"اسلامیہ کالج یونیورسٹی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ملف Islamia_College_University_Peshawar_gallerypic_1.jpg کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اسے کامنز میں Jameslwoodward نے حذف کردیا ہے
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 27:
== تاریخی مقام ==
 
[[تصویر:Islamiacollege.jpg|framepx200|thumb|left|اسلامیہ کالج پشاور]]بعض مغربی محقیقن کے مطابق اسلامیہ کالج پشاور اور [[گورڈن کالج خرطوم]] کی تاریخ اور کارکردگی میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامیہ کالج پشاور ، [[مسلم یونیورسٹی علی گڑھ]] اور [[دارالعلوم دیوبند]] کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اگر ایک طرف سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان اس کالج کے روح رواں تھے جو [[سر سید احمد خان|سرسید]] کے مسلک اور [[تحریک علی گڑھ]] کے زبردست حامی تھے تو دوسری طرف کالج کی مسجد اور [[اسلامیہ کالجیٹ ا سکول]] کا سنگ بنیاد 1912ء میں [[حاجی صاحب ترنگزئی]] نے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ حاجی صاحب ولی اللہمی مسلک کے پروکار تھے۔ ۔ اور جنہوں نے [[مولانا محمود الحسن]] صدر مدرسہ ، دیوبند کے ایماء پر انگریز سرکار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔
 
اگر اسلامیہ کالج پشاور کے کردار کا غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جو خدامات اور کارنامے علی گڑھ اور دیوبند مکاتب فکر نے مشترکہ طور پر ادا کیے ہیں۔ وہی سب کچھ اسلامیہ کالج پشاور نےاکیلے سرانجام دیا ہے۔ کیونکہ یہاں جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کا بطریق احسن اہتمام کیا جاتا ہے۔ نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان علی گڑھ مکتبہ فکر سے حد درجہ متاثر تھے۔ یہ آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار نے صوبہ سرحد کو اس فہرست میں شامل کیا۔ جن جن صوبوں میں وہ اصلاحات نافذ کرنا چاہتی تھی۔ نواب صاحب صدقِ دل سے چاہتے تھے کہ صوبہ سرحد جو بیس کی دہائی میں ’’سرزمین بے آئین ‘‘ اور پوڈر میگزین‘‘ جیسے ناموں سے یا کیا گیا ۔ ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں شامل ہو جائے۔ اسلامیہ کالج پشاور صوبہ سرحد کا وہ شمع فروزاں ہے جس نے صوبہ سرحد ، اس سے ملحقہ قبائلی علاقے اور [[افغانستان]] کو علم کی روشنی سے منور کیا۔ اور ایسے عظیم راہنماؤں کو جنم دیا جنہوں نے عہد غلامی میں مسلمانانِ ہند کی راہنمائی کا عظیم ترین فریضہ سرانجام دیا۔