ارتقائ کی پہلی یہ تھی کہ کثیر خلیاتی جسم پیدا ہوئے ۔ اس عمل کا زمانہ ساٹھ کروڑ قبل سمجھا جاتا ہے ۔ قدیم کائی اور بکٹیریا کے مجحرات جنوبی افریقہ میں ملے ہیں ۔ ان کی عمر علیٰ الترتیب تین ارب دس کروڑ سال اور دو ارب ستر کروڑ سال ہے ۔ اس طرح انٹاریو ) کنیڈا ( سے جو ایسے ہی مجحرات ملے ہیں وہ ایک ارب نوے کروڑ سال پرانے ہیں ۔ ایسے قدیم مجحرات کی تعداد کم ہے ۔ تاہم ساٹھ کروڑ سال قبل کے زمانے سے لے کر بعد کے تمام ادوار کے مجحرات وافر دستیاب ہیں ۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جسموں میں خلیوں کی تعداد مختصر ہوتی تھی اور خلیوں کی ترتیب دو پرتوں میں ہوتی تھی ، جن میں ریشوں کا کچھ فرق ہوتا تھا ، مگر اعضائ کا وجود نہیں تھا ۔ ساٹھ کروڑ سال قبل کئی جاندار وجود میں آچکے تھے جو تقریباً سب کے سب پانی میں رہتے تھے ۔
 
تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے یک خلوی خلیہ سے زندگی کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ زندہ مخلوق نہ نباتات میں شمار ہوتی تھی اور نہ ہی حیوانات میں۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے تقریباً تین ارب سال پہلے ہوا تھاتھا۔ ۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے کوئی ایک ارب سال پہلے ہوا تھاتھا۔ ۔ اس وقت تک نباتات اور حیوانات یک خلیاتی مرحلے میں تھے اور یہ دونوں پانی کے اندر تھےتھے۔ ۔ یہ ارتقائارتقاء شروع کیسے ہوا ،ہوا، یہ بھی سربستہ راز ہےہے۔ ۔ کیوں کہ حاصل شدہ مجحراتمتجحرات کے دور سے پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا تھاتھا۔ ۔ بہرحال یک خلیاتی جسموں میں ارتقائارتقاء کی پہلی یہ تھی کہ کثیر خلیاتی جسم پیدا ہوئےہوئے۔ ۔ اس عمل کا زمانہ ساٹھ کروڑ قبل سمجھا جاتا ہےہے۔ ۔ قدیم کائی اور بکٹیریا کے مجحراتمتجحرات جنوبی افریقہ میں ملے ہیںہیں۔ ۔ ان کی عمر علیٰ الترتیب تین ارب دس کروڑ سال اور دو ارب ستر کروڑ سال ہےہے۔ ۔ اس طرح انٹاریو ) کنیڈا ( سے جو ایسے ہی مجحراتمتجحرات ملے ہیں وہ ایک ارب نوے کروڑ سال پرانے ہیںہیں۔ ۔ ایسے قدیم مجحراتمتجحرات کی تعداد کم ہےہے۔ ۔ تاہم ساٹھ کروڑ سال قبل کے زمانے سے لے کر بعد کے تمام ادوار کے مجحراتمتجحرات وافر دستیاب ہیںہیں۔ ۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جسموں میں خلیوں کی تعداد مختصر ہوتی تھی اور خلیوں کی ترتیب دو پرتوں میں ہوتی تھی ،تھی، جن میں ریشوں کا کچھ فرق ہوتا تھا ،تھا، مگر اعضائ کا وجود نہیں تھاتھا۔ ۔ ساٹھ کروڑ سال قبل کئی جاندار وجود میں آچکے تھے جو تقریباً سب کے سب پانی میں رہتے تھےتھے۔ ۔
یک خلوی جسموں میں ارتقائ کی پہلی تبدیلی تو یہ تھی کہ کثیر الخلیاتی جسم نمودار ہوئے ۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ خلیوں کی تین پرتوں میں جسموں کا ظہور ہوا ۔ جس کے باعث ۔ درمیانی پرت میں
پٹھوں کا ظہور ہوا ۔ جس کے باعث اس میں حرکت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ۔ جسم کے مختلف تقسیم منت ہوئی اور سر اور دم کا فرق پیدا ہوا ۔
 
یک خلوی جسموں میں ارتقائارتقاء کی پہلی تبدیلی تو یہ تھی کہ کثیر الخلیاتی جسم نمودار ہوئےہوئے۔ ۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ خلیوں کی تین پرتوں میں جسموں کا ظہور ہواہوا۔ ۔ جس کے باعثباعث۔ ۔ درمیانی پرت میں پٹھوں کا ظہور ہوا۔ جس کے باعث اس میں حرکت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ جسم کے مختلف تقسیم منت ہوئی اور سر اور دم کا فرق پیدا ہوا ۔
تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ٹکروں میں منقسم جسم وجود میں آئے ۔ دوسرے ان کے اندر کچھ کھوکھلا حصہ بھی پیدا ہوا ۔ ان خصوصیات کے نتیجے میں جوڑ دار کیڑے پیدا ہوئے ۔ آج بھی ایسے کیڑوں کا نمائندہ کیچوا موجود ہے ۔ یہ دونوں خصوصیات بعد میں زیادہ ترقی یافتہ بے ریڑھ اور ریڑھ دار جانوروں کے جسمانی نظام کی بنیاد بنے ۔
 
تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ٹکروں میں منقسم جسم وجود میں آئےآئے۔ ۔ دوسرے ان کے اندر کچھ کھوکھلا حصہ بھی پیدا ہواہوا۔ ۔ ان خصوصیات کے نتیجے میں جوڑ دار کیڑے پیدا ہوئےہوئے۔ ۔ آج بھی ایسے کیڑوں کا نمائندہ کیچوا موجود ہےہے۔ ۔ یہ دونوں خصوصیات بعد میں زیادہ ترقی یافتہ بے ریڑھ اور ریڑھ دار جانوروں کے جسمانی نظام کی بنیاد بنےبنے۔ ۔
چوتھی بڑی یہ ترقی ہوئی کہ ٹکڑوں میں منقسم کھوکھلے جسموں کے ساتھ جوڑ دار اعضائ مزید لگ گئے اور ایک نیا بے ریڑھ جانور پیدا ہوا ۔ اس جانور کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا انتہائی
آسان ہوگیا ۔ ان سے ترقی کرکے جڑے ہوئے پیروں والے جانور پیدا ہوئے اور کروڑ ہا کروڑ سال پہلے زندگی انہی شکلوں میں قدیم سمندروں موجود تھے ۔ ان کی اولاد میں سے سمندری بچھو پیدا ہوئے اور پھر سانس لینے والے سمندری حشرات پیدا ہوئے ۔ سب سے پہلے کیڑے تقریباً تقریباً 32 کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے صفحہ ہستی پر نمودار ہوئے ۔ تتلیاں اس زمانے میں نمودار ہوئیں جب نباتات کی دنیا میں پھولدار پودے وجود میں آئے ۔ تاہم گزشتہ بارہ کروڑ سال سے بے ریڑھ جانوروں میں کوئی مزید عظیم تبدیلی نہیں ہوئی ۔
 
چوتھی بڑی یہ ترقی ہوئی کہ ٹکڑوں میں منقسم کھوکھلے جسموں کے ساتھ جوڑ دار اعضائ مزید لگ گئے اور ایک نیا بے ریڑھ جانور پیدا ہوا۔ اس جانور کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا انتہائی آسان ہوگیاہوگیا۔ ۔ ان سے ترقی کرکے جڑے ہوئے پیروں والے جانور پیدا ہوئے اور کروڑ ہا کروڑ سال پہلے زندگی انہی شکلوں میں قدیم سمندروں موجود تھےتھے۔ ۔ ان کی اولاد میں سے سمندری بچھو پیدا ہوئے اور پھر سانس لینے والے سمندری حشرات پیدا ہوئےہوئے۔ ۔ سب سے پہلے کیڑے تقریباً تقریباً 32 کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے صفحہ ہستی پر نمودار ہوئےہوئے۔ ۔ تتلیاں اس زمانے میں نمودار ہوئیں جب نباتات کی دنیا میں پھولدار پودے وجود میں آئےآئے۔ ۔ تاہم گزشتہ بارہ کروڑ سال سے بے ریڑھ جانوروں میں کوئی مزید عظیم تبدیلی نہیں ہوئیہوئی۔ ۔
<big>ریڑھ دار جانوروں کا ارتقائ</big>
 
<big>== ریڑھ دار جانوروں کا ارتقائ</big>ارتقاء ==
ریڑھ والے جانور دنیا کی تمام جاندار اقسام کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے ۔ ان کا ظہور آج سے تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے ہوا تھا ۔ یہ جانور ۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے پہلا ریڑھ دار جانور جبڑے کے بغیر
مچھلیاں تھیں ۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی ، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھی ۔
 
ریڑھ والے جانور دنیا کی تمام جاندار اقسام کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہےہے۔ ۔ ان کا ظہور آج سے تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے ہوا تھاتھا۔ ۔ یہ جانور ۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے پہلا ریڑھ دار جانور جبڑے کے بغیر
رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی ( نرم ہڈی ) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضائ بھی تھے ۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلی ۔ اس کا زمانہ وجود تقریباً 45 کروڑ سال پرانا ہے ۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیں ۔ جو کہ 45 کروڑ سال پرانے ہیں ۔
مچھلیاں تھیںتھیں۔ ۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی ،تھی، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھیتھی۔ ۔
 
رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی ( نرم ہڈی ) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضائ بھی تھےتھے۔ ۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلیمچھلی۔ ۔ اس کا زمانہ وجود تقریباً 45 کروڑ سال پرانا ہےہے۔ ۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیںہیں۔ ۔ جو کہ 45 کروڑ سال پرانے ہیںہیں۔ ۔
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں ، ریڑھ دار ، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضائ تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنے ۔
 
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں ،مچھلیاں، ریڑھ دار ،دار، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیںہیں۔ ۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضائ تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنے ۔
دوسرا ریڑھ دار جانوروں کے ارتقائ کے دوران یہ ہوا کہ ایسے جانور پیدا ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے تھے ۔۔۔۔ جل تھلیئے جانور ، یہ ایسے ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں ( یا یوں کہیے چار ٹانگیں ) نکل آئیں ۔ نیز سانس لینے کے لیے گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑوں نے جنم لیا ۔ جل تھلیئے جانوروں کے وجود کا زمانہ چالیس کروڑ سال پرانا ہے ۔ ان کے چالیس کروڑ سال پرانے مجحرات بھی ملے ہیں ۔ ان کے وجود میں آنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خشکی میں دور دراز پھیل گئے اور یوں زمینی زندگی کا آغاز ہوا ۔ چونکہ پانی میں تیرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بازوؤں اور ٹانگوں کی ضرورت تھی اور یہ بہر حال پیداوار پانی کی تھی ، اس لیے جب خشکی پر آئے تو ان کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم بھدے تھے ۔ یہ جانور چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ رینگ کر چلتے تھے ۔ ان کے ظہور کا زمانہ 38 کروڑ سال پرانا ہے ۔ یہ گھنے جنگلوں میں گھوم پھر کر رفتہ رفتہ کافی تبدیل ہوگئے ۔ مگر پیدائش کا عمل پانی میں جاکر کرتے تھے ۔
 
دوسرا ریڑھ دار جانوروں کے ارتقائارتقاء کے دوران یہ ہوا کہ ایسے جانور پیدا ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے تھے ۔۔۔۔ جل تھلیئے جانور ،جانور، یہ ایسے ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں ( یا یوں کہیے چار ٹانگیں ) نکل آئیںآئیں۔ ۔ نیز سانس لینے کے لیے گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑوں نے جنم لیالیا۔ ۔ جل تھلیئے جانوروں کے وجود کا زمانہ چالیس کروڑ سال پرانا ہےہے۔ ۔ ان کے چالیس کروڑ سال پرانے مجحراتمتجحرات بھی ملے ہیںہیں۔ ۔ ان کے وجود میں آنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خشکی میں دور دراز پھیل گئے اور یوں زمینی زندگی کا آغاز ہواہوا۔ ۔ چونکہ پانی میں تیرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بازوؤں اور ٹانگوں کی ضرورت تھی اور یہ بہر حال پیداوار پانی کی تھی ،تھی، اس لیے جب خشکی پر آئے تو ان کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم بھدے تھےتھے۔ ۔ یہ جانور چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ رینگ کر چلتے تھےتھے۔ ۔ ان کے ظہور کا زمانہ 38 کروڑ سال پرانا ہےہے۔ ۔ یہ گھنے جنگلوں میں گھوم پھر کر رفتہ رفتہ کافی تبدیل ہوگئےہوگئے۔ ۔ مگر پیدائش کا عمل پانی میں جاکر کرتے تھےتھے۔ ۔
تیسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ ان جانداروں نے زمین پر انڈے دینے شروع کردیئے ۔ جس کے نتیجے میں ان کا پانی سے بنیادی رشتہ ختم ہوگیا ۔ اب یہ جنگل کے رینگنے والے جانور تھے ، ان کا جنم 30 کروڑ سال قبل ہوا تھا ۔ آہستہ آہستہ ان کی لاتعداد قسموں نے جنم لیا اور یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئیں ۔ ان کے تیس کروڑ سال پرانے مجحرات دریافت ہوئے ۔ رینگنے والے جانوروں کی ایک خرابی یہ تھی کہ ان کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا ، جیسے کہ اب بھی رینگنے والے جانوروں کا ہے ۔ اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سخت سردی میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا تھا ۔
 
تیسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ ان جانداروں نے زمین پر انڈے دینے شروع کردیئےکردیئے۔ ۔ جس کے نتیجے میں ان کا پانی سے بنیادی رشتہ ختم ہوگیاہوگیا۔ ۔ اب یہ جنگل کے رینگنے والے جانور تھے ،تھے، ان کا جنم 30 کروڑ سال قبل ہوا تھاتھا۔ ۔ آہستہ آہستہ ان کی لاتعداد قسموں نے جنم لیا اور یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئیںگئیں۔ ۔ ان کے تیس کروڑ سال پرانے مجحراتمتجحرات دریافت ہوئےہوئے۔ ۔ رینگنے والے جانوروں کی ایک خرابی یہ تھی کہ ان کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا ،تھا، جیسے کہ اب بھی رینگنے والے جانوروں کا ہےہے۔ ۔ اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سخت سردی میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا تھاتھا۔ ۔
سردی کے ساتھ چوتھی عظیم تبدیلی تبدیلی رونما ہوئی اور گرم خون والے جانداروں کی نئی نسل وجود میں آگئی ۔ یہ مخلوق ہر قسم کے موسم میں اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک ہی سطح پر برقرار رکھ سکتی تھی
۔ اس مرحلے پر رینگنے والے جانوروں کی نسل دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ایک تو پرندوں کی نسل نمودار ہوئی جو اپنے اجداد کی طرح انڈے دے کر بچے نکالتے تھے اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کی قسمیں پیدا ہوئیں ۔ دودھ دینے والے جانوروں آج سے تقریباً 15 کروڑ سال قبل وجود میں آئے تھے ۔ یہ چونکہ یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکتے تھے اور کافی عرصہ ان کی خوراک اور نگہداشت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتے تھے ۔ لہذا ان میں سب زیادہ ترقی اور تنوع پیدا ہوا اور یہ قسم باقی قسموں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی ۔ دودھ دینے والے جانوروں کی مزید ترقی کا زمانہ ’ نئی حیات کا زمانہ ‘ ) سینون زونیک ( کہلاتا ہے ۔ یہ ارتقائے حیات کا عظیم انشان زمانہ تھا ، جو آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل شروع ہوا ۔ اس زمانے کے کئی شیر دار جانوروں کے کوئی چھ کروڑ سال پرانے ڈھانچے دستیاب ہوچکے ہیں ۔ اس دور میں شیر دار جانوروں کی کئی شاخیں پھوٹیں ، جن میں ایک ترقی کرکے مانس Ape بنی ۔ جس نے آگے چل کر انسان کو جنم دیا ۔ قدیم مانس اور آج کل کے مانس اور بندر میں فرق یہ ہے کہ قدیم مانس prosimian کے 32 دانت تھے ۔ جب کہ موجودہ بندوروں 34 دانت ہوتے ہیں ۔ انسان قدیم مانس کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ موجودہ بندر کی نہیں ۔
 
سردی کے ساتھ چوتھی عظیم تبدیلی تبدیلی رونما ہوئی اور گرم خون والے جانداروں کی نئی نسل وجود میں آگئی۔ یہ مخلوق ہر قسم کے موسم میں اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک ہی سطح پر برقرار رکھ سکتی تھی ۔ اس مرحلے پر رینگنے والے جانوروں کی نسل دو حصوں میں تقسیم ہوگئیہوگئی۔ ۔ ایک تو پرندوں کی نسل نمودار ہوئی جو اپنے اجداد کی طرح انڈے دے کر بچے نکالتے تھے اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کی قسمیں پیدا ہوئیںہوئیں۔ ۔ دودھ دینے والے جانوروں آج سے تقریباً 15 کروڑ سال قبل وجود میں آئے تھےتھے۔ ۔ یہ چونکہ یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکتے تھے اور کافی عرصہ ان کی خوراک اور نگہداشت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتے تھےتھے۔ ۔ لہذا ان میں سب زیادہ ترقی اور تنوع پیدا ہوا اور یہ قسم باقی قسموں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئیہوئی۔ ۔ دودھ دینے والے جانوروں کی مزید ترقی کا زمانہ ’ نئی حیات کا زمانہ ‘ ) سینون زونیک ( کہلاتا ہےہے۔ ۔ یہ ارتقائے حیات کا عظیم انشان زمانہ تھا ،تھا، جو آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل شروع ہواہوا۔ ۔ اس زمانے کے کئی شیر دار جانوروں کے کوئی چھ کروڑ سال پرانے ڈھانچے دستیاب ہوچکے ہیںہیں۔ ۔ اس دور میں شیر دار جانوروں کی کئی شاخیں پھوٹیں ،پھوٹیں، جن میں ایک ترقی کرکے مانس Ape بنیبنی۔ ۔ جس نے آگے چل کر انسان کو جنم دیادیا۔ ۔ قدیم مانس اور آج کل کے مانس اور بندر میں فرق یہ ہے کہ قدیم مانس prosimian کے 32 دانت تھےتھے۔ ۔ جب کہ موجودہ بندوروں 34 دانت ہوتے ہیںہیں۔ ۔ انسان قدیم مانس کی ترقی یافتہ شکل ہےہے۔ ۔ موجودہ بندر کی نہیں ۔
<big>ارتقائ کی رفتار</big>
 
== ارتقاء کی رفتار==
بحثیت مجموعی ارتقائ کا عمل نہایت سست رفتار ہے ۔ جس کو سالوں یا صدیوں کے حوالے سے نہیں سمجھا جاسکتا ۔ مختلف اجسام میں ارتقائ کی رفتار مختلف ہے ۔ بعض چیزوں میں تو کروڑوں سالوں میں کوئی
ارتقائ نہیں دیکھنے میں آیا اور بعض چیزوں میں دس بیس لاکھ سال میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ جس نے ان کی کایا پلٹ دی ہے ۔ تاہم کچھ بھی ہو ارتقائ کو ماپنے کا پیمانہ لاکھوں کروڑوں سالوں کا پیمانہ ہے ۔ مثلاً بعض سیپیاں چالیس کروڑ سال قبل اسی شکل میں تھیں ہیں جیسی آج ہیں اور بعض جھینگے کوئی بیس کروڑ سال سے جوں کے توں ہیں اور اپاسم ) چوہے کی ایک قسم ( ساڑھے سات کروڑ سال سے اپنی حالت پر قائم ہیں ۔ اس کے برعکس بعض شیر دارو نے انتہائی تیز رفتاری سے اپنے آپ کو ترقی دی ۔ ، جن کی فہرست کافی طویل ہے ۔ انہی میں انسان کے اجداد بھی ہیں ، جو آج سے پچاس لاکھ سال قبل ’ کھڑے انسانی مانس ‘ ( ہوموارکٹس ) کی شکل میں تھے ۔
 
بحثیت مجموعی ارتقائارتقاء کا عمل نہایت سست رفتار ہےہے۔ ۔ جس کو سالوں یا صدیوں کے حوالے سے نہیں سمجھا جاسکتاجاسکتا۔ ۔ مختلف اجسام میں ارتقائارتقاء کی رفتار مختلف ہےہے۔ ۔ بعض چیزوں میں تو کروڑوں سالوں میں کوئی
<ref>یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور</ref>
ارتقائارتقاء نہیں دیکھنے میں آیا اور بعض چیزوں میں دس بیس لاکھ سال میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہےہے۔ ۔ جس نے ان کی کایا پلٹ دی ہےہے۔ ۔ تاہم کچھ بھی ہو ارتقائارتقاء کو ماپنے کا پیمانہ لاکھوں کروڑوں سالوں کا پیمانہ ہےہے۔ ۔ مثلاً بعض سیپیاں چالیس کروڑ سال قبل اسی شکل میں تھیں ہیں جیسی آج ہیں اور بعض جھینگے کوئی بیس کروڑ سال سے جوں کے توں ہیں اور اپاسم ) چوہے کی ایک قسم ( ساڑھے سات کروڑ سال سے اپنی حالت پر قائم ہیںہیں۔ ۔ اس کے برعکس بعض شیر دارو نے انتہائی تیز رفتاری سے اپنے آپ کو ترقی دی ۔ ،۔، جن کی فہرست کافی طویل ہےہے۔ ۔ انہی میں انسان کے اجداد بھی ہیں ،ہیں، جو آج سے پچاس لاکھ سال قبل ’ کھڑے انسانی مانس ‘ ( ہوموارکٹس ) کی شکل میں تھےتھے۔ ۔
<ref> شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا</ref>
 
== مزید دیکھیے ==
* [[ارتقائی نفسیات]]
* [[وراثیات]]
 
== حوالہ جات ==
<ref># یحیٰی امجدامجد۔ ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور</ref>
<ref># شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا</ref>
 
{{Commonscat|Evolutionary biology}}
[[زمرہ:فلسفہ حیاتیات]]
[[زمرہ:ارتقائی حیاتیات]]