"سورہ بقرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
clean up, replaced: ابتدائ ← ابتدائی (4) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 22:
== نام اور وجہ تسمیہ ==
 
اس سورت کا نام "بقرہ" اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کئے جاسکتے۔ [[عربی زبان|عربی]] زبان اگرچہ لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے مگر بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی۔ انسان جو زبانیں بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں جو ان وسیع مضامین کے لئے جامع عنوان بن سکتے ہوں۔ اس لیے نبی {{درود}} نے اللہ تعالٰی{{ا}} کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں۔ اس سورت کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ "وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے"۔
 
== زمانۂ نزول ==
 
اس سورت کا بیشتر حصہ [[ہجرت مدینہ]] کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائیابتدائیی دور میں نازل ہوا ہے اور کمتر حصہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کردیا گیا۔ حتی{{ا}} کہ [[سود]] کی ممانعت کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی {{درود}} کی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں اتری تھیں۔ سورت کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوچکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اس سورت میں ضم کردیا گیا۔
 
== شان نزول ==
سطر 32:
اس سورت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے:
 
* [[ہجرت]] سے قبل جب تک [[مکہ]] میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی خطاب بیشتر مشرکین عرب سے تھا جن کے لئے اسلام کی اواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ [[یہودی|یہودیوں]] سے پیش آیا جن کی بستیاں [[مدینہ منورہ|مدینے]] سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے، اس ضابطۂ شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی [[موسی{{ا}} علیہ السلام]] پر نازل ہوا تھا اور اصولا{{دوزبر}} ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت [[محمد {{درود}}]] دے رہے تھے لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور ہٹادیا تھا۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی جن کے لئے [[توریت|تورات]] میں کوئی سند موجود نہ تھی۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے تورات میں کوئی ثبوت نہ تھا۔ خود تورات کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کردیا تھا اور خدا کا کلام جس حد تک لفظا{{دوزبر}} یا معنی{{دوزبر}} محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے علماء اور مشائخ، ان کے سرداران{{زیر}]} قوم اور ان کے عوام، سب کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو اتنی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہورہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں، استخواں گیری و مغز افگنی، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام "مسلم" تک بھول گئے تھے، محض "یہودی" بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض [[بنی اسرائیل|نسل اسرائیل]] کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا۔ پس جب نبی {{درود}} مدینہ پہنچے تو اللہ تعالٰی{{ا}} نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں چنانچہ سورۂ بقرہ کے ابتدائیابتدائیی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصوصیات کے مقابلے میں حقیق دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی امت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے، رسمی دینداری کے مقابلے میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے، دین{{زیر}} حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیت کن چیزوں کی ہے۔
 
* مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی مکے میں تو معاملہ صرف اصول دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود تھا مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کرچکے تھے، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور [[انصار]] کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالٰی{{ا}} نے تمدن، معاشرت، معیشت، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اصول ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام{{زیر}} زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے۔ اس سورت کے آخری 23 رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں جن میں اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسب ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں
* ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جارہی تھی اور متفرق قبائل میں سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے ہور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختۂ مشق بنتے تھے مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہوکر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کرلی تو صورتحال یہ ہوگئی ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کردینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اولا{{دوزبر}} وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ثانیا{{دوزبر}} وہ مخالفین کا برسر{{زیر}} باطل ہونا اس لئے ثابت کردے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہ نہ رہے۔ ثالثا{{دوزبر}} بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنیاد پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہوگئی تھی اور جن خطرات میں چاروں طرف سے گھر گئے تھے ان میں وہ ہراساں نہ ہوں، بلکہ پورے صبر و ثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعا{{دوزبر}} وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلح مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامسا{{دوزبر}} ان میں اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا تھا، فہمائش سے قبول نہ کریں، تو انہیں جاہلیت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹادینے میں بھی تامل نہ ہو۔اللہ تعالٰی{{ا}} نے اس سورت میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائیابتدائیی ہدایات دی ہیں۔
 
* دعوت اسلامی کے اس مرحلے میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا اور یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائیابتدائیی آثار مکہ کے آخری زمانے میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس ک لئے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلک حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسم کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعا{{دوزبر}} اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعت مسلمین میں داخل ہوجاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفین{{زیر}} سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیت کے متردد تھے۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا مگر چونکہ ان کے قبیلے اور خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہوچکے تھے اس لئے یہ بھی مسلمان ہوگئے۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امر{{زیر}} حق کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہوچکے تھے مگر جاہلیت کے طریقے اور اوہام اور رسومات چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض و ذمہ داریوں کا بار اٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔
* ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جارہی تھی اور متفرق قبائل میں سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے ہور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختۂ مشق بنتے تھے مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہوکر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کرلی تو صورتحال یہ ہوگئی ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کردینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اولا{{دوزبر}} وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ثانیا{{دوزبر}} وہ مخالفین کا برسر{{زیر}} باطل ہونا اس لئے ثابت کردے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہ نہ رہے۔ ثالثا{{دوزبر}} بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنیاد پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہوگئی تھی اور جن خطرات میں چاروں طرف سے گھر گئے تھے ان میں وہ ہراساں نہ ہوں، بلکہ پورے صبر و ثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعا{{دوزبر}} وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلح مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامسا{{دوزبر}} ان میں اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا تھا، فہمائش سے قبول نہ کریں، تو انہیں جاہلیت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹادینے میں بھی تامل نہ ہو۔اللہ تعالٰی{{ا}} نے اس سورت میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں۔
 
* دعوت اسلامی کے اس مرحلے میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا اور یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکہ کے آخری زمانے میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس ک لئے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلک حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسم کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعا{{دوزبر}} اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعت مسلمین میں داخل ہوجاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفین{{زیر}} سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیت کے متردد تھے۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا مگر چونکہ ان کے قبیلے اور خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہوچکے تھے اس لئے یہ بھی مسلمان ہوگئے۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امر{{زیر}} حق کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہوچکے تھے مگر جاہلیت کے طریقے اور اوہام اور رسومات چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض و ذمہ داریوں کا بار اٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔
 
سورہ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہور کی محض ابتدا تھی اس لئے اللہ تعالٰی{{ا}} نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجیں گئیں۔
سطر 46 ⟵ 43:
|[[آل عمران]]
}}
 
[[زمرہ:سورتیں]]
[[زمرہ:سورہ بقرہ]]