"سنت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م clean up, replaced: ← (35) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
== سنّت کیا ہے؟ ==
 
دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج (قائم-شدہ، جاری) طریقہ جو خواہ [[نبی]] صلی الله علیہ و سلم سے ثابت ہو، یا [[صحابہ]] (رضی الله عنھم) سے
 
* دلیل_قرآن
سطر 15:
* دلیل_حدیث
 
أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ , عَزَّ وَجَلَّ , وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبِشِيًّا ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، "فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ" ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ
 
میں تم لوگوں کو تقوی اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تمہارا حاکم [[حبشی]] غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار ([[شریعت]] کے خلاف [[دین]] میں) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ "لہذا تم میں سے جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہیے کہ میرے اور [[خلفائے راشدین]] مہدیین (ہدایت یافتہ) کی سنت کو لازم پکڑے"۔ تم لوگ اسے (سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔
سطر 23:
 
لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے،
 
جیسے قرآن مجید میں ہے:
سطر 34:
اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں. سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی '''روش''' بھی یہی رہی ہے .
 
جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا ہے:
 
"من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ"۔
سطر 40:
 
ترجمہ:جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔
لیکن محدثین اور فقہاء جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛ چنانچہ محدثین سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ہی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبدالحق دھلویؒ:۳) مگرفقہاء سنت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے علاوہ صحابہ کرام کے اقوال اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں، امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"والمراد بھا شرعاً ماسنہ رسول اللہﷺ والصحابۃ بعدہ عندنا"۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
 
* قولِ رسول
 
قولِ رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول اللہﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے علاوہ ادا ہوا ہو، اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے:
انماالاعمال بالنیات، البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
سطر 54:
سنت میں افعالِ رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کو امام ومقتدیٰ بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے "وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ" (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔ (الاعراف:۱۵۸)
 
"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (الاحزاب:۲۱)
 
ترجمہ:تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
 
اس لیے علماء اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علماء اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے ہیں۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
 
* تقریرِ رسول
 
حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور یہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سنت سکوتی کے بارے میں لکھا ہے:
"وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه أوفي عصره وعلم به، أويسكت عن إنكار فعل فعل بين يديه أوفي عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز"۔
(ارشادالفحول:۸۹)
 
ترجمہ:سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا، یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔
مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:۲/۵۹۱) تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔
(السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
 
سطر 78:
[[نکاح]] کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ [[قربانی]] کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ [[مسواک]] کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا.
 
سنت کا لفظ ایسے عمل متوارث پر بھی بولا جاتا ہے جس میں نسخ کا کوئی احتمال نہ ہو،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ؛ مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو، حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت و ضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہےاور اہل سنت کہلاتے ہیں، حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں، مسلکاً یہ حضرات [[اہلسنت]] شمار ہوتے تھے۔
 
* دلیل_حدیث
سطر 117:
== لفظ سنت کا استعمال ==
 
حدیث اپنے عمل کے پہلو سے سنت sunnath کہلاتی ہےاور یہ اطلاق ہر مکتب ِفکرمیں عام رہا ہے، سنت کے لفظی معنی راہ عمل کے ہیں اسے واضحہ(شاہراہ)بھی کہا گیا ہے۔
"أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ سُنَّتْ لَكُمْ السُّنَنُ وَفُرِضَتْ لَكُمْ الْفَرَائِضُ وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ"۔
(مؤطاامام مالک، باب ماجاء في الرجم، حدیث نمبر:۱۲۹۷،شاملہ،موقع الاسلام)
 
حضورﷺ نے اپنے طریق عمل کے لیے خود بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
 
==حضورﷺ کی زبان مبارک سے==
 
(۱)حضرت انس بن مالکؓ(۹۳ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا :
"اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"۔
(بخاری،بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ، حدیث نمبر:۴۶۷۵،شاملہ،موقع الاسلام)
 
ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں، جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔
اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں، جو آپ کے طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔
(۲)ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ:
"اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ قَالَ فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ،الخ"۔
(ابو داؤد،بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقَصْدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۱۱۶۲،شاملہ،موقع الاسلام)
 
ترجمہ:نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بلانے کے لیے بھیجا، حضرت عثمانؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں، آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔
حضور اکرمﷺ نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
"مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْأُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَاتُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَايَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۱،شاملہ،موقع الاسلام)
 
ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔
اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے چاہئیں، ان پر کبھی موت نہیں آسکتی، اسلام کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہوجائے ؛لیکن اسے پھر سے زندہ کرنے کا اسلام میں پورا اہتمام کیا جائے گا، حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت ہے، ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
"فنعلم أن المسلمين كلهم لا يجهلون سنة"۔
(کتاب الام:۷/۳۰۵،شاملہ،موقع یعسوب)
 
سطر 150:
 
حصین بن المنذر ابو ساسان کہتے ہیں کہ جب ولید کو حد مارنے کے لیے حضرت عثمان ؓ کے پاس لایا گیا تو وہاں میں موجود تھا، آپؓ نے حضرت علی مرتضیؓ کو حکم دیا کہ ولید کو کوڑے لگائیں، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت حسن سے کہا کہ وہ کوڑے لگائیں؛انہوں نے عذر کیا تو پھر آپ ؓنے عبداللہ بن جعفرؓ سے کہا کہ وہ ولید پر حد جاری کریں، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علی گنتے جاتے تھے جب چالیس ہوئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا بس !یہیں تک اور فرمایا:
"جَلَدَ النَّبِيُّﷺ أَرْبَعِينَ وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔
(مسلم،بَاب حَدِّ الْخَمْرِ،حدیث نمبر:۳۲۲۰،شاملہ،موقع الاسلام)
 
ترجمہ: آنحضرتﷺ نے (شراب پینے والے پر)چالیس کوڑوں کا حکم فرمایا، حضرت ابوبکرؓ بھی چالیس کوڑوں کا ہی حکم دیتے رہے،حضرت عمرؓ نے اسی کوڑوں کا حکم دیا اور ان میں سے ہرایک حکم سنت شمار ہوگا۔
 
اس روایت میں جہاں اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک حضرت علی ؓ خلفاءِ ثلٰثہ کے ساتھ امور سلطنت میں برابر شریک رہتے تھے اور حضرت عمرؓ کے عمل کو سنت تک کا درجہ دیتے تھے وہاں اس بات کی بھی پوری تائید ملتی ہے کہ لفظ سنت اس دور میں اکابر صحابہ کے عمل تک کو بھی شامل تھا۔
سطر 159:
==خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ==
 
آنحضرتﷺ نے اپنی زبان مبارک سے بھی خلفائے راشدین کے عمل پر لفظ سنت کا اطلاق فرمایا ہے،حضرت عرباض بن ساریہؓ(۷۵ھ) کی روایت میں حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:
"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۰،شاملہ،موقع الاسلام)
سطر 168:
== سنت کی نسبت دوسرے صحابہؓ کی طرف ==
 
آپﷺ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک عمل کی اطلاع ملی،آپ نے اسے ان الفاظ میں پروانۂ منظوری دیا:
"إن ابن مسعود سن لكم سنة فاستنوا بها"۔
(مصنف عبدالزاق:۲/۲۲۹،شاملہ،موقع یعسوب)
سطر 178:
 
ترجمہ:بےشک معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کردی ہے، اسی طرح تم اس پر عمل کرو۔
اس قسم کی روایات میں آنحضرتﷺ نے صحیح طور پر لفظ سنت دوسرے صحابہ کے لیےاستعمال کیا ہے؛ پھر صحابہ کرامؓ بھی اکابر صحابہ کے عمل وفیصلےپر سنت کا لفظ بولتے تھے۔
 
== اچھا طریقہ "سنّت" ہے ==
سطر 192:
عبداللہ بن عبدالرحمن، محمد بن عیینہ، مروان بن معاویة، حضرت کثیر بن عبداللہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جان لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا جان لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہ "جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی" تو اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اسی پر عمل کرنے والے کے لیے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے انکے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔
یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں جبکہ کثیر بن عبد اللہ، عمرو بن عوف مزنی کے بیٹے ہیں۔
[[http://www.islamweb.net/hadith/hadithServices.php?type=2&cid=4011&sid=6176 جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 588 علم کا بیان : سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کے بارے میںسنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 209, سنت کی پیروی کا بیان : جس نے مردہ سنت کو زندہ کیاالسنة لأبي بكر بن الخلال : بَابُ جَامِعِ التَّوَكُّلِ لِمَنِ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى ... » رقم الحديث: 24; سنة الوفاة: 311;]
[http://www.islamweb.net/hadith/dyntree1.php?type=3&sid=30002&bk_no=349&cid=4011 الحكم: إسناده متصل، رجاله ثقات]]
 
== حوالہ جات ==
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/سنت»