"دعوت ذو العشیرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستگی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
م clean up, replaced: ← (10) using AWB (ٹیگ: القاب) |
||
سطر 1:
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور ہوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم ہوا ۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ہے : آنحضرت
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولہب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر ہوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبدالمطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنہا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخر آمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنہا تھے کیونکر آنحضرت
ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے :
تاریخ طبری کے مطابق حضور اکرم {{درود}} نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہ میرا بھائی اور میرا وصی اور تم میں میرا خلیفہ ہے تم اس کی بات سنو اور جو کہے اسے بجا لاؤ۔ اس پر لوگ ہنسے اور حضرت ابوطالب سے کہا کے اے ابوطالب تم کو حکم ہوا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی اطاعت کرو اور فرماں برداری اختیار کرو۔ <ref>تاریخ امم والملوک معروف بہ تاریخ طبری از جریر الطبری جلد اول صفحہ 89 نفیس اکیڈمی کراچی</ref>
سطر 19:
== حوالہ جات ==
<references/>
[[زمرہ:حدیث]]
[[زمرہ:اہل تشیع]]
|