"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 27:
 
==ادبی سفر==
ابتدا میں آپ تلگو زبان میں نظمیں لکھیں اس میں آپ کو کسی استاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ جتنی دلچسپی آپ کو ہندی اور تلگو زبان سے ہے اتنی ہی دلچسپی بلکہ یہ کہا جاے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سے بہت زیادہ دلچسپی [[اردو]]، [[فارسی]] اور [[عربی]] سے ہے ۔ اس نسبت سے آپ نے عربی و فارسی میں بنیادی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے کڈپہ کے جید عالم حضرت سید یعقوب صاحب باقوی قادری مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا ، پھر 19781978ء میں ڈپلومہ ان پرشین (Diploma in Persian ) کی سند حاصل کی ۔آپ کا شعری سفر غالباََ 1968ء کو ہوا ۔ علم عروض ، علم شعر و سخن کی فنی لوازمات حاصل کرنے کی غرض سے مشہور استادَ سخن ابر حسن گنوری کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا ۔ موصوف نے مختلف اصناف پر سہ زبانوں (اردو ، ہندی اور تلگو )میں اپنی تخلیقات شائع کیا ہے۔ جن کی تعداد پچیس ہیں ۔ "لہجے " آپ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو سنہ 19741974ء کو منظر عام پر آچکا ہے ۔ یہ ایک اشترکی شعری مجموعہ ہے ۔
 
==ساغرؔ جیدی کی غزل گوئی==
ساغرؔ جیدی کے کل تین غزلوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔1974ء میں ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کل پانچ شعراء کا اشتراکی مجموعہ ہے جس میں عقیل جامدؔ ، اشفاق رہبرؔ ، راہیؔ فدائی، ساغرؔ جیدی کی غزلیں اوریوسف صفیؔ کی نظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ضلع کڈپہ کی ادبی تاریخ میں جدید رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس مجموعہ کے ذریعہ ساغرؔ جیدی نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ جدیدیت کو اپنا نے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان شعراء نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قدم ملایا ہے اور اپنے اشعار میں جدیدیت کے تمام فنی لوازمات و قواعد کو اپنایا ہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’انتسللہ‘‘(اشتراکی مجموعہ)1978 ؁ء1978؁ء میں شائع ہوکر اہل ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ان کا تیسرا مجموعہ غزل ’’اثبات‘‘ ہے جو1991 ؁ء میں منظرِ عام پر آیا ہے، ان کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نئے الفاظ کی تراکیب کو اپنایا ہے اور اپنے خیالات و جذبات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا ہے۔
موصوف کی غزلوں میں نئے الفاظ کی تراکیب، علامت نگاری، اظہار بیان کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یوں تو ان کی شاعری موضوع ،اسلوب اور ہئیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی غزل میں علائم کی فراوانی پائی جاتی ہے ۔ندرت خیال پیش کرنے میں موصوف پیش پیش ہیں۔ مثلاً زاغِ ہوس، صداؤں کا ہتھوڑا، راتیں، ضیاء پتھروں کے درخت، قطراتِ شبنم، نبض شرر، پیاسی شعائیں وغیرہ جیسے الفاظ کی چُست بندش سے موصوف نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے، چند شعر ملاحظہ ہوں ؂
{{اقتباس|بھٹکتا رہے گا وہ تاریک شب میں