حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 20:
 
 
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
 
کوئی بتلاؤ، ہم بتلائیں کہ ہم کون ہیں
سطر 30:
 
Ailee[[صارف:203.128.27.220|203.128.27.220]] 12:50, 28 ستمبر 2007 (UTC)
 
خاکسار کو آصف کہتے ہیں، بہت پیار آ جاۓ تو آچھی بھی کہہ دیتے ہیں۔ اجی چھوڑیئے حضرت نام میں کیا رکھا ہے۔ آصف ہو یا کاشف، قمر ہو یا عمر، ذیشان ہو یا ریحان ۔۔۔ کون پوچھتا ہے کہ بچے کیا بننا چاہتے ہو۔ بس ہوش سمبھالا تو جانا کیے کہ محترم "آصف" بن گۓ ہیں۔ جاۓ وقوعہ کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی تاثرات رکھا کیے ہیں، کسی نے پوچھا ہی نہیں کہاں پیدا ہوا چاہتے ہو بچے، یا چاہتے بھی ہو۔۔۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوا کیا، ہم جھنگ میں اترے اور یہ بھی ستم ظریفی، جھنگ کو پاکستان میں ہی ہونا تھا۔ "ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے، یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا"۔
 
 
"محبت کرتے ہیں خود سے" حیران نہ ہویۓ صاحب بس بات صاف لکھ دی، سبھی یہی کرتے ہیں، کہتے نہیں ہیں۔ جب محبت خود سے ہوتی ہے تو اظہار اپنی چیزوں سے محبت کر کے ہوتا ہے۔ بس اسی لیے چاہتے ہیں اپنی چیزوں کو مثلا اپنے ملک کو جو پاکستان ہے (سوچتے ہیں ہندوستان ہوتا تو کیا ہوتا) یعنی کہ اپنی پہچان کو، اردو کو یعنی کہ اپنی زبان کو، اپنے رسوم و رواج کو۔ لیکن اس یتیم مسکین زبان کو اپنے ہی گھر میں کوئی نہیں پوچھتا تو پردیسی کیا چاہیں۔
 
 
جو زخم دیا پھولوں نے دیا کانٹوں سے شکایت کون کرے
 
جو درد دیا اپنوں نے دیا غیروں سے شکایت کون کرے
 
 
آپ سب کی طرح جب کچھ پڑھنا چاہا تو پردیسی لونڈیا (انگریزی) نے ہی ساتھ نبھایا۔ لیکن گھر کی اس دلہن کو جو برتن دھوتے دھوتے اور گھر کے کام میں پھنس کر گھر کی مرغی دال برابر ہو کر رہ گئي ہے کو دوبارہ سے سنوارنے کو دل بہت چاہتا ہے۔ اس لیے اردو وکیپیڈیا یا اس طرح کا کوئی بھی موقع ملتا ہے تو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ سو لکھنا شروع کر دیا، کہ شاید کبھی ہم بھی کہہ سکیں گے۔
 
 
ہم سینچتے ہیں کشت سحر اپنے لہو سے
 
مانگے ہوۓ سورج سے سویرا نہیں کرتے