"یروشلم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 64:
[[ملف:Dome of the Rock1.jpg|thumb| بیت المقدس شہر میں واقع مسجد جسے ‘‘ڈوم اوف راک‘‘ کہتے ہیں۔]]
 
یروشلم کا [[عربی زبان|عربی]] نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت الم{{زبر}}قد{{زیر}}س لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد [[ہیکل سلیمانی|ہیکل]] (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمقدش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا۔
 
بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں Jerusalem (یروشلم) کہتے ہیں۔ "بیت المقدس"سے مراد وہ "مبارک گھر" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ںنے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جب [[رومی سلطنت|رومیوں]] نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔
سطر 76:
حضرت [[یعقوب علیہ السلام]] نے وحی ال{{ا}}ہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقص{{ا}}ی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت [[سليمان علیہ السلام]] (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔
 
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہ [[بابی لیون|بابل]] (عراق) [[بخت نصر]] نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت [[عزیر علیہ السلام]] کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر [[اللہ]] نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔
 
[[بخت نصر]] کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ [[فارس]] [[روش کبیر]] ([[کورش اعظم|سائرس اعظم]]) نے [[بابل]] فتح کر کے [[بنی اسرائیل]] کو [[فلسطین]] واپس جانے کی اجازت دے دی۔ [[یہودی]] حکمران [[ہیرود اعظم]] کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔
 
137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور [[فلسطین]] سے جلا وطن کر دیا۔ [[چوتھی صدی]] عیسوی میں رومیوں نےعیسائیتنے[[عیسائیت]] قبول کر لیکرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔
 
== مسلم تاریخ ==
 
جب نبی کریم {{درود}} [[معراج]] کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے،2ھپہنچے، [[2ھ]] بمطابق [[624ء]] تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم ال{{ا}}ہی کے مطابق [[خانہ کعبہ|کعبہ]] ([[مکہ]]) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ [[17ھ]] یعنی [[639ء]] میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ [[عبد الملک بن مروان|عبد الملک]] کے عہد میں یہاں مسجد اقص{{ا}}ی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
 
[[1099ء]] میں [[پہلی صلیبی جنگ]] کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ [[1187ء]] میں سلطان [[صلاح الدین ایوبی]] نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
 
== جدید تاریخ اور یہودی قبضہ ==
 
[[پہلی جنگ عظیم]] [[دسمبر]] [[1917ء]] کے دوران [[سلطنت برطانیہ|انگریزوں]] نے بیت المقدس اور [[فلسطین]] پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاری{{ا}} کی سازش کے تحت [[نومبر]] [[1947ء]] میں [[اقوام متحدہ]] کی [[جنرل اسمبلی]] نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب [[14 مئی]] [[1948ء]] کو یہودیوں نے [[اسرائیل]] کے قیام کا اعلان کر دیا تو [[عرب اسرائیل جنگ 1948|پہلی عرب اسرائیل جنگ]] چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے [[اردن]] کے قبضے میں آ گئے۔ [[6 روزہ جنگ|تیسری عرب اسرائیل جنگ]] ([[جون]] [[1967ء]]) میں اسرائیلیوں نے بقیہ [[فلسطین]] اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے "[[دیوار گریہ]]" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقص{{ا}}ی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
 
{{Commonscat|Jerusalem}}