"صحابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏حوالہ جات: اضافہ سانچہ/سانچہ جات
clean up, replaced: ابتدائ ← ابتدائی using AWB
سطر 1:
صحابی وہ ہے جس نے بحالتِ ایمان نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی، اگرچہ درمیاں میں ارتداد پیش آگیا ہو. <ref>{{حوالہ کتاب | نام = النخبة الفكر| مصنف = | صفحہ = صفحة ٨١| صفحات = | باب = | ناشر = | جلد = | مقام اشاعت = | تاریخ اشاعت = | سال اشاعت = }}</ref>
 
صحابی لفظ واحد ہے، اس کی جمع [[صحابی|'''صحابہ]]''' ہے۔ [[مذکر]] کے لئے صحابی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ [[مؤنث]] [[واحد]] کے لئے [[صحابی|'''صحابیہ]]''' اور [[جمع]] کے لئے [[صحابی|'''صحابیات]]''' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
== اصطلاحی معنی ==
صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے ،اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے بحالت ایمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سےرخصت ہوئے ہوں۔<ref>القاموس الفقہی،باب حرف الصاد:1/207 شیخ سعدی ابو حبیب </ref>
== قرآن مجید میں مقام صحابہ ==
 
سطر 53:
 
حافظ ابن عبدالبر نے "الاستیعاب" اور علامہ سفارینی نے "شرح الدرۃ المضیئہ" میں لکھا ہے کہ جمہور ِ امت کی رائے کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں۔
(مقدمۃ لاستیعاب تحت الاصابۃ:۱/۲)
 
صحابہ سے متعلق امت مسلمہ کو ہدایت
سطر 93:
==صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ==
 
صحابہ کرام کا مبارک زمانہ ابتدائےابتدائیے بعثت سے شروع ہوکر پہلی صدی کے آخر تک ختم ہوگیا اوراس طرح رسول اللہﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
"فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ"۔
(بخاری، کتاب موقیت الصلوٰۃ،بَاب السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ،حدیث نمبر:۵۶۶)
سطر 113:
 
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور آپ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردہ اور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرام پر پڑی ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرام کی پوری جماعت کی تقدیس وتعریف فرمائی ہے اور جماعت صحابہ کو مجموعی طور پر "رضی اللہ عنہم ورضو عنہ" فرمایا یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، صحابہ کرام راستہ پانے والے اور راستہ دکھانے والے ہیں ،اسی غرض سے آئندہ صفحات میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی سیرت کو پیش کیا جارہا ہے ۔
 
 
 
 
جماعت صحابہ میں کسی ایک کی بھی تنقیص و تحقیر پوری جماعت صحابہ کی تنقیص و تحقیر ہے کیونکہ یہ صحبت نبوت کی تنقیص و تحقیر ہے اسی بنا پر رسول اللہ {{درود}} نے ارشاد فرمایا۔
 
{{اقتباس|میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ان کو میرے بعد ہدف ملامت نا بنا لینا۔ پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا <ref> [[سنن ترمذی|صحیح ترمذی]] جلد2 ، صفحہ 226</ref>۔}}
 
</div>