"تصوف" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: القاب) |
clean up, typos fixed: دیئے ← دیے (3), کیلئے ← کے لیے (14), صلی اللہ علیہ وسلم ← صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (5) using AWB (ٹیگ: القاب) |
||
سطر 2:
'''تصوف''' کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوب{{زیر}} عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیاء) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس <ref>[http://www.irfan-ul-quran.com/quran/ur.php?contents=sura&ar=1&ur=1&en=1&sid=62#2 القرآن، سورۃ الجمعۃ، آیت 2]</ref> اور حدیث کی اصطلاح میں احسان <ref name=tazkiyah>صوفیوں کی جانب سے اکثر استعمال کی جانے والی [http://minhajbooks.com/books/index.php?mod=btext&cid=2&bid=35&btid=499&read=txt&lang=ur#ihsan لفظ احسان کے بارے میں حدیث]</ref> کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علماء کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علماء نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
{{اقتباس|مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں جسم کے لیئے معیاری خطوط{{زیر}} راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقہی کہلائے ، اور وہ جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم [[مہم|مہم (task)]] ، درست فہم تک رسائی کیلئے[[عقل]] کی تربیت ہے وہ پھر تین مکتبوں میں تقسیم ہوئے ۔ ماہرین [[
ان مذکورہ بالا دو تعریفوں کے علاوہ بھی تصوف کی بے شمار تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔
{{Clear}}
سطر 10:
تصوف کا لفظ ، اسلامی ممالک (بطور خاص [[برصغیر]] ) میں [[روحانیت]] ، ترکِ دنیا داری اور [[اللہ]] سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علماء میں اس سے معترض اور متفق ، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں؛ کچھ کے خیال میں تصوف [[شریعت]] اور [[قرآن]] سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیئے [[قرآن]] و [[شریعت]] سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو [[بدعت]] کہتے ہیں اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں یعنی ان دونوں (تصوف موافق و تصوف مخالف) افراد کے گروہوں کے نزدیک تصوف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ دوسری جانب وہ افراد ، عالم یا محققین (مسلم اور غیرمسلم) کہ جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مسلمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے<ref name=distorted>Tasawwuf - the distorted image [http://www.inter-islam.org/faith/Tswfdstd.html انٹراسلام . آرگ نامی موقع]</ref>۔
==کوزے میں دریا==
ایک مضمون میں تمام پہلوؤں کو شامل کرنے
* تصوف کا تصور مختلف فرقوں کے مابین متنازع کیوں ہے؟
تصوف آج صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں رہا بلکہ غیرمسلم دنیا میں بھی صوفیت (sufism) اپنی جگہ بنا چکا ہے، تو پھر غیرمسلم اس تصوف کو کس انداز میں دیکھتے ہیں؟ کیا غیرمسلموں کے نزدیک تصوف کوئی اسلامی چیز ہے یا اسلام سے الگ؟ کیا تصوف کو اسلامی [[غامضیت]] (islamic [[معرفت]]) کہا جاسکتا ہے؟ اور کیا تصوف کو حقیقی یا جھوٹی (کاذب) اقسام میں تقسیم کر کہ دیکھا جاسکتا ہے؟ تصوف اور اسلام میں فرق ہے؟ پھر تصوف کے شعبے کی اہم شخصیات (صوفیاء کرام) ان کی تحاریر و کتب اور ان کتب کے (منفی و مثبت) اثرات کا جائزہ لینا۔
* کیا [[:زمرہ:فقہی آئمہ|فقہی آئمہ (امامیان)]] کے ہاں تصوف کے بارے میں خیالات ملتے ہیں؟
کیا تمام فقہی آئمہ کرام تصوف پر ایک جیسے افکار بیان کرتے ہیں؟ اور سب سے اہم پہلو یہ کہ اسلامی معاشرے میں رہنے والا ایک عام شخص (جس کا کوئی دینی یا تاریخی مطالعہ نہ ہو) تصوف کو کس انداز سے دیکھتا ہے؟ مزید یہ کہ تصوف میں غیراسلامی افکار ، تصوف سے اسلام میں پیدا ہونے والے فرقہ جات اور تصوف کا سہارا لے کر نمودار ہونے والے جھوٹی نبوت کے دعو{{ا}}ی داروں پر ایک نظر۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک ہی مضمون میں بیان کرنا مقصود ہو تو پھر ان تمام پہلوؤں کا صرف ایک تعارف اور مزید تحقیق
==نظریاتِ آغاز==
مسلم و غیرمسلم محققین نے [[اسلام]] میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کئے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔
===داخلیتِ اسلام===
اسلام پر علامہ (scholar) کہلائے جانے والے ایک [[فرانسیسی]] [[لوئی ماسینیؤن|لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon)]] عہد بمطابق ([[1883ء]] تا [[1962ء]]) نے تصوف کو ---- داخلیتِ اسلام ---- قرار دیا ہے ، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا؛ اس کے مطابق [[قرآن]] کی مسلسل تلاوت (تکرار)، [[مراقبہ]]، اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا (ہوئی) اور بڑھی<ref>Louis Massignon, Essai sur les origines du lexique technique de la mystique musulmane ISBN
===باطنیتِ کلام===
اسلام ایک کامل دین ہونے کے ناطے انسانی [[حیات|زندگی]] کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان ان پہلوؤں کو تین اقسام میں دیکھتے ہیں؛ [[جسم|جسمانی]] ، [[عقل|عقلی]] اور [[روح|روحانی]] پہلو؛ یہ تیسرا پہلو ہی ہے کہ جس پر [[اختصاص|اختصاص (specialization)]] حاصل کرنے والوں کو صوفی کہا جانے لگا<ref>Mysticism in Islam; William C. Chittick [http://meti.byu.edu/mysticism_chittick.html موقع روئے خط]</ref>۔ اسی بات کو تصوف سے تعلق رکھنے والے علماء بھی ایک حدیث کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ جس میں اسلامی تعلیمات کے ان تین پہلوؤں کا ذکر آتا ہے اور احسان (excellence) کے بارے میں عبارت یوں ہے
* احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے<ref name=tazkiyah/>۔
تصوف
===ردعملِ دنیا پرستی===
حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]]{{رض}} کے زمانے سے تیزرفتاری سے وسعت اختیار کرنے والی اسلامی حکومت میں نومسلمین (غیرعرب) کی کثیر تعداد شامل ہوتی جارہی تھی جس بارے میں صحابہ اور علماء ہمیشہ فکرمند بھی رہتے تھے کہ اچانک اسلام سے آشنا ہونے والے نومسلمین کی تربیت کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے کہ اسلامی افکار میں ان علاقوں کے قبل از اسلام کے افکار شامل نہ ہونے پائیں جو نئے فتح ہوئے تھے۔ [[661ء]] میں حضرت [[علی بن ابی طالب|علی]]{{رض}} کی شہادت کے بعد، امت کے افکار میں افتراق وسیع ہونے لگے۔ [[خلافت راشدہ]] کے بعد آنے والے حکمران اپنے پیشروؤں جیسی اسلامی حکومت کی مثال قائم نہ رکھ سکے اور متعدد علماء ان سے بدظن ہونے لگے۔ یہ علماء ، مسلمانوں میں آنے والی دولت و آسائش طلب زندگی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ابتدائی اسلام کی سادہ گذربسر کی تعلیمات پر زور دیتے تھے؛ ان میں [[حسن البصری]]<ref>words of ecstasy in sufism by carl w. ernst</ref> اور [[ابو ھاشم الصوفی|ابو ھاشم]] جیسے علماء شامل ہیں اور علماء کی دنیاداری سے دور رہتے ہوئے زاہدانہ زندگی کا اختیار کرنا آگے چل کر تصوف کی صورت میں نمو پایا؛ ابو ھاشم کو وہ پہلا شخص کہا جاتا ہے کہ جن کو ان کے بعد آنے والوں نے صوفی کا لقب دیا<ref name=firstsufi/>۔
===حبسِ اسلامِ راسِخ===
ایک نظریہ جو بطور خاص تصوف سے شغف اور اسلام سے بغض رکھنے والے غیرمسلم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ؛ تصوف اصل میں [[اسلامِ راسِخ]] (orthodox islam) کی پابندیوں ، اپنے نفس پر قابو رکھنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے عقیدے کو مضبوط رکھنے
==مختلف فرقے، مختلف تعریفیں==
سطر 42:
==صوفی کی اصل الکلمہ==
جیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو کہ نویں صدی عیسوی (قریبا{{دوزبر}} 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا
===اصحابِ صُفّہ===
تصوف سے شغف رکھنے والے علماء اکرام ، لفظ صوفی کی [[اشتقاقیات|اصل الکلمہ]] ، [[اصحاب صفہ]] سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر {{جسامتعر|130%|(صِفَة)}} کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید {{جسامتعر|130%|(صُفَّة)}} کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ [[مسجد نبوی]] کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ ، فقراء ، تارک{{زیر}} دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لئے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے<ref name=wikiarticle>اردو ویکیپیڈیا پر ہی ایک مضمون [[تصوف لغوی مباحث]] ، (گو مضمون اصلاح طلب ہے)</ref>۔ [[امام ابن تیمیہ]] کے مطابق حضرت [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]{{ص}} نے اصحاب{{رض}} کو سوال کرنے سے بالکل منع کردیا تھا یعنی اصحاب صفہ ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نا ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات ([[حال]] ، [[وجد]] وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نا ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح [[جہاد]] میں بھی شریک ہوا کرتے تھے<ref>اصحابِ صُفّہ اور تصوف کی حقیقت از امام ابن تیمیہ ؛ ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی : المکتبۃ السلفیۃ ۔ شیش محل روڈ لاہور</ref> مزید یہ کہ [[لسانیات|علم لسانیات]] کے مطابق ، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ [[اعراب]] کے کی رو سے لفظ صفہ سے {{جسامتعر|130%|صُفّی}} (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے<ref name=saleh>Sufism, Origin and Development by Dr. Saleh As-Saleh [http://islamic-knowledge.com/Books_Articles/Deviant_Path__Sufism__Origin_and_Development__Dr_As-Saleh.pdf (روئے خط ، پی ڈی ایف ملف)]</ref>۔
سطر 55:
* قبل از اسلام کے زمانۂ جاہلیت سے انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور صوفیاء کی جانب سے ایسا انتخاب ممکن نظر نہیں آتا۔
===سوفیہ===
سوفیہ اصل میں ایک [[يونانی|یونانی]] لفظ ، sophos سے لیا گیا ہے جس کے معنی [[حکمت]] اور فارسی متبادلِ تصوف کی اصطلاح کے مطابق [[عرفان]] کے ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے [[حکمت یزدانی|تھیو صوفی (theosophy)]] کو اردو میں حکمت یزدانی کہا جاتا ہے۔ اس اصل الکلمہ کا تذکرہ سب سے پہلے [[ابو ریحان البیرونی|البیرونی]] سے روایت کیا جاتا ہے<ref name=saleh/>۔ اس کو رد کرنے والے محققین کے نزدیک ، ادبی طور پر یا فقۂ لسانیات (philology) کے لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق sophos کو یونانی میں لکھنے
===الصّفاء===
سطر 67:
==تفرقِ ظاہریت و باطنیت==
ایک لفظ جو کہ تصوف میں بکثرت استعمال ہوتا ہے وہ ہے باطنیت (esotericism) کا لفظ اور اس کو ظاہری زندگی یعنی ظاہریت (exotericism) سے اندرونی زندگی کو الگ شناخت دینے کیلئےاختیار کیا جاتا ہے، گو ظاہری زندگی سے یوں تو مراد دنیاوی زندگی کی لی جاسکتی ہے اور عام انسان اس سے وہ زندگی لے سکتا ہے جو کہ مذہبی زندگی (عبادت کے اوقات) سے علاوہ ہو لیکن تصوف میں ایک صوفی کی مراد اس ظاہری زندگی سے اس زندگی کی ہوتی ہے جو غیر صوفی بسر کرتے ہیں۔ [[جنید بغدادی|جنید]] ([[830ء]] تا [[910ء]]) کے مطابق صوفی ، خود
==صوفیت اور اسلام==
صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی<ref name=batin/>۔ ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چند صحابہ [[عبداللہ بن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر صدیق]] ، [[علی بن ابی طالب|حضرت علی]] ، اور [[حضرت ابوذر]] کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔
* [[شریعت]]
* [[طریقت]]
* [[حقیقت]]
* [[معرفت]]
جب تک یہ تمام درجات اپنے درست مقام پر حاصل نہ کئے جائیں اس وقت تک انسان صوفی نہیں ہو سکتا۔ شریعت اسلام کا ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن۔ اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی منافقین مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے جو ظاہر میں تو ہر وہ عمل کرتے تھے جس کے کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے جیسے کہ نماز روزہ، جہاد وغیرہ مگر دل ہی دل میں وہ کافروں کے ساتھ تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ان کے سب حالات معلوم تھے اور بعض اوقات تو اکابر صحابہ کی جانب سے بھی ان کو قتل کر دینے تک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے جان و مال کو بالکل اسی طرح محفوظ رکھا جیسے کہ کسی مسلمان کا رکھا جاتا ہے یہاں پر ان کے ظاہر پر حکم لگایا گیا ہے جو کہ شریعت ہی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ظاہر میں نماز روزے کی پابندی اور دیگر فرائض ادا کرتا ہے تو زبان شریعت میں اسے کوئی کافر نہیں کہہ سکتا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی اور اس بارے میں سورۃ المنافقین بھی اتری جس من ان کی نیتوں کو بے نقاب کر دیا گیا تو طریقت کے اعتبار سے یہ لوگ کافر ہیں اور ہمیشہ جہنمی ہیں مگر ان کے اس ظاہر کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی قاضی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا اور کوئی مفتی ان کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر اہل اللہ اور اولیاء اللہ اپنے باطنی نور سے ان کی حقیقت معلوم کر لیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے شرور سے متنبہ کر دیتے ہیں۔
==اسلام اور صوفیت==
سطر 87:
اس قطعے میں معروف صوفیاء کو ترتیب زمانی کے لحاظ سے تحریر کیا جارہا ہے؛ عام تاثر کے برعکس تصوف کو خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے صوفیاء میں صرف مسلم صوفیاء اکرام ہی نہیں ہیں بلکہ ہندومتی ، بدھ متی اور دیگر ادیان کے غیرمسلم صوفیاء اکرام بھی شامل ہیں۔
===مسلم صوفیاء اکرام===
درج ذیل میں معروف صوفیاء اکرام کی ایک مختصر فہرست بلحاظ{{زیر}} ترتیبِ زمانی دی جارہی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہنا کہ پہلا صوفی کون تھا شاید مشکل ہے لیکن متعدد علماء کی نظر میں سب سے پہلے لفظ صوفی کو [[ابو ھاشم الصوفی|ابو ھاشم]] (وفات : [[763ء]] ؟)
{| style="float: right; border-top:1px solid #bfb6a3; border-right:1px solid #bfb6a3; border-bottom:1px solid #bfb6a3; border-left:1px solid #bfb6a3;" cellpadding="5" cellspacing="0"
|-
سطر 115:
|}
{{Clear}}
مذکورہ بالا فہرست میں شامل صوفیاء کے نظریات
===غیر مسلم صوفیاء اکرام===
سطر 140:
==کتب تصوف==
* [[ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری|امام قشیری]] کا رسالہ قشیریہ
* [[شيخ عبدالقادر جيلانی]] کی فتوح الغیب اور فتح الربانی
* [[داتا گنج بخش]] کی کتاب [[کشف المحجوب]]
* [[شیخ شہاب الدین سہروردی]] کی [[عوارف المعارف]]
* [[ابن العربی (صوفی)|ابن عربی]] کی [[فصوص الحكم]] اور [[فتوحات مکیہ]]
==کائناتی تصوف==
[[کائناتی تصوف|کائناتی تصوف (universal sufism)]] کو ایک ایسا شعبۂ [[فلسفہ|فلسفۂ]] [[دماغ|دماغِ]] [[انسان|انسانی]] و [[نفس|نفسانی]] کہا جاسکتا ہے کہ جو مذہب اسلام کی تعلیمات کو انسانی خواہشات و تخیلات کے مطابق ڈھال کر اسلام کو اسلام سے نفرت کرنے والے اذہان
==مشہور صوفی شعرا==
سطر 168:
==تناسخ و تصوف==
{{اس}} [[اہتجار|آواگون (transmigration)]]
اہتجار یا آواگون (اور بعض اوقات [[تناسخ|تناسخ (reincarnation)]] یا [[حول (طب)|حول]]) کے نظریات صوفیاء کی تعلیمات میں ملتے ہیں<ref name=david>What is sufism [http://www.davidberryart.com/articles/sufism.html (روئے خط مضمون)]</ref>
{{اقتباس|یہ انسانی پیدائش ہے، جس میں ہم الہامی تجزیاتی عقل رکھتے ہیں، شعور کی چھٹی حس۔ یہ عقل ہمیں صحیح اور غلط کے مابین تفریق کے قابل بناتی ہے ۔۔۔ اگر ایک انسانی زندگی ختم ہو جائے اور دوبارہ پیدا ہو، خواہ صرف ایک بار، تو اس کی قدر (و قیمت) کمتر ہو جاتی ہے۔ چھٹی حس اور صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے، اور اگلی بار کی پیدائش پر شعور کی (صرف) پانچ حسیں ملتی ہیں۔<br>This is the human birth, in which we have divine analytic wisdom., the sixth state of consciousness. This wisdom enables us to discriminate between what is right and what is wrong . . . If a human life dies and is reborn, even once, its value decreases. The sixth level of consciousness and the ability to discriminate is reduced, and in the next birth one will have five levels of consciousness}}
==تجاوز و فتاویٰ==
تصوف کا ظاہر بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نت نئی اختراعات اور [[فلسفیوں]] کے افکار مبالغانہ سے سیراب ہوکر طرح طرح کی شکلوں میں تبدیل ہوتا رہا مگر ان لوگوں کا تصوف سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ کیا تم نے ناچ گانا اور تالیاں بجانا ہی اپنا مذیب بنا رکھا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو کہ [[ڈھول]] ڈبے بجانے اور جھومنے اور [[ناچنے]] سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنے آپ کو پہنچے ہوئے تصور کرتے ہیں یہ شیطان تک ہی پہنچے ہیں اور شیطان ہی ان پر وجی کرتا ہے جس کو یہ تحلی حق سمجھتے ہیں۔ <br />
تصوف کی اس موجودہ بگڑی ہوئی شکل سے کے بارے میں اسلام کے علماء اکرام نے منتبہ کیا ہے کہ تصوف کی اس حد سے تجاوز کردہ بگڑی ہوئی شکل سے دور رہا جائے۔ Islamweb کے مرکز فتویٰ سے جاری کیا جانے والا ایک [[
* ابتداء میں صوفیاء کا خطاب ان لوگوں کو دیا جاتا تھا کہ جو خود کو اللہ کی عبادت میں مصروف رکھتے تھے اور زاہدوں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ <ref>Mohammedan Confraternities at Catholic Encyclopedia [http://www.newadvent.org/cathen/10422b.htm اسلام کی تاریخ اور ابتدائی تصوف کا ذکر]</ref>
* بعد میں صوفیت (عام طور پر تصوف کے متبادل ادا کیا جاتا ہے) میں متدد [[بدعت|بدعتیں]] اور مبالغات حلول کر گئے اور فلسفیوں کے کئی ممنوع تفکرات نے اس میں جگہ بنالی ، جیسے [[وحدت الوجود]] ، [[باطنیت|باطنیت (esotericism)]] اور [[لادینی|لادینی (atheism)]] (ممکن ہے کہ اس فتوی میں atheism [[دہریت|دھریت]] یا انحراف کے معنوں میں آیا ہو) جن کے بعد یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ان سے گذرنے کے بعد ایک حد وہ آتی ہے کہ جب وہ شخص اسلام کی پیروی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے؛ ارشاد الملوک (مولانا عاشق الہی مراٹھی) کے مطابق ذکر
==کاذب تصوف==
سطر 182:
==اسلام کا پھیلاؤ اور تصوف==
اسلامی افکار کو دیگر مذاہب کے اشخاص تک پہنچانے کا پرامن طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے صوفیاء نے اسلام کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ؛ گو یہ اور بات ہے کہ حقیقتاً دیگر مذاہب پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ، تصوف میں بھی ان دیگر مذاہب کے افکار شامل کر کے اس کو اسلام کا نام
==بلا جواب ، سوال==
تمام تر تصوف سے متعلق کتب و [[موقع]] [[روئے خط|ہائے روئے خط]] میں کسی نا کسی الفاظ میں ایک بات کا تذکرہ لازمی شامل ہوتا ہے (حوالہ
جواب:صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار تشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت کردیا ہے کہ صوفیت کا دراصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ بلکہ یہ فارسی نظریہ حلول اور ہندو آواگون ، تناسخ کا قائل ہے ۔جیسے بلھے شاہ کہتا ہے ۔ گل سمجھ لئی تے رولا کی ۔ اے رام رحیم تے مولا کی ۔ اسی وجہ سے صوفی اور بھگت زیادہ تر فارس اور ہندوستان کے علاقوں میں ہی پیدا ہوئے ۔ عرب میں ان کا کوئی نام نہیں ۔ ہندوستان میں سکھ مذہب کے بانی بھی صوفی ہیں ۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ گرو صاحب لکھنے والوں میں 10 سکھ، چند ہندو بھگت اور 15 مسلمان کہلانے والے صوفیاء شامل ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوفیت اسلام ہے تو اس کتاب کے ماننے والے اور اس کو مقدس جاننے والے اپنے آپ کو مسلمان کیوں نہیں کہتے ۔ ؟؟؟<br />
دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے ۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا ، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے ۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات ، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے ۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارہ نہ تھا ۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انہیں عزت دینا شروع کی ۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی ۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمامہ دین اکبری ایجاد کیا ۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا ۔ گرو گرنتھ لکھی گئی ۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو ، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انہوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا ۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انہیں گمراہ کیا ۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی ، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے ۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں ۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی ، شاولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا۔<br />
صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار تشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت کردیا ہے کہ صوفیت کا دراصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ بلکہ یہ فارسی نظریہ حلول اور ہندو آواگون ، تناسخ کا قائل ہے ۔جیسے بلھے شاہ کہتا ہے ۔ گل سمجھ لئی تے رولا کی ۔ اے رام رحیم تے مولا کی ۔ اسی وجہ سے صوفی اور بھگت زیادہ تر فارس اور ہندوستان کے علاقوں میں ہی پیدا ہوئے ۔ عرب میں ان کا کوئی نام نہیں ۔ ہندوستان میں سکھ مذہب کے بانی بھی صوفی ہیں ۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ گرو صاحب لکھنے والوں میں 10 سکھ، چند ہندو بھگت اور 15 مسلمان کہلانے والے صوفیاء شامل ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوفیت اسلام ہے تو اس کتاب کے ماننے والے اور اس کو مقدس جاننے والے اپنے آپ کو مسلمان کیوں نہیں کہتے ۔ ؟؟؟
دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے ۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا ، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے ۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات ، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے ۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارہ نہ تھا ۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انہیں عزت دینا شروع کی ۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی ۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمانہ دین اکبری ایجاد کیا ۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا ۔ گرو گرنتھ لکھی گئی ۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو ، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انہوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا ۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انہیں گمراہ کیا ۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی ، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے ۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں ۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا ۔۔
تصوف پرچند اعتراضات کے جوابات:مشہور حدیث ، حدیث ِجبرائیل میں دین کے شعبے بتائے گئے ہیں۔ جس میں پہلا شعبہ عقائد ، دوسرا اعمال اور تیسرا احسان ہے۔ یہ تینوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں بھی موجود تھیں۔ لیکن بعد میں علومِ عقائد کے ماہرین کا نام متکلمین، اعمال کے طریقہء کار کے ماہرین کا نام فقہاء اور اور احسان کے فن کو تصوف کہا جانے لگا۔ لیکن نام جو بھی رکھ لیا جائے ،ہمیں تو کام سے غرض ہونی چاہیے۔ اور تصوف کاکام خلوصِ دل کے ساتھ شریعت پر عمل کرانا ہے۔ تصوف کا یہ مقصد شروع سے ہی یہی رہا ہے اور آئندہ بھی یہی رہے گا چاہے اس کا نام جو بھی رکھ لیا جائے۔ ہاں ایک بات جو تصوف میں تغیر پذیر ہے اس کو ذرائع تصوف کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ،صوفیاء اصلی مقصد کے حصول
(www.tazkia.org)
==تصوف کے مشہور سلاسل ==
{{مکمل مضمون|تصوف کے سلاسل}}
تصوف کے مشہور سلاسل مندرجہ ذیل ہیں :
*[[سلسلہ قادریہ]]
* [[سلسلہ نقشبندیہ]]
سطر 202:
==حوالہ جات==
جہاں تک ممکن ہوسکا ، [[
{{حوالہ جات|2}}
{{موضوعات مذاہب}}
[[Category:مذہبی اصطلاحات]]▼
[[Category:تصوف]]▼
[[زمرہ:سنی اسلامی تحریکیں]]
[[زمرہ:ترکی میں اسلام]]
[[زمرہ:پنجاب میں اسلام]]
|