"جاذب قریشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
'''جاذب قریشی''' کا شمار اس عہد کے نامور اردو شاعروںشعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے خاندان کا تعلق لکھنئو سے تھا مگر وہ 3 اگست 1940 کے دن کلکتہ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد گورنمنٹ پریس میں نوکری کر رہے تھے۔ پیدائش کے وقت جاذب قریشی کا نام محمد صابر رکھا گیا۔ ان کے والد کا نام محمد افضل شیخ اور والدہ کا نام محمودہ خانم تھا۔ جاذب قریشی پانچ سال کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ والد کی وفات کے بعد جاذب قریشی کا خاندان جو ان کے علاوہ والدہ، اور دو چھوٹے بھائیوں شاکر اور ذاکر پہ مشتمل تھا شدید مالی مصیبت کا شکار ہو گیا۔ ان چاروں کے ساتھ جاذب قریشی کی ایک مرحومہ خالہ کی دو لڑکیاں طاہرہ اور عائشہ اور ایک دوسری متوفی خالہ کا لڑکا محمد احمد رہتے تھے۔ جاذب قریشی کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور وہ اپنے بھائی شاکر کے ساتھ ڈھلائی کے ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ دونوں بھائیوں اور خالہ زاد بھائی محمد احمد کے کام کرنے سے گھر کے مالی حالات کچھ سدھرے تو جاذب قریشی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں اپنے ماموں دلدار خان کے پاس الہ باد پہنچ گئے۔ ان کے ماموں ٹینس کے کوچ تھے اور اچھی مالی حیثیت رکھتے تھے۔ ماموں نے بھی بھانجے کی مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا مگر اگلے دن جاذب قریشی کی والدہ وہاں پہنچ گئیں اور جاذب قریشی کو واپس لکھنئو لے آئیں جہاں جاذب قریشی پھر ڈھلائی کے کام میں لگ گئے۔ لکھنئو میں ہی جاذب قریشی کے ایک اور خالہ زاد بھائی عبدالواحد رہتے تھے جو شمیم لکھنوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ جاذب قریشی کو عبدالواحد کے ساتھ مشاعروں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے جاذب قریشی کو شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔
مئی 1950 میں جاذب قریشی اپنے گھر والوں کے ساتھ لکھنئو چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ لاہور میں جاذب قریشی ایک چھاپہ خانے میں کام کرتے اور رات کے وقت غزلیں لکھتے۔ لاہور میں شاعری کرنے کے دوران جاذب قریشی نے شاکر دہلوی نامی ایک مقامی بزرگ شاعر کو اپنا استاد مانا اور شاکر دہلوی کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کی۔ ایک دن جاذب قریشی کے ایک جاننے والے شوکت ہاشمی نامی آدمی نے ان سے کہا کہ، "اگر آپ کو سنجیدگی سے شاعری کرنی ہے تو پہلے اپنے آپ کو شاعری کا اہل بنائیے <br />اور کچھ لکھنا پڑھنا سیکھیے۔" شوکت ہاشمی کی اس بات کا جاذب قریشی پہ گہرا اثر ہوا اور انہوں نے اپنی باقاعدہ تعلیم کا سفر پھر سے شروع کیا۔ وہ شاہ عالمی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں رات کے وقت تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انہوں نے اس درمیان افسانے بھی لکھے۔ اور اسی دور میں وہ حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی نشستوں میں بھی شریک ہوئے جہاں منٹو، اے حمید، مختار صدیقی، اور عبادت بریلوی وغیرہ اپنی تحریریں تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ جس وقت جاذب قریشی میٹرک کی تعلیم پرائیویٹ حاصل کر رہے تھے ان کے بھائی اور والدہ کراچی چلے آئے۔ جاذب قریشی اپنے ماموں کے ساتھ لاہور میں رہے جہاں ماموں نے بھانجے کے تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہر ممکن مدد کی۔ جاذب قریشی نے لاہور میں کچھ عرصہ اورینٹل کالج میں بھی گزارا جہاں حبیب جالب ان کے ہم جماعت تھے۔
لاہور میں قیام کے دوران ہی جاذب قریشی مخلصین ادب نامی ایک ادبی ادارے کے سیکریٹیری بھی رہے۔ اس ادارے کو فروغ لکھنوی نے قائم کیا تھا اور اس کی محافل انارکلی کے عقب میں ایک صوفی کے تکیے پہ ہوا کرتی تھیں۔