"سورہ الاعلیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ مساوی زمرہ جات (22): + زمرہ:سورتیں |
clean up, replaced: ابتدائ ← ابتدائی using AWB (ٹیگ: القاب) |
||
سطر 27:
== زمانۂ نزول ==
اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل
== موضوع اور مضمون ==
سطر 33:
اس چھوٹی سی سورت کے تین موضوع ہیں۔ [[توحید]]، نبی {{درود}} کو ہدایت اور [[آخرت]]۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اس کو کسی ایسے نام سے یاد نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں ان سب کی جڑ اللہ تعالٰی کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اس ذات پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف ان [[اسماء اللہ الحسنیٰ|اسماء حسنٰی]] ہی سے یاد کیا جائے جو اس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
اس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمہارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے [[کائنات]] کی ہر چیز کو پیدا کیا، اس کا تناسب قائم کیا، اس کی تقدیر بنائی، اسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے اس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ [[زمین]] پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انہیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔
پھر دو آیتوں میں رسول اللہ {{درود}} کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا جا رہا ہے، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے میں محفوظ کر دینا ہمارا کام ہے، اور اس کا محفوظ رہنا آپ کے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم چاہیں تو اسے بھلا دیں۔
اس کے بعد رسول اللہ {{درود}} سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے سپرد ہر ایک کو راہ راست پر لے آنے کا کام نہیں کیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے، اور تبلیغ کا سیدھا سادا طریقہ یہ ہے کہ جو نصیحت سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہو اسے نصیحت کی جائے اور جو اس کے لیے تیار نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ جس کے دل میں گمراہی کے انجامِ بد کا خوف ہوگا وہ حق بات کو سن کر قبول کر لے گا اور جو بدبخت اسے سننے اور قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اپنا برا انجام خود دیکھ لے گا۔
آخر میں کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ فلاح صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں، اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں ساری فکر بس اسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کی نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں بدرجہا بڑھ کر ہیں۔ یہ حقیقت صرف قرآن ہی میں نہیں بتائی جا رہی ہے، بلکہ حضرت [[ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]] اور حضرت [[موسیٰ علیہ السلام|موسٰی]] علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا۔
{{سورت
سطر 48:
|[[الغاشیہ]]
}}
[[زمرہ:سورتیں]]
|