"معرکہ بلاط الشہداء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م bot: removed {{Link GA}}, it is now given by wikidata
م clean up, replaced: ← , ← (2) using AWB
سطر 1:
{{حرب
|محاربہ= جنگ دربار شہداء<br /> <small>جنگ بلاط الشہداء</small> <br /> [[غال پر اموی حملے]]
|سلسلۂ_محارب=
|تصویر=
سطر 24:
}}
 
جنگ دربار شہداء ([[عربی زبان]]:'''معرکہ بلاط الشہداء''' اور [[انگریزی زبان]]: Battle of Tours)،
[[10 اکتوبر]] [[732ء]] (114ھ) کو موجودہ [[فرانس]] کے شہر تورز ([[فرانسیسی زبان]] میں توغ) کے قریب لڑی گئی جس میں [[اسپین]] میں قائم خلافت [[بنو امیہ]] کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
 
[[اندلس]] کی فتح کے وقت سے مسلمانوں کی یہ خواہش تھی کی وہ فرانس پر قبضہ کریں۔ فرانس پر باقاعدہ حملہ ہشام کے زمانہ میں ہوا جس کے بدولت مسلمان وسط فرانس تک پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
 
== عنبسہ کا حملہ ==
 
107ھ میں [[عنبسہ]] امیر اندلس نے [[غال]] پر باقاعدہ لشکر کشی کی اور [[قرقشونہ]] فتح کیا۔ قرقشونہ کی فتح کی بنا پر [[سپٹی مینیا]] کا تمام علاقہ کی اطاعت قبول کر لی۔ سپٹی مینیا کے بعد عنبسہ غال کے اندرونی حصے کی طرف بڑھا اور [[دریائے رہون]] کی وادی کو روندتے ہوئے لیابس فتح کیا۔ اس کے بعد [[برگنڈی]] کا رخ کیا اور شہر [[اوٹن]] تک کے علاقہ کو زیر و زبر کردیا۔ اس دوران امیر عنبسہ چند دیہاتیوں کے ہاتھوں زخمی ہو گئے لٰہذا [[عروہ بن عبداللہ]] کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ زخم کاری تھے جن سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ یکے بعد دیگرے چند والیوں کا تقرر کیا گیا لیکن بالاخر امیر [[عبدالرحمن بن عبداللہ الغافقی]] اندلس کے والی مقرر کئے گئے ۔
 
== عبدالرحمن الغافقی کی تقرری ==
سطر 40:
 
== جنگ ==
مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ علاوہ ازیں مسلمان افواج میں [[بربر]] اور [[عرب]] گروہ کے درمیان کشیدگی موجود تھی۔ [[مال غنیمت]] کی فراوانی بھی ان کی جنگ سے جی چرانے پر مجبور کر رہی تھی۔ لیکن امیر عبدالرحمن نے اپنی پر تاثیر شخصیت سے کام لے کر فوج میں نئی روح پھونک دی اور مقابلہ آرائی کے لیے تیار کیا۔ ایک ہفتہ افواج آمنے سامنے پڑی رہیں لیکن امیر سے اب ضبط نہ ہو سکا۔ بڑھ کر حملہ کر دیا صبح سے شام تک خونریز جنگ ہوئی مگر رات پھیل جانے کے سبب دوسرے دن تک ملتوی کر دی گئی مسلمان بڑی بہادری اور خوش دلی سے میدان جنگ میں اترے تھے انہیں اپنی فتح کا کامل یقین تھا سات آٹھ روز تک چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ نویں دن دونوں فوجوں کے درمیاں صبح سے شام تک بڑی خوفناک جنگ ہوئی لیکن یہ معرکہ آرائی بھی فیصلہ کن نہ تھی ۔ دسویں دن علی الصبح ہی جنگ کا آغاز کر دیا گیا دنوں اطراف سے بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے پر حملے ہوتے رہے تلواروں کی جھنکار اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے میدان جنگ میں عجیب شور محشر برپا تھا۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا اور آثار دکھائی دے رہے تھا کہ عیسائی فوج تھک ہار کر اب میدان سے پسپا ہونے کو ہے کہ اچانک ایک شخص نے افواہ اڑا دی مسلمانوں کا مال غنیمت خطرے میں ہے۔ مال غنیمت کے چھکڑے کے چھکڑے لدے ہوئے ساتھ تھے۔ سپاہی دوڑ کر اپنے خیموں پر ٹوٹ پڑے تاکہ مال غنیمت کی حفاظت کر سکیں اس افراتفری کو روکنے کے لیے امیر عبدالرحمن نے بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔ عین اس وقت جب کہ وہ اپنی افواج کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے ایک تیر آکر انہیں لگا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر گئے۔ امیر کی عدم موجودگی میں فوج میں ابتری پھیل گئی اور فتح کی امید جب ایک واہمہ بنتی نظر آئی تو بڑی تیزی سے یہ لشکر رات کی تاریکی میں جنوب کی طرف سے اپنے فوجی مرکز سپٹی مینیا تک پسپا ہوگیا۔ صبح طلوع ہوئی تو میدان صاف اور خاموش پا کر عیسائی افواج حیران و ششدر رہ گئیں انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ مسلمان فوج مال غنیمت کے انبار چھوڑ کر پسپائی اختیار کر چکی ہے۔ وہ اسے کوئی جنگی چال سمجھتے ہوئے برے حزم و احتیاط کے ساتھ میدان میں قدم رکھ رہے تھے۔ بہرحال چارلس مارشل نے تعاقب مناسب نہ سمجھا اور اپنی افواج کے ساتھ شمال کی طرف واپس چلا گیا۔
 
== اہمیت ==