"کھوار زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← (41) using AWB
تحسینی تبدیلی+درستی املا, typos fixed: ھے ← ہے (2), تقریبا ← تقریباً (2) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 22:
==تاریخ==
 
کھوار زبان چترال میں بولی جانے والی ایک [[ہند-یورپی زبان]] ہے۔ چترال میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے اور اس زبان نے چترال میں بولی جانے والی دیگر زبانوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ چترال کے اہل قلم نے اس زبان کو بچانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ چترال کے تقریباتقریباً اسی فیصد افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ [[کھوار اکیڈمی]] نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کے لیے [[یونیسکو]] (UNESCO) سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں کھوار (چترالی زبان) سر فہرست ہے۔ چترالی زبانوں کے فروع کے لیے ادبی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر یہ کام سستی کا شکار ہے۔ اور چترالی زبانیں امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔
 
کھوار زبان [[ایرانی زبانیں|ایرانی زبانوں]] کے [[مغربی ایرانی زبانوں کی فہرست|مغربی گروہ]] سے تعلق رکھتی ہے جو کہ [[ہند۔یورپی زبانیں|ہند-یورپی]] زبانوں کی ایک شاخ ہے ۔عالمی سطح یہ ہند یوروپی، ہند ایرانی، ہند آرین، دردی زبان تصور کی جاتی ہے۔ اس زبان پر سب سے پہلے جن لوگوں کے قلم اٹھایا وہ مستشرقین تھے لیکن ان کا سارا کام رومن میں ہے اور ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے۔
سطر 29:
 
چترالی زبان کو پرانے زمانے میں کاشکری اور آرنیہ بھی کہا جاتا تھا.
یہ زبان افغانستان میں بھی بولی جاتی ھےہے. افغانی ربان میں اس زبان کو "کوہواری" یا "کھواری" بھی کہا جاتا ھےہے. جس کا مطلب "پہاڑوں کے لوگ" یا زبان ھے_
 
کھوار بولنے والوں کی کل تعداد [[سمر انسٹیٹیوٹ آف لنگوسٹکس]] نے 1992ء میں صرف دو لاکھ بیالیس ہزار لکھی ہے لیکن چترالی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم ادبی تنظیم کھوار اکیڈمی نے [[رحمت عزیز چترالی]] کی حالیہ تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں کھوار بولنے والوں کی کل تعداد 10 لاکھ لکھی ہے جو کہ صحیح اعداد و شمار ہیں۔
سطر 83:
آپ۱۶ دسمبر ۱۹۸۹ء کو سول ہسپتال دروش میںانتقال کر گئے۔کلاسیکی دور کے ایک اہم نام امیر گل خان ہیں ان کے کلام میں تصوف اور معرفت کی چاشنی بھر پور طور پر موجود ہے۔ آپ کو چترال میں موسیقی کے حوالے سے خصوصی مقام حاصل ہے۔ آپ جتنے اچھے گیت نگار ہیں اتنے ہی اچھے مو سیقاربھی ہیں۔ آپ نے عشقیہ گانوں کے علاوہ حمد ، نعت ، مرثیے اور قومی ترانے بھی لکھے (۱۰۵)۔ پروفیسر اسرار الدین کے مطابق آپ پہلے کھوار شاعر ہیں ۔جنہو ں نے باقاعدہ طور پر حمد لکھی ۔ ان کا ایک حمدیہ بند حا ضر ہے جو کہ صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]خداتعالی طرح طرح سے اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے کہیں صلیب کے اُوپر منصور کی مستی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور )اس سب کے باوجود(اللہ تعالٰی لا شریک بادشاہ ہے۔اور اس کی ہستی واحد اور بلند ہے(۱۰۶)۔
 
قدیم دور کے مقابلے میں جدید دور میں کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔قدیم ادوار میںحکمرانوں کی زبان کیو ں کہ فارسی رہی ہے۔ اس لیے کھوار ادب بھی ترقی نہیں کر سکامگر قیام پاکستان کے بعد عموماً اور موجودہ دور میں خصوصاً کھوار ادب میں نئے نئے تجربے ہوئے اور شعراء نے دیگر اضاف ادب کے ساتھ ساتھ حمد اور نعت پر بھی توجہ صرف کی۔کھوار ادب میں نعت تو کافی ملتی ہے البتہ حمد کے حوالے سے یہ ادب اتنا ثروت مند نہیں۔روایت کے طور پر حمد تقریباًتقریباًً سارے شعراء کے ہاں ملتی ہے مگر ابتداء میں ہو،یہ ضروری نہیں ۔ جدید دور کے شعراء کے ہاں کوشش کی جارہی ہے کہ تمام شعری کتب حمد و نعت سے شروع ہوں البتہ بسم اللہ سے دیوان کی ابتدا کرنے کا رجحان قدیم ہے۔حمد کو صنف شاعری کے طور پر رواج دینے والے شعراء میں قاضی ملغت خان بڑے اہم شاعر ہیں ۔یہ تورکھو سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا کلام دستیاب نہیں ہو سکا۔ان کے بعد بابا فردوسی، باباایوب خان ایوب، ناجی خان ناجی، محمد چنگیز خان طریقی، مولاناپیر محمد چشتی، مولانا نقیب اللہ رازی، گل نواز خان خاکی، اقبال حیات، محمد جاوید حیات، جاوید حیات کاکا خیل، فداالرحمن فدا۔ عبدالولی خان، پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیزچترالی، نورالہادی، عنایت الرحمن پرواز وغیرہ حمد لکھنے والے شعراء میں شامل ہیں۔مرزا فردوس فردوسی کو سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے مجموعہ کلام میں حمدیہ اشعار شامل کیے ان کے بعد رحمت عزیز چترالی نے اپنے مجموعہ کلام ۔’’گلدستہ رحمت‘‘ میں کئی حمدیں شامل کیں جو کہ ایک نیارجحان ہے۔ان کی ایک نظم کا ترجمہ پیش ہے جو کہ انھوں نے بچوں کے لئے لکھی۔وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]اے اللہ! اے میرے خدایا! یہ زمین بھی تیری ،یہ آسما ںبھی تیرا ، یہ پتھر ،یہ مٹی،یہ ریت اور پتے بھی تیرے ۔یہ پودے ،یہ فصلیں ، گاجر اور آلو ، سیب ، [[خوبانی]] اور [[آرڑو]] کے یہ درخت بھی تیرے ۔تیری رحمتوں کا شکر میں ادا نہیں کر سکتا)یعنی تیری رحمتیںبے کنار ہیں(میری سانسیں بھی تیری عطا ہیں ۔میری حرکت اور جان بھی تیری ہے۔میں گنہگار بندہ ہوں مگر پھر بھی تیری رحمت سے نا اُمید نہیں ہوں۔ تو ہی مجھ جیسے گنہگار پر رحم کر کیونکہ تو رحیم ہے۔تو غفور بھی ہے، تو غفار بھی ہے۔ اے اللہ سب مسلمانوں کے گناہ معاف فرما کیونکہ یہ سب تیرے ہی بندے ہیں (۱۰۷)۔
 
کھوار ادب میں اب ایک تحریک کی صورت میں حمد نگاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ اور ان تحریک کو فروغ دینے میں جمہور الاسلام، ماہنامہ شندور، ماہنامہ ژھنگ، صدائے چترال ، ہندو کش ، ھمکلام، بزم کھوار اورچترال وژن پیش پیش ہیں۔کھوار ادب میں کچھ مجموعہ جات حمد سے خالی بھی دستیاب ہیں اس حوالے سے ذاکر محمد زخمی کے مجموعہ کلام کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس کی ابتداء حمد سے نہیں کی گئی (۱۰۸)کھوار ادب میں بھی حمد سے زیادہ قدیم مناجات ہے گو مناجات بھی حمد کے ذیل میں شامل ہے مگر وہ مناجات بہت کم ہیں جن میں شاعر نے تعریف و توصیف کے بعد دعا مانگی ہے۔اور تعریف و توصیف اور بڑائی کے بغیر مانگی گئی دعایا مناجات التجا، درخواست، منت اور زاری تو ہو سکتی ہے حمد نہیں۔ کھوار زبان میں ابھی تک کوئی حمدیہ مجمویہ شائع نہیں ہوا مگر چند مجموعے ایسے ہیں جن میں حمد و مناجات کو روایت سے ہٹ کرزیادہ صفحات دئیے گئے ہیں ۔اس حوالے سے رحمت عزیز چترالی کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ گلدستٗہ رحمت ‘‘میں پہلی دفعہ تیرہ حمدویں شامل کیں ان کے بعد پروفیسر اسرارالدین کے مجموعے ’’درون ہنو‘‘کی باری آتی ہے کہ اس میں ۲۹ سے ۶۶ صفحہ تک حمدومناجات کو جگہ دی گئی ہے۔پروفیسر اسرارالدین کی حمد کا منظوم ترجمہ پیش ہے :۔ اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو لا شریک وحدہ لا الہ الا ھو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو ارد گرد بھی تو درمیان میں بھی تو ادھر بھی تو ادھر بھی تو غائب بھی تو حاضر بھی تو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو (۱۰۹) مترجم)رحمت عزیز چترالی