"سورہ القلم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م clean up, replaced: ← using AWB
سطر 17:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 68 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 52 آیات ہیں۔
 
== نام ==
سطر 33:
پھر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے نام لیے بغیر مخالفین میں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہل مکہ خوب جانتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ {{درود}} کے پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے، اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت میں مکہ کے جو سردار پیش پیش ہیں ان میں کس سیرت و کردار کے لوگ شامل ہیں۔
 
اس کے بعد آیت 17 سے 33 تک ایک باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے جنہوں نے اللہ سے نعمت پاکر اس کی ناشکری کی اور ان کے اندر جو شخص سب سے بہتر تھا اس کی نصیحت بروقت نہ مانی، آخرکار وہ اس نعمت سے محروم ہو گئے اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب ان کا سب کچھ برباد ہوچکا تھا۔ یہ مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ {{درود}} کی بعثت سے تم بھی اسی آزمائش میں پڑ گئے ہو جس میں وہ باغ والے تھے۔ اگر ان کی بات نہ مانوں گے تو دنیا میں بھی ‏عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
 
پھر آیت 34 سے 47 تک مسلسل کفار کو فہمائش کی گئی ہے جس میں کہیں تو خطاب براہِ راست ان سے ہے اور کہیں رسول اللہ {{درود}} کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل تنبیہ ان کو کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ [[آخرت]] کی بھلائی لازماً انہی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالٰی کے ہاں فرمانبرداروں کا انجام وہ ہو جو مجرموں کا ہونا چاہیے۔ کفار کی یہ غلط فہمی قطعی بے بنیاد ہے کہ خدا ان کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جو وہ خود اپنے لیے تجویز کرتے ہیں، حالانکہ اس کے لیے انہیں کوئی ضمانت حاصل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو دنیا میں خدا کے آگے جھکنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ اس سے انکار کرتے ہیں، [[قیامت]] کے روز وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو بھی نہ کر سکیں گے اور ذلت کا انجام انہیں دیکھنا پڑے گا۔ قرآن کو جھٹلا کر وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ انہیں جو ڈھیل دی جا رہی ہے اس سے وہ دھوکے میں پڑ گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تکذیب کے باوجود جب ان پر عذاب نہیں آ رہا ہے تو وہ صحیح راستے پر ہیں، حالانکہ وہ بے خبری میں ہلاکت کی راہ پرچلے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس رسول کی مخالفت کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک بے غرض مبلغ ہے، اپنی ذات کے لیے ان سے کچھ نہیں مانگ رہا ہے، اور وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ انہیں اس کے رسول نہ ہونے اور اس کی باتوں کے غلط ہونے کا علم حاصل ہے۔
 
آخر میں رسول اللہ {{درود}} کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغِ دین کی راہ میں پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور اس بے صبری سے بچیں جو [[یونس علیہ السلام]] کے لیے ابتلا کا موجب بنی تھی۔
 
{{سورت