"وحی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ)
م clean up, replaced: ← (7) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
'''وحی''' اس کلام کو کہتے ہیں جس کو [[اللہ]] تعالٰی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ [[ابن الانباری]] نے کہا کہ اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ [[ایمان بالملائکہ|فرشتہ]] اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی [[پیغمبر|نبی]] کے ساتھ مخصوص ہے جو کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، [[قرآن]] مجید میں ہے
{{اقتباس قرآن
| وَكَذَ‌ٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
سطر 29:
ہر مسلمان جانتا ہے کہ [[اللہ]] تعالٰی نے [[انسان]] کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کرکے پوری [[کائنات]] کو اس کی خدمت میں لگادیا ہے لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں، ایک یہ کہ اس [[کائنات]] سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے [[اللہ]] تعالٰی کے احکام کو مد نظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو [[اللہ]] تعالٰی کی مرضی کے خلاف ہو۔
ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو [[سائنس|علم]] کی ضرورت ہے ،اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کونسی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا نیز اسے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالٰی کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کونسے کاموں کو پسند اور کن کاموں کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے اور جوباتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
جہاں تک حواس خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں تک حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے یہ بھی ایک حد تک جاکر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالٰی راضی ہوتے ہیں اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہوتے ہیں، اس علم کا جو ذریعہ اللہ تعالٰی نے مقرر فرمایا ہے وہ "وحی" ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اسے پیغمبر قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اسی کلام کو وحی کہا جاتا ہے ۔
صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہی ہو جائے بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں؛ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی اور رسالت ہے، اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے، یہ وحی اللہ تعالٰی نے ان ہزاروں پیغمبروں پر نازل فرمائی جنھوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا؛ یہاں تک کہ حضور اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔.
سطر 39:
ایک تو قرآن کریم کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے اور جو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ اور شوشہ بھی نہ بدلا جاسکا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے، اس وحی کو علماء کی اصطلاح میں "وحی متلو" کہا جاتا ہے یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے.
 
دوسری قسم اس وحی کی ہے جو قرآن کریم کا جز نہیں بنی؛ لیکن اس کے ذریعہ آپ کو بہت سے احکام عطا فرمائے گئے ہیں اس وحی کو"وحی غیر متلو" کہتے ہیں یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ،عموماً وحی متلو یعنی قرآن کریم میں اسلام کے اصول عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا، کیا گیا ہے ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے عطا فرمائے گئے یہ وحی غیر متلو صحیح احادیث کی شکل میں موجود ہے اور اس میں عموماً صرف مضامین وحی کے ذریعے آپ پر نازل کئے گئے ہیں ان مضامین کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے۔
 
ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:
سطر 90:
وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ اسلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر، پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔ (فتح الباری۱/۱۸،۱۹)
 
وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْح۔ (بخاری،حدیث نمبر:۳/باب بدءالوحی)
آپ پر وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی اس وقت جو آپ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔
 
وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء (ڈالنا) فرمادیتے تھے اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں: جیسے حدیث پاک میں ہے:
سطر 109:
اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ: ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا ؟ (اے پیغمبر!)ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہرٹھہرکرپڑھوایاہے اورجب کبھی یہ لوگ تمہارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں ،ہم تمہیں (اس کا)ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں یہاں ان کا خلاصہ سمجھ لینا کافی ہے، فرماتے ہیں کہ:
۱۔ اگر پورا قرآن ایک دفعہ نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے ۔
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/وحی»