"محسن الملک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: منتقل از زمرہ:1907ء کی اموات بجانب زمرہ:1907ء کی وفیات
م clean up, replaced: ← (11), ← (8), ← (12) using AWB
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{Infobox Person
| name = نواب محسن الملک
| image = Mohsinulmulk.jpg
| caption =
| birth_date = 9 دسمبر 1837
| birth_place = اِتاوہ ، شمال مغربی صوبہ جات ، [[برطانوی راج|برطانوی ہند]] - موجودہ [[اتر پردیش]] ، [[بھارت]]
| death_date = 16 اکتوبر 1907
| death_place = [[شملہ]] ، [[پنجاب]] ، [[برطانوی راج|برطانوی ہند]]
| other_names = سید مہدی علی خان
| citizenship =
| known_for = [[جامعہ علیگڑھ]] کی تویج و ترقی میں کردار ، [[آل انڈیا مسلم لیگ]] کے بانی رکن
| occupation =
| religion = [[اسلام]]
| relatives =
| spouse =
| website =
| footnotes =
}}
 
آپ [[حیدرآباد، دکن|حیدر آباد دکن]] کے فنانشل اور پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔ [[علی گڑھ کالج]] کے بھی سیکٹری رہے۔ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں<ref>حیات محسن از امین زبیری </ref>۔ محمڈن ایجوکیشن کالج کی اہم مبلغ بھی۔ نواب صاحب کئی خصوصیات, وجاہت، ذہانت ، خوش بیانی اور فیّاضی کے مالک تھے جن میں سب سے پہلا ذکرو جاہت کا ہے۔ محسن الملک ایک وجیہہ شخص تھے جس سے ملنے والا بہت جلد مرعوب ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ان سے ذرا دیر کو بات چیت کرے تو ان کی خوش بیانی اور ذہانت و فیاضی کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف اپنا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ انسان کا نام رکھتے وقت اس کی خصوصیات اور خوبیوں کو نہیں دیکھا جاتا کیونکہ اس وقت ایسی خصوصیات سامنے ہی نہیں آتی۔ لہذا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نام کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس شخص میں خوبیاں اور خامیاں دوسری قسم کی ہوتی ہیں۔ وہ تمام لوگوں کے لئے اپنے دل میں ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے اور ایک ہی ملاقات میں ان کو مرعوب کردیتے۔ اسی لئے لوگ انہیں اپنا محبوب جانتے اور انہیں محسن الملک کہہ کر پکارتے. آپ نے عملی،، تقریری اور تحریری ہر طرح سے اردو زبان کی خدمت کی.
 
==مسلم لیگ كا قیام==
 
 
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ئ میں ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ نواب محسن الملك; مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔
سطر 27 ⟵ 26:
== اردو زبان کی خدمت==
 
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 میں ہی اردو ہندی تنازعہ کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جارہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔<ref>{{حوالہ کتاب | نام = حیات جاوید| مصنف = الطاف حسین حالی| صفحہ = 267| صفحات = | باب = | ناشر = | جلد = | مقام اشاعت = [[کانپور]]| تاریخ اشاعت = | سال اشاعت = 1901}}</ref>
 
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
سطر 42 ⟵ 41:
 
== اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن==
'''نواب محسن الملك''' نے 1901 ئ كو اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے '''نواب محسن الملك''' كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
 
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
سطر 53 ⟵ 52:
{{اقتباس|چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔}}
نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔
 
== حوالہ جات ==